کنٹینر کی کُوک

مولانا بتانے آئے ہیں کہ ملک تو برگر کھانے والوں سے بھی نہیں چلا، پھر داڑھی پگڑی والوں کو دیس نکالا کیوں دیا جائے؟


محمد فیصل سلہریا November 11, 2019
جانبداری کا جرثومہ پالنے والے سارے کنٹینر پر کھڑے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اسلام آباد کے آزادی مارچ میں مولانا فضل الرحمان کی بطور قائد اسلامی انقلاب جس انداز سے مہورت اتاری گئی، اس سے یہ بات تو پایہ ثبوت کو پہنچی کہ اسکرپٹ میں مطلوبہ ردوبدل کسی وقت بھی ہوسکتا ہے۔ البتہ عکس بندی پی ٹی آئی کے طے کردہ معیارکے مطابق ہوگی۔ لوکیشن: اسلام آباد (ڈی چوک ترجیحاً) سیٹ: کنٹینر (جاہ و جلال اور ضروری سہولتوں سے آراستہ) بہترین پلے بیک میوزک (ترانوں کے ذریعے) مرکزی کردار کے ساتھ نتھی کردار نقابت کے فرائض دے گا، اور اس کا انداز کاشن دینے کا ہوگا، جیسے فوجی پریڈ کرانے والا دیتا ہے۔ یہ اہم ذمے داری ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کی انجام دہی کے بعد سینیٹر شپ کا انعام ملتا ہے۔

آزادی مارچ کس کروٹ بیٹھتا ہے، یہ تو عجیب الخلقت اونٹ بنانے والی ذات ہی جانتی ہے، البتہ ہم مولانا فضل الرحمان کے برخوردار کے سینیٹر بننے کی پیش گوئی کرسکتے ہیں۔ جو اس احتجاج کا اصل اور خالص منافع ہے۔ دراصل کاروبار کوئی بھی ہو اس کی بنیادی اور پہلی شرط ہی یہ ہوتی ہے کہ اصل اور خالص منافع مال خریدتے وقت ہی پس انداز کرلیا جائے۔ مال تو اوپر والی کمائی حاصل کرنے کےلیے بیچا جاتا ہے اور ظاہر ہے یہ بالائی سب کو دودھ سے بھی زیادہ عزیز ہوتی ہے۔ سچ پوچھیے تو سارا جھگڑا اسی بالائی کا ہے۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) اور حزب اختلاف کی دو بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ بھی اسی بالائی کی وجہ سے ایک صفحے پر نہیں ہیں۔ کبھی دو قدم آگے بڑھتی ہیں تو کبھی ایک قدم پیچھے ہٹتی نظرآتی ہیں۔ البتہ اصل اور خالص منافع ان میں قدر مشترک ہے۔ یہی نکتہ ہم سادوں کو سمجھ نہیں آرہا اور اسی کو سمجھنے میں ہی خاصی توانائی صرف ہورہی ہے کہ کہاں یہ مولانا صاحب اور کہاں بلاول اور شہباز شریف۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان کو اکٹھا کس نے کیا، بلکہ اکٹھا ہونے کےلیے جواز کس نے مہیا کیا۔

حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

خان صاحب نے ہمارے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ کنٹینر پر کھڑے ہوکر وہ جن کاغذی اور سرکس کے شیروں سے ہمیں ڈراتے رہے اب وہ سارے کنٹینر پر اکٹھے ہوکر غرّا رہے ہیں۔ یہ دیکھنے کےلیے کہ آیا یہ اصلی ہیں، خان صاحب انہیں اشتعال دلانے میں لگے ہیں۔ اب تو ہمارے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ خان صاحب ہمارے ساتھ ہیں یا شیر کے۔ البتہ کنٹینر کے شیروں کو یقین ہو چلا ہے کہ جنگل کا مالک ہمارے ساتھ نہیں، اس لیے انہوں نے 'ساڈے ول تک سجنا' نئی فلم ریلیز کی ہے۔

احتیاط یہ ملحوظ رکھی گئی ہے کہ 2014 کی مشہور کنٹینر فیم فلم کے سارے مصالحے پورے کیے جائیں۔ شیروں کو لگتا ہے کہ مالک کو شاید ایسی فلم ہی اچھی لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بارہ مصالحے پورے کرنے پر ہی توجہ مرکوز ہے۔ اس نئے کنٹینر سے تاحال آئندہ کا کوئی پروگرام جاری نہیں کیا گیا۔ بس جانبداری پر ہی اعتراض کیا گیا ہے۔ گویا اس صورتحال کو ہم سادوں کےلیے آسان اور سادہ الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ نئے انتخابات کرائے جائیں اور ہمیں خدمت کا موقع دیا جائے۔ ہماری دانست میں اس سادہ اور معصوم سے مطالبے پر ہمدردانہ غور ضرور ہونا چاہیے اس لیے کہ خان صاحب کے بچوں کا مستقبل تو محفوظ ہے البتہ 'ساڈے ول تک سجنا' کے فلم سازوں کے بچوں کے بہتر مستقبل کا کون سوچے گا۔ لہٰذا اس جانبداری میں ہماری بھی گنجائش نکالیے۔ ہمیں بھی ساتھ لے کر چلیں۔

یہ ہے کنٹینر کی کُوک، جو کہہ رہی ہے ہمارے پاس ان پاکستانیوں کی تعداد زیادہ ہے جنہوں نے کبھی اسلام آباد نہیں دیکھا۔ جفاکشی ان کی بنیادی تربیت کا حصہ ہے۔ کیا ہوا برگر پیپسی ان کی خوارک نہیں، ہیں تو وہ بھی پاکستانی۔ جانبداری کا ایسا بھی کیا زعم کہ ہم داڑھی پگڑی والوں کی ہتک کو وتیرہ بنالیا جائے۔ اس ہتک کے ردعمل میں لب و لہجہ تندو تیز ہو گیا، جسے اسلام آباد کی آب و ہوا نے معتدل کردیا۔ اب ہمیں جانبداری کا احترام ہے، اور یہ محض رسمی نہیں دلی احترام ہے۔

یہ تھی کنٹینر کی کوک جو ہم سن پائے۔ مولانا صاحب یہ بتانے آئے ہیں کہ ملک تو برگر پیپسی کھانے والوں سے بھی نہیں چلا، پھر ہم داڑھی پگڑی والوں کو دیس نکالا کیوں دیا جائے؟ لہٰذا یہ دلی احترام والی بات بھی بالکل درست ہے، جس کا ثبوت یہ ہے کہ اس جانبداری کا جرثومہ پالنے والے سارے کنٹینر پر کھڑے ہیں (کھڑے محاورتاً کہا ہے، دراصل وہ تو جیلوں میں بیٹھے ہیں)۔ سپہ سالار کے انتخاب کی لت نے انہیں رسوا کیا، تو اس انتخاب سے دست کش کیوں نہ ہوئے؟ عدالت عظمیٰ کی سربراہی کی طرح مذکورہ انتخاب بھی سپاہ کے مرکز کو سونپ دیا جاتا، محض رسمی کارروائی اپنے پاس رکھنے پر اکتفا کیا ہوتا تو عوام کی کنٹینر سیکوئل کی فلموں سے اور سپہ سالار کی جانبداری کے طعنوں سے جان چھوٹی رہتی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں