نور چشم

بلیک اینڈ وائٹ فلم ’’سالگرہ‘‘ ٹی وی پر آرہی تھی، وحید مراد اور شمیم آرا کی شاندار فلم میں ایک نقطہ تھا۔


[email protected]

بلیک اینڈ وائٹ فلم ''سالگرہ'' ٹی وی پر آرہی تھی، وحید مراد اور شمیم آرا کی شاندار فلم میں ایک نقطہ تھا نور چشم۔ دانیال سے مطلب پوچھا تو ٹکڑے کرکے بتادیا کہ نور روشنی کو کہتے ہیں اور چشم آنکھ کو ''آنکھوں کی روشنی'' تو گریجویٹ کیے طالبعلم نے بتادیا لیکن نور چشم کسے کہتے ہیں وہ نہ بتاسکا، غیر شادی شدہ افراد کو کم ہی علم ہوگا کہ یہ خوبصورت الفاظ اولاد کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ کالم تین منٹ بعد باپ کی محبت کے حوالے سے ایک دلچسپ موڑ لے گا اور آخر میں آپ کے بچے کے حوالے سے اہم سوال پر ختم ہو گا۔

اسکول تھا تو لڑکے اور لڑکیوں کا لیکن عمارتیں الگ الگ تھیں۔ ایک دیوار تھی اور درمیان میں ایک دروازہ جو کبھی کبھی ہی کھلتا ہوگا۔ یہ بند دروازہ شاید مخلوط تعلیم کے دروازے کو بند کرنے کے لیے ہو۔ اسکول کا نام اور انتظامیہ ایک ہی تھی۔ انھوںنے آٹھویں کلاس کے طلبا وطالبات کے لیے ''کیریئر گائیڈنس'' کے حوالے سے ایک پروگرام رکھا تھا تاکہ نوجوان نسل کو مستقبل کی کھلی راہوں کا اندازہ ہوسکے۔ پہلے ہمیں لڑکیوں کے اسکول میں لے جایا گیا۔ سائنس،کمپیوٹر،کامرس اور قانون کے شعبوں سے لوگوں کو بلوایا گیا تھا۔ یہاں لڑکے اور لڑکیوں کی نفسیات سمجھنے کا موقع بھی ملا اور یہ بھی پتہ چلا کہ آج کل کی نسل کیا سوچتی ہے۔ سائنس کے مضمون پر ایک صاحب تقریر کررہے تھے اور ان کے بعد میری باری تھی۔ طالبات کو وکالت کے حوالے سے سمجھانا تھا کہ اس میں کیا کیا مواقعے ہیں اور کون کون سی مشکلات کو عبور کرنا ہوتا ہے۔ تحریک آزادی کے اکثر رہنمائوں کا قانون دان ہونا ہمیشہ وکلاء کے لیے اعزاز کی بات رہے گی۔

فلموں اور ڈراموں میں عدالتوں کے سہانے مناظر اور انسانی کشمکش اپنے اندر ایک دلچسپ پہلو رکھتی ہے۔ سائنس کے مضامین پر خطاب کو طالبات نے خاموشی سے سنا۔ وہ وائٹ بورڈ کی مدد سے سمجھارہے تھے اور لڑکیاں اطمینان سے سن رہی تھیں۔ قانون کے حوالے سے تقریر کے دوران بھی سکون کی کیفیت طاری تھی۔ لڑکیوں سے خطاب کرنے کے بعد ہر مقرر کو ایک صاحب لڑکوں کے اسکول لے جاتے ۔ طالبات میں اپنی تقریر ختم کرکے طلبہ کے اسکول پہنچے تو تقریر ہورہی تھی لیکن لڑکے کچھ سننے کے موڈ میں نہ تھے۔ کچھ دیر پہلے سائنس پر جو تقریرگرلز اسکول میں توجہ سے سنی گئی وہ بوائز اسکول میں ہڑبونگ کا شکار تھی۔ ایک سینئر ٹیچر آئیں اور کہنے لگیں کہ لڑکے بد تمیزی کررہے ہیں۔ اگر برا نہ مانیں تو آپ تقریر نہ کریں۔ جواب تھا کہ آپ مجھے بلالیں پھر ان لڑکوں کو سنبھالنا میرا کام ہے۔ خوفزدہ اسٹیج سیکریٹری نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ اب وکالت کے حوالے سے آخری مقرر اپنے خیالات کا اظہار کرینگے۔

تقریر کرنے کے بجائے سوال پوچھا کہ آپ بور ہورہے ہیں؟ پسینے میں شرابور لڑکے خاموش رہے۔ ایک اور سوال تھا کہ آپ سلطان راہی کو جانتے ہیں۔ جواب تھا نہیں۔ تیسرا سوال تھا کہ شاہ رخ کی بیوی کا کیا نام ہے؟ زور سے آواز آئی ''گوری'' اب مجمع پر سکون تھا طالبعلم کے چہروں پر مسکراہٹ اور اساتذہ کے چہروں پر اطمینان کی کیفیت محسوس کی گئی۔ کل کے بڑے اداکار کو نہ جاننے والے آج کے بڑے اداکار کی بیوی کو جانتے تھے۔ یہی فرق ہوتاہے آج اور کل میں، چوتھا سوال دنیا کے سب سے خوبصورت پھول کے حوالے سے تھا۔ گلاب، چنبیلی، موتیا اورکنول کا جواب دینے والے اپنے جواب مسترد ہونے پر حیران تھے جب ان سے کہا گیا کہ سب سے خوبصورت پھول آپ ہو تو شرارتی نوجوان حیران رہ گئے۔ انھیں پھول اور وہ بھی خوبصورت پھول کہا جارہاتھا۔ تقریر بدلنی پڑی کہ لڑکیوں کے اجتماع میں جو کہا تھا وہ لڑکوں سے بالکل مختلف تھا حالات بدل جائیں تو فیصلے بھی مختلف کرنے ہوتے ہیں۔

کالم سیاسی ٹرن لینے والا ہے۔ پانچواں سوال تھا کہ آپ سے سب سے زیادہ محبت کون کرتاہے؟ ماں، امی، والدہ، ممی، چھٹا سوال تھا کہ دوسرے نمبر پر آپ کو کون چاہتاہے؟ ابو، پاپا، ڈیڈی۔ بچوں سے کہا کہ ذرا اپنے والد کو غور سے دیکھو، یہ متوسط طبقے کے پندرہ سولہ سال کے لڑکوں کا مجمع تھا، کبھی آپ نے اپنے والد کی پرانی تصویریں دیکھی ہیں؟ آپ کو یہ شخص اچھے لباس، خوبصورت جوتوں، عمدہ سج دھج میں نظر آتا ہوگا۔ اپنے دادا یا چچا سے پوچھیں۔ اب یہ شخص اپنی ذات کے لیے کفایت شعار اور کنجوس کیوں ہوگیاہے۔ کماتا تو یہ پہلے سے زیادہ ہے۔

فلم میں لفظ نور چشم سے ہم نے ابتدا کی اور ایک اسکول میں طلبا و طالبات سے والدین کی محبت کے حوالے سے بچوں کو یاد دہانی کرواکر ہم ٹھہر گئے ہیں۔ ہلکا سا سیاسی موڑ لینے کے بعد ہم ایک بار پھر سلسلہ وہیں سے جوڑ لیںگے جہاں سے ٹوٹا ہے۔ آپ آخر میں محسوس کرینگے کہ ہم موضوع سے ذرا بھی نہیں ہٹے۔ درجن بھر سیاسی پارٹیاں ہمیں اپنا سیاسی سودا بیچتی ہیں۔ کہیں ہمیں جھنڈے تھمادیے جاتے ہیں کہ ہم پنجابی، پٹھان، سندھی، مہاجر و بلوچ ہیں، ہم رائٹ ولیفٹ اور لبرل واسلامسٹ میں بٹے ہوئے ہیں، کہیں فرقہ وارانہ جدائیاں ہم میں ڈالی جاتی ہیں۔ اس پر لوٹ مار بھی۔ اس تقسیم در تقسیم نے بھوک اور بیروزگار بڑھادی ہے۔ اب ہمیں صرف سوچنا ہے صرف اپنے بچے کے بارے میں، یاد رکھنا ہے اپنے نور چشم کو۔ ہر فیصلہ کرنا ہے اپنے پھول کے مستقبل کو ذہن میں رکھ کر۔ وہ پھول جس کی تازگی برقرار رکھنے کے لیے ایک باپ اپنے لیے کنجوس بن چکا ہے۔ وہ اولاد جس کی خاطر ایک باپ نے اپنا لباس، دوست احباب، ہوٹلنگ، خوشبو اور فضول خرچی کو ترک کردیاہے پھر ایک اور چیز بھی کیوں نہ چھوڑدیں، کیوںنہ ایک عادت ترک کردیں ''بت پرستی'' کی عادت۔ سیاسی لیڈروں کو ہم نے ''بت'' بنالیاہے، وہ سیاسی لیڈر جو ہمیں کچھ نہیں دے سکتے۔

وہ تو صرف اپنی اولاد کو ہی اپنا نورچشم اور سب کچھ سمجھتے ہیں تو ہم عوام اپنے بچوں کو ذہن میں رکھ کر کیوں نہ فیصلے کریں۔ ہم جن سیاسی بتوں کی ''پوجا'' کرتے ہیں وہ پتھر کے صنم ثابت ہورہے ہیں۔ ہم گزشتہ نصف صدی سے نصف درجن خاندانوں کو ''سیاسی بھگوان'' بنائے ان کے آگے سجدہ ریز ہیں، اگر ہم نے اب بھی یہ سلسلہ جاری رکھا تو ہمارا مستقبل تاریک ہے، ہمیں اسے اپنا لیڈر بنانا چاہیے جو ہمارے بچوں کو اپنا پھول اور نورچشم سمجھے۔ صرف اپنے بچوں کو ہی سب کچھ سمجھنے والے سیاسی لیڈر پر اعتماد کرنے سے کیا ہوگا؟ ہم اپنی آنکھ کو اپنی سیاسی انا کے پتھر سے پھوڑدیںگے، وہ جو صرف اپنے بچوں کو ہی اپنا سمجھتے ہیں۔ آپ کے اور میرے بچے ان کی نظر میں کچھ نہیں، وہ تو سیاست و خوشحالی میں لانے کے لیے صرف اپنے ہی نورچشم کو چنتے ہیں۔ پھر آپ کیوں اپنی آنکھ کے نور کو بھلاکر اندھا دھند ان کے پیچھے دوڑتے ہیں، آزمائے ہوئے کو پھر آزمانا ہے یا کسی اچھے پر بھی نظر کرنی ہے؟ یاد رکھیے! ہماری سیاسی ضد سے ہمارا پھول مرجھا جائے گا۔ چشم محروم ہوجائے گی نور سے۔ سوال مشکل ہے، ہمیں دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے، صرف اپنے بچے کو ہی اپنا نور نظر سمجھنے والا اور آزمایا ہوا لیڈر یا وہ لیڈر جو پوری قوم کے تمام بچوں کو سمجھے اپنا نور چشم؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں