فیوچر آف پاکستان

آخر دْنیا بھر کو پاکستان کا مستقبل ہی کیوں سوالیہ نشان کی صورت میں نظر آ رہا ہے؟


Arif Anis Malik November 01, 2019
[email protected]

27 اکتوبر کو دنیا سے رخصت ہونے والا پروفیسر اسٹیفن کوہن دنیا کے نامور شہ دماغوں میں سے ایک تھا اور بالخصوص پاکستان اور پاکستانی فوج پر اتھارٹی سمجھا جاتا تھا۔ مجھے اس کے ساتھ بین الاقوامی کانفرنسوں میں ملنے اور سیکھنے کا موقع ملا جو کئی حوالوں سے چشم کشا ہے۔

آخر دْنیا بھر کو پاکستان کا مستقبل ہی کیوں سوالیہ نشان کی صورت میں نظر آ رہا ہے؟ آپ لوگ بھوٹان، برازیل یا فلپائن کے مستقبل کے بارے میں اتنے فکرمند کیوں نہیں؟ میں نے کچھ عرصہ قبل لندن میں ہونے والی فیوچر آف پاکستان کانفرنس کے وقفے کے دوران اس کی آنکھوں میں جھانکا اور اسے کھنگالنے کی کوشش کی،ا سٹیفن کوہن کی آنکھوں میں ایک ہلکی سی چمک اْبھری۔ اس کے ہونٹوں کے بائیں جانب ایک خفیف سی مسکراہٹ نے جنم لیا جو پورے ہونٹوں پر پھیلنے سے پہلے ہی دم توڑ گئی۔

''اس لیے کہ عارف میاں تمہارا ملک جغرافیے کا قیدی ہے۔ چاہے تم لوگوں کو یہ بات کتنی ہی بْری لگے لیکن تمہارے ملک کا اْٹھنا، بیٹھنا یا لیٹ جانا دْنیا بھر کے لوگوں کے لیے ایک ''بریکنگ نیوز'' ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تم لوگ بھوٹان یا فلپائن نہیں، دْنیا میں سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی ایک ایٹمی طاقت ہو''۔

امریکا کے نامی گرامی تھنک ٹینک ''بروکنگز انسٹیٹیوٹ'' کے اسٹیفن کوہن کے چہرے پر قدرے تھکن کے تاثرات تھے۔ غالباً وہ لندن میں مسلسل دو دنوں سے ہمارے ساتھ کانفرنس کی بھاگ دوڑ سے اْکتا چکا تھا یا پھر یہ کہ اس کا ٹخنہ تھا جو صبح مڑ گیا تھا اور وہ ہونٹ بھینچے اپنا دایاں قدم اْٹھاتا تھا۔

پروفیسر ڈاکٹرا سٹیفن کوہن ذرا ''وکھری ٹائپ'' کا امریکن تھا، قدرے چپ چاپ اور کھردرے رویے کی وجہ سے وہ امریکی سے زیادہ ''گورا'' نظر آتا تھا۔ قدرے سپاٹ سا چہرہ، ذہین اور متجسس نظریں، ہلکی سی مسکراہٹ، کبھی کبھی نمودار ہوتی اور الفاظ کا کمال یہودی ناپ تول۔ وہ شاید ہی کبھی پانچ سات جملوں سے زیادہ کوئی بات کہتا۔ مگر ان چند جملوں میں سمندر نہیں تو دریا کوزے میں بند ہو جاتا۔ وہ الفاظ کو کمال احتیاط سے برتتا تھا۔ تبھی تو اس کا شمار دْنیا میں خارجہ پالیسی پر 500 میں سب سے مؤثر لوگوں میں ہوتا تھا۔ مشہور تھا کہ ریگن سے لے کر اوباما تک تقریباً سبھی صدور جنوبی ایشیا بالعموم اور پاکستان کے بارے میں بالخصوص اس سے مشورہ لیا کرتے تھے۔

''لندن آنے سے پہلے مجھے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور سی آئی اے سے کافی پیغام آئے لیکن میں نے ایک بھی سْن کے نہیں دیا۔ میں ایک آزاد آدمی ہوں، پاکستان پر اپنی الگ رائے رکھتا ہوں اور یہ سرکاری ہرکارے بس وقت ہی ضایع کرتے ہیں، اس نے اپنی عینک صاف کرتے ہوئے مجھے بتایا تھا''۔

لندن میں کانفرنس اسٹیفن کوہن کی کتاب ''فیوچر آف پاکستان'' سے متاثر ہو کر رکھی گئی تھی۔ کانفرنس کے پہلے دن برٹش پارلیمنٹ میں مرکزی مقرر کے طور پر بات کرتے ہوئے اس نے بہت سے لوگوں کو چونکا دیا۔ ''پاکستان اور امریکا دوست نہیں اتحادی ہیں۔ دوسری طرف ہندوستان اور امریکا اتحادی نہیں لیکن دوست ہیں!

''کیا پاکستان کے لیے اپنا پڑوس چھوڑ کر ہزاروں میل اور سمندر پار اتحادی ڈھونڈنا فائدے کا سودا ہے؟'' میں نے اسے چٹکی کاٹنے کی کوشش کی۔

'نہیں ایک دم گھاٹے کا سودا ہے۔ مگر انڈیا پاکستان اپنے قضیے طے کر لیتے ہیں تو امریکا کو اس پر کوئی تکلیف نہیں ہے۔' اس نے بغیر کسی تردد کے کاندھے اْچکا کر کہا تھا۔

کیا کوہن انڈیا کے لیے مکھن ملائی اور پاکستان کے لیے شمشیر برہنہ ہے؟ میں نے دل ہی دل میں سوچا لیکن خود ہی نفی میں سر ہلا دیا۔ کوہن ان معاملات میں دل نہیں دماغ کا آدمی تھا۔ تیز، طرار اور کھردرا، زندگی میں غلط یا صحیح، اچھا یا بْرا نہیں، اصل چیز نتائج ہوتے ہیں جو اچھا یا بْرا کرنے پر بھگتنے پڑتے ہیں۔ اس نے ورکشاپ کے دوران ہاتھ اْٹھا کر برطانوی یونیورسٹی میں پڑھنے والے ایک پاکستانی اسٹوڈنٹ کی بات ٹوکتے ہوئے کہا تھا جو کہ کراسٹائن فیئر کے آرٹیکل کی بنیاد پر اس سے بحث کرنے میں مصروف تھا۔

''دیکھو میں کراسٹائن فیئر نہیں ہوں، جو الفاظ تم مجھ سے منسوب کر رہے ہو وہ میں نے نہیں کہے۔ مجھے سمجھنے کے لیے تمہیں مجھے پڑھنا ہو گا، ورنہ مجھ پر بحث کرنا وقت کا زیاں ہے''، اس نے قدرے درشت لہجے میں کہہ کر بات سمیٹ دی تھی۔ ہاں اس نے پاکستان کی ریاستی پالیسی پر واضح الفاظ میں شدت پسندی کی حمایت پر تنقید کی، افغانستان میں پاکستانی عمل دخل پر بھی ناک بھوں چڑھائی، تاہم وہ اس بات کو تسلیم کرتا تھا کہ پاکستان کی اکثر پالیسیاں بھارتی پالیسیوں کا ردعمل ہوتی ہیں۔

'پاکستان از ٹو نیوکلیئر ٹو فیل۔ پاکستان ایک ملک کی حیثیت سے قائم رہے گا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ تمہاری گاڑی چلتے چلتے دلدل میں پھنس جائے گی، سب کو نیچے اتر کر زور لگانا ہوگا، پھر تم موٹر وے پر چڑھ جاؤ گے اور بگٹٹ بھاگنے لگ جاؤ گے۔ اور جیسے ہی ٹیک لگا کر ذرا آرام کرنے لگو گے، پتہ چلے گا کہ ایک بار پھر دلدل میں اتر آئے ہو۔ تمہارے ریاستی تضادات اتنے زیادہ ہیں کہ کیچڑ سے موٹر وے کے مراحل آتے رہیں گے۔ اس نے قدرے خوشگوار لہجے میں کہا۔

کانفرنس سے ایک شام پہلے جب ہم سب ہلٹن کی 28 ویں منزل پر لندن کے مناظر اور دریائے ٹیمز پر اْترتی دْھوپ سے مسحور ہوئے بیٹھے تھے تو اس نے مشہور امریکی خارجہ سیکریٹری جارج شلز کا واقعہ سْنایا تھا جو بار بار اس سے کہتا تھا کہ خارجہ پالیسی کے اوپر تجزیہ کرتے وقت مجھے ایسے نوٹس لکھ کر مت بھیجو کہ مجھے اْمید ہے کہ ایسا ہوجائے گا، اْمید ہے، امید ہے، مت سْنایا کرو، اْمید کوئی پالیسی نہیں ہے، یہ کہہ کر اس نے چند ثانیے توقف کیا اور پھر ایک پاکستانی دوست کا احوال سْنایا، جس نے جواب میں کہا تھا، درست ہے کہ اْمید کوئی پالیسی نہیں، لیکن مایوسی بھی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ پاکستان کے بیم و رجا کے تناظر کو سمجھنے کے لیے یہ کمال کی بات تھی۔

اس کی بات سْن کر میرے ساتھ بیٹھے ہوئے سابقہ سیکریٹری خارجہ ڈاکٹر ہمایوں خان نے دایاں ہاتھ ہوا میں اْٹھا کر کہا ''ہاں، مایوسی کوئی پالیسی نہیں ہے، تاہم پاکستانیوں کو بار بار جہنم اور قیامت کی وعید دینے والے لوگوں کو یہ بات کوئی نہیں سمجھا سکتا اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم پاکستانی اپنے وطن سے دوسروں سے زیادہ مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔

کوہن کا اصرار تھا کہ پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسی ''کنفیوزڈ ہے اور چوں چوں کا مربہ ہے''۔ اس بگھی کو آٹھ دس گھوڑے مختلف سمتوں میں کھینچ رہے ہیں۔ سو یہ کسی سمت میں بھی جا سکتی ہے اور یہ کوئی اچھی علامت نہیں۔ مزید خطرناک بات یہ ہے کہ امریکی اور پاکستانی آپس میں بحث مباحثہ کرتے نظر نہیں آتے۔ اتنی دوری تو کولڈوار کے دوران امریکا اور روس کے درمیان میں بھی نہیں تھی۔ حالات کچھ بھی ہوں، گفتگو بند نہیں ہونی چاہیے۔ میں اس تجویز کا شدید حمایتی ہوں کہ پاکستان کو بھی انڈیا کی طرح کی نیوکلیئر ڈیل امریکا سے ملنی چاہیے۔'

کانفرنس ختم ہوئی تو میں نے اس سے پوچھا، ''پروفیسر، تمہاری کرسٹل بال میں پاکستان کا مستقبل کیسا نظر آرہا ہے؟''

''میں کوئی نجومی نہیں مگر سیدھی سی بات یہ ہے کہ اگر پاکستانی نہیں بدلیں گے تو جو پاکستان نظر آ رہا ہے وہ بھی نہیں بدلے گا''۔ اس نے خوش گوار لہجے میں کہا۔

''ان حالات میں عمران خان کے بارے میں کیا خیال ہے؟'' میں نے اسے مزید چھیڑا۔

''عمران ...... ہوں، اس نے سر ہلایا، دلچسپ آدمی ہے، میں نے حال ہی میں اس کی کتاب پڑھی ہے۔ میری توقع سے زیادہ اچھی نکلی۔ تم بتا سکتے ہو کس نے اس کے لیے لکھی ہے؟ میں نے جو کچھ اس کے بارے میں سْنا ہے اس کے حساب سے وہ کچھ زیادہ کتابی دْنیا کا آدمی نہیں لگتا۔ میں پاکستانی اسٹیٹ کرافٹ میں خان کی وجہ سے کوئی جوہری تبدیلی نہیں دیکھ رہا۔ تاہم بھارت میں مودی کی وجہ سے جوہری تبدیلی آ چکی ہے اور پورے خطے کو متاثر کرے گی۔

اب مسلمان بھینسے کا ہندو بھینسے سے مقابلہ ہے اور حالات مزید تلخ ہوں گے۔ امریکی جتنا بھی چاہیں دونوں ملکوں کے درمیان سمجھوتہ نہیں کراسکتے۔ یہاں میں اپنی بات پھر دوبارہ دہراؤں گا۔ تم پاکستانی، اپنی کنپٹی پر بندوق رکھ کر دنیا کے ساتھ ڈائیلاگ نہیں کر سکتے کہ اگر میری بات نہ مانی گئی تو میں خودکشی کر لوں گا۔ بدقسمتی سے جنوبی ایشیا تاریخ کے ہاتھوں یرغمال ہے اور میں اگلے سو سال بھی بھارت اور پاکستان کو اسی طرح ایک دوسرے پر گولیاں چلاتے دیکھ رہا ہوں''۔

یہ کہہ کر وہ واپس مڑا اور دروازے کی طرف بڑھا۔ اس کی چال میں لنگڑاہٹ نمایاں تھی۔ پھر وہ اچانک میری طرف مڑا۔

''تم لوگ کشکول توڑ دو تو بہت آگے جا سکتے ہو، پاکستان کے بارے میں مت گھبراؤ، تمہارا ملک کہیں نہیں جا رہا لیکن موجودہ سفر اور حالیہ چال چلن کی وجہ سے تم لوگ کہیں بھی نہیں پہنچو گے''۔

شکریہ، میں نے ہاتھ ہلایا، ''اْمید کوئی پالیسی نہیں تو مایوسی بھی کوئی پالیسی نہیں''۔ وہ مسکرایا اور ہاتھ ہلا کر گلی میں مڑگیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔