ایکسپریس ادبی کانفرنس 2

ان چھ مجوزہ ذیلی عنوانات پر اظہار خیال کرنے کے لیے کل ملا کر 33 مندوبین کے نام پروگرام میں دیے گئے تھے جن میں سے 32...


Amjad Islam Amjad October 15, 2013
[email protected]

ان چھ مجوزہ ذیلی عنوانات پر اظہار خیال کرنے کے لیے کل ملا کر 33 مندوبین کے نام پروگرام میں دیے گئے تھے جن میں سے 32 نے شرکت کی (صرف ڈاکٹر معین نظامی کسی وجہ سے تشریف نہ لا سکے) گویا اعلان کردہ ناموں کی حاضری کا تناسب بھی غیر معمولی تھا جس سے منتظمین کی محنت اور عمدہ کارکردگی کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ عام طور پر اس نوع کی کانفرنسوں میں 10 سے 15% فی صد تک مقررین کا ڈراپ ہو جانا عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔ کانفرنس کا وینیو آواری ہوٹل کا ''خورشید محل'' ہال تھا۔ ایکسپریس میڈیا کی طرف سے مقامی میزبان ایاز خان اور لطیف چوہدری جب کہ کراچی سے احفاظ الرحمن کی سرکردگی میں ان کے ساتھ آنے والے سلمان فضلی' ذکی ہاشمی مقدس اور خورشید صاحبان معہ اپنے جونیئر ساتھیوں کے بین الاقوامی اور دوسرے شہروں سے آنے والے مہمانوں کی آمد و رفت' استقبال اور رہائش وغیرہ کے معاملات کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ تمام متعلقہ انتظامات کی نگرانی میں مصروف تھے جب کہ ہوٹل کے ادب نواز جنرل مینجر قاسم جعفری کی خصوصی دلچسپی کے باعث متعلقہ عملہ بھی غیر معمولی مستعدی کا مظاہرہ کر رہا تھا، سو ہر چیز سے ایک مخصوص سلیقے اور معیار کا اظہار ہوتا رہا۔

بیرون پاکستان سے آنے والوں میں عوامی جمہوریہ چین کے تھانگ منگ شینگ اور چانگ شی شوان المعروف انتخاب عالم برطانیہ سے ڈاکٹر ڈیوڈ میتھیوز، بھارت سے ڈاکٹر شمیم حنفی' زبیر رضوی' خوش بیر سنگھ شاد' روس سے لڈمیلا ویسی لیوا' ازبکستان سے تاش مرزا' بنگلہ دیش سے ڈاکٹر محمود الاسلام، ترکی سے ڈاکٹر خلیل توقار اور کینیڈا سے اشفاق حسین شامل تھے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ان میں سے چار حضرات ڈاکٹر ڈیوڈ میتھیوز' خلیل توقار' تاش مرزا اور ڈاکٹر محمود الاسلام پہلے اجلاس یعنی ''اردو رسم الخط کے مسائل'' کے پینل میں شامل تھے جس کی صدارت بھی ڈاکٹر ڈیوڈ میتھیوز نے کی، اس کے واحد پاکستانی مندوب ڈاکٹر عطش درانی تھے۔ یہ اور بات ہے کہ لسانیات کے موضوع پر غیر معمولی دسترس کے باعث وہ سب پر بھاری پڑے کہ بقیہ حضرات نے تو غیر ملکی ہونے کے باعث اپنے اپنے منفرد اور مخصوص حوالے سے اس مسئلے پر عمومی گفتگو کی جب کہ ڈاکٹر عطش درانی نے کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے پس منظر میں آیندہ پچاس برسوں میں اردو رسم الخط کے متوقع اور ممکنہ مستقبل پر علمی اور جذباتی دونوں حوالوں سے روشنی ڈالی جس کا لب لباب یہی تھا کہ اگر ہم نے اردو کے رسم الخط کے کمپیوٹر دوست اور لائق یعنی Computer Friendly & Worthy نہ بنایا تو نہ صرف اس کے رسم الخط بلکہ زبان کو بھی شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں یہاں تک کہ اس کا شمار مرحوم اور متروک زبانوں میں بھی ہو سکتا ہے۔ اگرچہ یہ موضوع بہت خشک اور خالصتاً علمی نوعیت کا تھا مگر شروع سے آخر تک حاضرین کی دلچسپی برقرار رہی۔

یہ تو میں بتانا بھول ہی گیا کہ اسٹیج سیکریٹری اور کمپئر کے فرائض عالیہ شاہ اور پروفیسر ڈاکٹر کامران نے مل جل کر session wise ادا کیے اور بڑے احسن طریقے سے اس مشکل ذمے داری کو نبھایا۔ دوسرے سیشن کی صدارت اردو فکشن کے ایک بڑے نام عبداللہ حسین کے سپرد تھی جب کہ پینل کے شرکاء میں ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا' ڈاکٹر انوار احمد' ڈاکٹر معین نظامی ڈاکٹر نجیب جمال اور ڈاکٹر نجیبہ عارف تھے اور یہی وہ سیشن تھا جس میں دی گئی فہرست کی واحد غیر حاضری دیکھنے میں آئی (یعنی ڈاکٹر معین نظامی) اس کا موضوع ''دیگر پاکستانی زبانوں سے اردو کی ہم آہنگی'' تھا اور جس کا آغاز ڈاکٹر نجیبہ عارف نے بڑے پر لطف اور شگفتہ انداز میں کیا اور شاعروں کی طرح داد سمیٹی، باقی کے تینوں ڈاکٹروں نے بھی اپنے اپنے انداز میں ادب کے مریضوں کو نہ صرف اس ''بیماری'' کے بارے میں آگاہی فراہم کی بلکہ بہت دلچسپ انداز میں کیس ہسٹری پر بھی روشنی ڈالی۔ آخر میں صاحب صدر نے بھی بڑے شگفتہ اور غیر رسمی انداز میں صدارتی خطبہ دیا جسے بہت پسند کیا گیا۔ پہلے سیشن کے بعد چائے اور دوسرے کے بعد کھانے کا وقفہ کیا گیا جس کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ ظہرانہ صرف مندوبین کو ہی نہیں بلکہ تمام حاضرین کو بھی پیش کیا گیا۔

پہلے دن کے تیسرے اور آخری اجلاس کا عنوان ''عام فہم زبان (میڈیا اور اردو) تھا جس کی صدارت اردو دنیا کے ایک بہت بڑے نام ڈاکٹر شمیم حنفی کے سپرد تھی جب کہ مقررین میں پروفیسر سحر انصاری' ڈاکٹر شاہ محمد مری' تھانگ منگ شینگ اور اشفاق حسین شامل تھے اگرچہ سب ہی نے بہت اچھی' فکر انگیز اور خیال افروز باتیں کیں لیکن میرے نزدیک ''مین آف دی میچ'' کا ایوارڈ ڈاکٹر شاہ محمد مری کے نام رہا جنہوں نے اپنے مخصوص براہ راست اور جارحانہ انداز میں مسئلے کا نتارا کچھ اس طرح سے کیا کہ سچ مچ میلہ لوٹ لیا، کاش ہمارے سیاستدان بلوچ بھائیوں کے مسائل اور ان کے حل کو سمجھنے کے لیے ڈاکٹر شاہ محمد مری جیسے لوگوں سے رابطہ اور مکالمہ کر سکیں کہ ایسے صاحب بصیرت بہادر اور بے لاگ گفتگو کرنے والے دانشور ہی اپنے علاقے اور معاشرے کے بہترین نمایندہ کہلانے کے حق دار ہوتے ہیں۔

رات نو بجے مشہور اور منفرد ستار نوز استاد رئیس خاں کا پروگرام تھا جو بلاشبہ اس وقت اپنے فن کے سب سے بڑے ماہر ہیں اور انھوں نے حسب توقع اس مقام کا حق بھی ادا کیا، اگلے دن یعنی 13 اکتوبر کا پہلا اجلاس ڈاکٹر لڈمیلا ویسی لیوا کی صدارت میں شروع ہوا جو اردو ادب اور بالخصوص فیضؔ شناسی کے حوالے سے پوری اردو دنیا کا ایک معروف اور مقبول نام ہیں جب کہ سیشن کا موضوع ''اردو پر دیگر زبانوں کے اثرات'' تھا۔ یہاں ''دیگر'' سے مراد وہ عالمی زبانیں تھیں جن کا اثر اردو زبان کے تشکیلی عناصر اور ذخیرہ الفاظ پر واضح ہے، اس کے شرکاء میں ڈاکٹر فخر الحق نوری' ڈاکٹر نعمان الحق' ڈاکٹر آصف فرخی' ڈاکٹر شاداب احسانی اور عطیہ سید شامل تھے، اول الذکر تین مقالہ نگاروں کو حاضرین نے زیادہ غور اور دلچسپی سے سنا۔

پانچویں سیشن کا عنوان سب سے زیادہ متنازعہ' وسیع اور فکر انگیز تھا سو حسب توقع اس پر گفتگو بھی بہت متنوع اور پر جوش انداز میں کی گئی، مقررین کی تعداد کے لحاظ سے بھی یہ اجلاس سب سے بڑا تھا کہ صاحب صدر ڈاکٹر سلیم اختر کے علاوہ اس میں اسد محمد خاں' مسعود مفتی' مستنصر حسین تارڑ' مسعود اشعر' زاہدہ حنا اور سلیم راز جیسے مقبول نام شامل تھے جن میں سے ہر ایک اپنی مثال آپ ہے لیکن میری ذاتی رائے میں سب سے زیادہ خیال انگیز باتیں مسعود مفتی صاحب نے کیں کہ اس موضوع پر ان کی کمانڈ اور ذاتی تجربہ بھی نسبتاً سب سے زیادہ تھا۔

آخری اجلاس انتظار حسین کی صدارت میں ہوا جو صحیح معنوں میں اس وقت اردو فکشن کا سب سے بڑا نام ہیں جب کہ مقررین میں ڈاکٹر شمیم حنفی' زبیر رضوی' اصغر ندیم سید اور ڈاکٹر ناصر عباس نیر کے اسمائے گرامی شامل تھے، لطف کی بات یہ ہے کہ موضوع یعنی ''بھارت میں اردو'' کے حوالے سے اس میں مشاہدے اور تجربے کو برابر برابر رکھا گیا تھا۔ اصغر ندیم سید اور ڈاکٹر ناصر عباس نیّر نے اس مسئلے کو مطالعے اور مشاہدے کی مدد سے پیش کیا جب کہ زبیر رضوی اور ڈاکٹر شمیم حنفی نے بھارت میں اردو کی صورت حال کو ذاتی تجربے اور براہ راست معلومات کے حوالے سے پیش کیا۔ انتظار حسین نے اپنا وزن کسی بھی پلڑے میں ڈالنے کے بجائے دونوں پارٹیوں سے اتفاق کیا اور یوں صدارتی تقریر کو بڑی مہارت سے جھکائی دے کر نکل گئے۔

آخر میں اس کانفرنس کے کوآرڈی نیٹر برادرم احفاظ الرحمن نے تین قرار دادیں پیش کیں جن میں اردو کی ترویج و ترقی کے حوالے سے ان تمام اقدامات کو واضح کیا جو ضروری تھے اور ادبی برادری کی طرف سے ان مختلف مطالبوں کو ایک باقاعدہ شکل دی جو اس کانفرنس کی معرفت اُبھر کر سامنے آئے۔ یاد گاری شیلڈز اور سند ہائے اعتراف کی تقسیم اس کارروائی کا آخری حصہ تھی۔

رات نو بجے ایک عالمی مشاعرے کا اہتمام تھا جو صبح 3 بجے تک جاری رہا، اس کا دلچسپ احوال انشا اللہ اس سلسلے کے آخری حصے یعنی اگلے کالم میں...

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں