آخر سرفراز دھوکا کھا ہی گیا

سرفراز کی سبکدوشی محض اس کی پرفارمنس نہیں تھی بلکہ اس کی وجہ کچھ اور ہی تھی


سلمان نسیم شاد November 01, 2019
شکست کا سارا ملبہ کپتان سرفراز پر ڈال کر اسے چلتا کردیا گیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

گزشتہ چند ہفتوں سے ہماری طبیعت سخت ناساز ہے جس کی وجہ سے ہمارا سارا وقت گھر میں آرام کرتے ہی گزر رہا ہے۔ اور اسی وجہ سے ہم پچھلے دن بھی تھوڑا لیٹ سوکر اٹھے۔ اٹھتے ہی جب ٹی وی آن کیا تو ایک خبر نے ہمیں چونکا دیا کیونکہ وہ خبر ہمارے لیے انتہائی حیران کن تھی۔ خبر کچھ یوں تھی کہ کرکٹ بورڈ نے سرفراز احمد کو تینوں فارمیٹس کی کپتانی سے فارغ کردیا اور ان کہ جگہ اظہر علی کو ٹیسٹ اور بابر اعظم کو ٹی ٹوئنٹی کا کپتان مقرر کردیا۔

چیف ایگزیکٹو وسیم خان نے کسی بادشاہ سلامت کی طرح کپتان سرفراز کو طلب کیا اور ان پر حکم جاری کیا کہ تم فوراً خود ہی تینوں فارمیٹس کی کپتانی سے دستبردار ہوجاؤ اور کپتانی چھوڑنے کا اعلان کردو۔

جواب میں سرفراز نے بادشاہ سلامت کی بات سے انکار کرتے ہوئے انتہائی عاجزی سے فرمایا کہ میں دستبرداری کا اعلان نہیں کروں گا۔ ہاں! آپ کے پاس اختیار ہے، آپ مجھے ڈراپ کردیجیے۔ اس پر بادشاہ سلامت وسیم خان نے انہیں نہ صرف تینوں فارمیٹس کی کپتانی سے سبکدوش کردیا بلکہ انہیں اسکواڈ سے بھی ڈراپ کردیا۔ بادشاہ سلامت کا غصہ اس پر بھی ٹھنڈا نہیں ہوا تو انہوں نے سرفراز کی تذلیل کرنے کےلیے ٹوئٹر پر ایک ویڈیو جاری کروادی جس پر عوامی ردعمل آنے کے بعد کرکٹ بورڈ کو باضابطہ معافی بھی مانگنی پڑی۔

ہمارے لیے زیادہ حیران کن اور غمناک خبر سرفراز کی ٹی ٹوئنٹی کی کپتانی سے فراغت کی تھی کیونکہ بات اگر اس کی ٹیسٹ یا ون ڈے کی کپتانی سے فراغت تک محدود ہوتی تو شاید اتنی زیادہ حیرت انگیز نہ ہوتی۔

اگر دیکھا جائے تو پچاس اوورز کے ون ڈے فارمیٹ میں مصباح الحق، شاہد آفریدی اور اظہر علی کی کپتانی کے ادوار میں بھی قومی ٹیم ہچکولے کھاتی رہی اور ایک موقعے پر یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ 2016 میں انگلینڈ میں ہونے والی چیمپیئنز ٹرافی میں قومی ٹیم کوالیفائی بھی نہ کرپائے۔

مگر سرفراز کو کپتان مقرر کرنے کے بعد نہ صرف قومی ٹیم نے چیمپیئنز ٹرافی میں کوالیفائی کیا بلکہ فائنل میں روایتی حریف بھارت کو بھاری مارجن سے شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کیا۔ چلیے، پھر بھی اگر ہم اس کی ون ڈے اور ٹیسٹ میچز کی کپتانی میں خامیوں اور کمزوریوں کو تسلیم کرلیں، پھر بھی سوال یہ اٹھتا ہے کہ اسے ٹی ٹوئنٹی کی کپتانی سے کیوں فارغ کیا گیا؟

اگر سرفراز کی ٹی ٹوئنٹی میں کپتانی پر بات کی جائے تو انہیں 2016 میں ٹی ٹوئنٹی کپتان مقرر کیا گیا تھا۔ اس دوران سرفراز کی قیادت میں قومی ٹیم نے 37 ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے جن میں سے 29 میچز میں اسے کامیابی اور صرف 8 میچیز میں شکست ہوئی۔ کامیابی کا تناسب 79 فیصد رہا جس کی وجہ سے قومی ٹی ٹوئنٹی ٹیم عالمی رینکنگ میں نمبر پانچ سے نمبر ایک پر آگئی۔ سری لنکا کے خلاف تین میچز کی حالیہ ٹی ٹوئنٹی سیریز میں انہیں ضرور ناکامی کا سامنا کرنا پڑا مگر کیا صرف ایک سیریز کی شکست پر کپتان کو تبدیل کردینا درست عمل ہے، جس کی شاندار قیادت اور مسلسل کامیابیوں کی بدولت آپ عالمی رینکنگ میں نمبر ایک کی پوزیشن پر براجمان ہیں۔

سرفراز کے کے خلاف پچھلے سال سے سازشی جال بنا جارہا تھا اور یہ خبریں بھی آرہی تھیں کہ ٹیم کا ایک مضبوط گروپ اس کے خلاف لابنگ میں مصروف عمل ہے۔ اسی کے دباؤ کی وجہ سے سرفراز کی اپنی کارکردگی بھی متاثر ہورہی تھی۔

اس وقت موجودہ ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں سرفراز احمد کراچی کی نمائندگی کرنے والے واحد کھلاڑی تھے۔ ان کے بعد قومی ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے ٹیم میں کراچی کی نمائندگی صفر ہوجائے گی جبکہ ٹیسٹ ٹیم میں بھی کراچی کی نمائندگی صرف اسد شفیق کرتے ہیں۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ قومی ٹیم میں کراچی کے پلیئرز کے ساتھ زیادتیوں کا یہ سلسلہ ایک طویل عرصے سے چل رہا ہے جس کی سب سے بڑی مثال فواد عالم اور خرم منظور ہیں جو ایک عرصے سے فرسٹ کلاس میچز میں رنز کے ڈھیر لگانے کے باوجود قومی ٹیم کی نمائندگی کرنے سے محروم ہیں۔

سب سے بڑا افسوسناک اور تعصب پر مبنی عمل گزشتہ ہفتے پنجاب اسمبلی میں پیش آیا جہاں کراچی سے تعلق رکھنے والے سرفراز احمد کو کپتانی سے ہٹانے کےلیے قرارداد پیش کی گئی۔

ہمارے خیال میں پنجاب اسمبلی میں پیش کی جانے والی یہ قرارداد تعصب اور نفرت پر مبنی تھی کیونکہ اگر آپ کسی کپتان کو کپتانی سے ہٹانا بھی چاہتے ہیں تو یہ کام کرکٹ بورڈ کا ہوتا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں کسی دوسرے صوبے سے تعلق رکھنے والے کپتان کے خلاف اس طرح کی قراردادیں صرف نفرت اور تعصب کو ہوا دیتی ہیں؛ اور ان کے باعث احساس محرومی میں مزید اضافہ ہوتا ہے جو پہلے ہی سے موجود ہے۔ کراچی پہلے ہی اس تعصب کا شکار ہے جہاں کئی باصلاحیت کھلاڑی ہر سال ڈومیسٹک سیزن میں شاندار پرفارمنس کے باوجود قومی ٹیم میں شمولیت سے محروم ہیں۔

سرفراز کی برطرفی میں سب سے زیادہ انگلیاں بولنگ کوچ وقار یونس اور ہیڈ کوچ و چیف سلیکٹر مصباح الحق پر اٹھ رہی ہیں۔ خیال رہے کہ وقار یونس کے بارے میں پہلے ہی یہ تاثر قائم تھا کہ سرفراز احمد ان کے گڈبُکس میں کبھی نہیں رہے لہذا ان کے بولنگ کوچ کی تعیناتی کے بعد سرفراز کےلیے مشکلات جنم لے سکتی ہیں؛ اور وہی ہوا۔ سری لنکا کے خلاف حالیہ تین میچوں کی ٹی ٹوئنٹی سیریز میں وائٹ واش شکست کا سارا ملبہ کپتان سرفراز احمد کے کاندھوں پر ڈال کر انہیں چلتا کیا گیا۔

مگر کیا اس شکست کا ذمہ دار صرف سرفراز تھا؟ ٹیم کے باقی کھلاڑیوں کی کارکردگی کیا تھی؟ مسلسل گیارہ ٹی ٹوئنٹی سیریز جتنے والی ٹیم میں اچانک تبدیلی کرکے اس میں بوسیدہ اور چلے ہوئے کارتوس احمد شہزاد اور عمر اکمل کو کیوں شامل کیا گیا؟ کیا اس سے ٹیم کا وننگ کمبی نیشن نہیں توڑا گیا؟

کیا اس کی ذمہ داری چیف سلیکٹر و کوچ مصباح الحق اور وقار یونس پر عائد نہیں ہوتی کہ انہوں نے مسلسل گیارہ سیریز جیتنے والی ٹیم میں ایک ساتھ دو اہم ترین تبدلیاں کیوں اور کس حکمت عملی کے تحت کردیں؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ اپنے سر سے شکست کا ملبہ ہٹانے کےلیے سارا ملبہ کپتان سرفراز پر ڈال کر اسے چلتا کردیا گیا؟

ذرائع تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ حالیہ ورلڈ کپ میں انڈیا کے خلاف ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کی وزیراعظم کی تجویز نہ ماننے پر سرفراز کو سرزنش کی گئی ہے۔

سرفراز کے خلاف رچائی جانے والی سازش کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ سرفراز کا راستہ روکنے کےلیے محمد رضوان کو ٹی ٹوئنٹی ٹیم کا مستقل رکن بنانے کےلیے اسے نائب کپتان بنانے کی بازگشت سنائی دینے لگی تاکہ سرفراز ایک عام کھلاڑی کی حیثیت سے بھی ٹیم میں شامل نہ ہوسکے۔

سرفراز کی کارکردگی کو جواز بناکر اسے ٹیم سے بے دخل کرنے والوں کی عقل، فہم اور فراست کو ہم کیا کہیں کہ جو 13 ٹی ٹوئنٹی میچیز کی 11 اننگز میں 16 کی اوسط سے محض 135 رنز بنانے والے محمد رضوان کو ٹی ٹوئنٹی ٹیم کا نائب کپتان بنانے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔

ان کے اس عمل سے آپ ان کی معاملہ فہمی کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں کہ سرفراز کی سبکدوشی محض اس کی پرفارمنس نہیں تھی بلکہ اس کی وجہ کچھ اور ہی تھی۔

وجہ چاہے جو بھی ہو، مگر سرفراز پاکستان کا نمبر ایک ٹی ٹوئنٹی کپتان ہے جو پی ایس ایل میں موجود تمام کپتانوں سے منفرد ریکارڈ رکھتا ہے؛ جس نے اپنی ٹیم کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو تین بار فائنل میں پہنچایا اور ایک بار پی ایس ایل چیمپیئن بنوایا۔

آخر میں ہماری اربابِ اقتدار سے گزارش ہے کہ خدارا کراچی سے تعلق رکھنے والے پلیئرز کے ساتھ مسلسل ہونے والی ان زیادتیوں کے تسلسل کو روکا جائے اور سرفراز سمیت خرم منظور، فواد عالم اور سعد علی جیسے کھلاڑیوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا سدباب کیا جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں