ایک بروقت اور شاندار ادبی کانفرنس
’’اردو کے حل طلب مسائل اور نئی نسل‘‘ کے زیر عنوان ایکسپریس میڈیا گروپ نے جس ادبی کانفرنس کا۔۔۔
''اردو کے حل طلب مسائل اور نئی نسل'' کے زیر عنوان ایکسپریس میڈیا گروپ نے جس ادبی کانفرنس کا انعقاد کیا ہے، اس کی کامیابی اور موضوعات کے تعین سے اس خیال کی واضح تردید ہوتی ہے کہ ہمارا معاشرہ اور ادیب بوجوہ ادب اور ادبی مسائل سے دور ہوکرایک طرح کی اجنیت Isolation اور بے نیازی کی سی کیفیت میں مبتلا ہو چکے ہیں اور یوں اب نہ لکھنے والے معاشرتی ترقی میں اپنا رول ادا کر رہے ہیں اور نہ پڑھنے والے۔
اس کانفرنس میں وطن اور بیرون وطن سے 60 سے زیادہ ادیبوں نقادوں اور شاعروں کو ایک چھت تلے جمع کرنے کا کام انتظامی سطح پر تو بلاشبہ ایکسپریس میڈیا گروپ کی مختلف کمیٹیوں نے بخوبی سر انجام دیا لیکن دو روز تک چھ سیشنز (Sessions) اور ایک مشاعرے میں جس طرح سے اہل قلم نے ادب کے مسائل پر گفتگو کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے خیالات ادب پارے پیش کیے، اس کا کریڈٹ انھی کو جاتا ہے اور جس طرح سے اہل لاہور نے کثیر تعداد میں دل کھول کر ان کی پذیرائی کی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا اور آئی ٹی کے تمام تر نفوذ کے باوجود لوگ اب بھی کتاب اور ادیب کے حوالے سے اپنے ارد گرد کی دنیا کو سمجھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
مشاعرے کا ذکر اگلے کسی کالم پر چھوڑتے ہوئے فی الوقت میں اپنی بات کو اس کانفرنس کے تصور' تاریخ اور اہداف تک محدود رکھوں گا، دیکھا جائے تو اس طرح کی کانفرنسوں کے انعقاد کی ذمے داری حکومت اور حکومتی اداروں مثلاً اکادمی ادبیات پاکستان' سابق مقتدرہ قومی زبان اور نیشنل بک فاؤنڈیشن وغیرہ پر عائد ہوتی ہے کہ ان شعبوں کو جو سالانہ خطیر گرانٹس ملتی ہیں ان کا ایک مقصد زبان' ادب ادیب' کتاب اور سماجی اخلاقیات اور جمالیات کے حوالے سے قومی اور بین الاقوامی پس منظر میں ان مسائل کی صورت حال کے تجزیے اور اس میں بہتری سے امکانات اور لائحہ عمل کا جائزہ لینا شامل ہے مگر امر واقعہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ سمیت تقریباً تمام متعلقہ سرکاری ادارے اپنی ذمے داری کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں اور یوں زبان اور شعر و ادب کے مسائل بھی اسی انتشار اور خلفشار کا شکار دکھائی دیتے ہیں جو ہماری اجتماعی پہچان بنتے جا رہے ہیں۔
دو برس پہلے ایکسپریس میڈیا گروپ نے کراچی میں اپنے ادارے کی طرف سے پہلی اردو کانفرنس کا ڈول ڈالا جو بہت کامیاب رہی ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اعلان کے مطابق یہ ایک مستقل سالانہ پروگرام بن جاتی مگر (ملک کے بالعموم اور کراچی کے بالخصوص) امن و امان کے مسائل کی وجہ سے یہ سلسلہ وقتی طور پر منقطع ہو گیا جس پر اہل علم و ادب کے ساتھ ساتھ میڈیا گروپ کے مالکان اور انتظامیہ کو بھی بہت تشویش تھی سو سی ای او سینچری پبلیکیشنز (CEO) اعجاز الحق صاحب نے چند ماہ قبل اعلان کیا کہ اس بار یہ کانفرنس لاہور میں منعقد کی جائے گی اور کوشش کی جائے گی کہ آیندہ (امن و امان کے حالات کو دیکھتے ہوئے) اس کا دائرہ دیگر صوبائی دارالحکومتوں سمیت اسلام آباد تک بڑھا دیا جائے گا۔
اب باری آئی ان موضوعات کے انتخاب کی جن پر گفتگو کرنا ضروری تھا تو اس کے لیے ایک بار پھر اسی اسٹیرنگ کمیٹی کو برقرار رکھا گیا جس نے پہلی کانفرنس کے دوران یہ ذمے داری ادا کی تھی اور میڈیا گروپ کی طرف سے برادرم احفاظ الرحمن کو اس کا کوآرڈی نیٹر مقرر کیا گیا جنہوں نے اس ڈیوٹی کو ایک مشن کی طرح ادا کیا اور اپنی صحت کی خرابی کے باوجود تقریباً 5 ماہ تک صبح و شام اس پودے کی ایسی بھرپور دیکھ بھال اور آبیاری کی کہ یہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک شجر سایہ دار کی صورت اختیار کر گیا، بہت سوچ بچار اور بحث مباحثے کے بعد یہ طے کیا گیا کہ اس کا عنوان ''اردو کے حل طلب مسائل اور نئی نسل'' رکھا جائے کیونکہ مستقبل کو شامل کیے بغیر یہ گفتگو محض پرانی نسل کے ناسٹلجیا اور آہ و زاری تک محدود ہو کر رہ جائے گی، نئی نسل بجا طور پر قومی اور ادبی نمایندوں سے یہ سوال کرتی ہے کہ آئین میں یقین دہانی کے باوجود (واضح رہے کہ آئین کے مطابق 1988 تک اردو کو بطور سرکاری زبان عملی طور پر رائج کرنا لازمی تھا) ایسا کیوں نہیں کیا گیا!
دوسرا اہم سوال ابتدائی جماعتوں میں انگریزی زبان کو ذریعہ تدریس قرار دینے کا غیر منطقی اور افسوس ناک فیصلہ تھا کہ جس کی وجہ سے ان 50% بچوں کی تعلیم بھی خطرے میں پڑ گئی جو کسی نہ کسی طرح سے کم از کم مڈل تک تعلیم حاصل کر لیا کرتے تھے، واضح رہے کہ وطن عزیز کے 40% بچوں کو سرے سے اسکول کی شکل دیکھنا ہی نصیب نہیں ہوتی اور یوں تعلیم صرف ان 10% بچوں تک محدود ہو کر رہ جائے گی جن کا یا تو تعلق اپر اور اپر مڈل کلاس سے ہے یا جن کے والدین کچھ نا معلوم اور غیر شفاف ذرایع سے حاصل شدہ دولت کی وجہ سے ان کی تعلیم کے بھاری اخراجات برداشت کر سکتے ہیں، اب ظاہر ہے جب تعلیم کے سسٹم میں سے قومی زبان اور دیگر پاکستانی زبانوں کو سرے سے ہی دیس نکالا دے دیا جائے گا تو ان بچوں کی تہذیبی شخصیت کی تعمیر میں کیسا ہولناک خلا پیدا ہو جائے اور جب یہ اپنی مادری زبانوں اور قومی زبان کے ادب اور رسم الخط سے آشنا ہی نہیں ہو پائیں گے تو اپنے زبان و ادب سے ان کا کیا تعلق باقی رہ جائے گا!
اب یہ دونوں مسئلے ایسے ہیں جن پر ہمارے ذرایع ابلاغ میں کبھی کبھار بات تو کی جاتی ہے مگر اس میں وہ سنجیدگی اور کومٹ منٹ کم کم ہی نظر آتی ہے جس کی انتہائی شدید ضرورت ہے، سو فیصلہ یہی کیا گیا کہ ان دونوں بنیادی سوالات کو تمام ذیلی عنوانات میں اس طرح سے ضم کر دیا جائے کہ یہ کانفرنس اردو کے حل طلب مسائل اور نئی نسل کو اس انداز سے دیکھے کہ اس میں قومی اور عالمی مسائل یک جان ہوجائیں سو مندرجہ ذیل چھ ذیلی عنوانات طے کیے گئے۔
-1 اردو رسم الخط کے مسائل -2 دیگر پاکستانی زبانوں سے اردو کی ہم آہنگی -3 عام فہم زبان (میڈیا اور اردو) -4 اردو پر دیگر (عالمی) زبانوں کے اثرات -5 پاکستانی معاشرے کا خلفشار اور ادیب کا کردار-6 بھارت میں اردو ماہرین ان موضوعات پر بات کرنے کے لیے کہاں کہاں سے کن کن کو مدعو کیا گیا اور انھوں نے کیا کیا باتیں کیں، ان کا خلاصہ انشاء اللہ اگلے کالم میں عرض کروں گا۔