ہم سب خطرے میں ہیں…

ذہنی رجحان کا یہ ایک مثبت پہلو ہے جو ہر معاشرے میں کسی نہ کسی صورت کم یا زیادہ موجود ہوتا ہے


نجمہ عالم October 11, 2013

فطرت انسانی ہے کہ جب وہ کوئی کام اپنی مرضی، پسند اور دلچسپی کے مطابق کرتا ہے تو اس کو نہ صرف دلجمعی کے ساتھ بلکہ بے حد عمدہ طریقے سے انجام دیتا ہے۔ اس مخصوص کام میں نت نئے انداز اپناتا جاتا ہے۔ آپ نے کتنے ہی درزی (ٹیلر) یا فیشن ڈیزائنر کے بارے میں پڑھا یا سنا ہوگا کہ وہ اپنا کام وقت کے ساتھ ساتھ کس قدر بہتر انداز میں پیش کرتے ہیں۔ ایک فیشن ڈیزائنر کی کامیابی شہرت اور اس کے روز افزوں نت نئے اور وقت، موسم اور ماحول کو پیش نظر رکھ کر ڈیزائن کرنے پر منحصر ہے۔ یہی نہیں بلکہ دوسرے شعبہ ہائے زندگی میں بھی اسی قسم کی عمدہ کارکردگی اسی بنیاد پر ممکن ہے کہ کام کرنے والے کو اس کی پسند اور مرضی کے مطابق کام کرنے کا موقع مل جائے اور وہ جس فن یا ہنر سے واقف ہے اس کو منظر عام پر لانے کے لیے بہتر اور سازگار حالات قدرت اس کو عطا کردے تو پھر وہ اس فن یا ہنر میں کمال حاصل کرلیتا ہے یہی نہیں بلکہ اپنے فن کو وقت کے ساتھ ساتھ بہتر سے بہتر انداز میں پیش کرنے پر قادر ہوتا چلا جاتا ہے۔ کوئی خاتون خانہ اگر کھانا پکانے میں دلچسپی رکھتی ہیں تو وہ اپنی ذہنی کاوش سے خود ہی بے حد آسان، ذائقے دار، غذائیت سے بھرپور اور بالکل منفرد کھانے بنانے میں مہارت حاصل کرکے بڑا نام اور شہرت کماتی ہیں۔ یہی صورت حال بیکنگ اور سلائی کڑھائی کے معاملے میں بھی دیکھی گئی ہے۔

ذہنی رجحان کا یہ ایک مثبت پہلو ہے جو ہر معاشرے میں کسی نہ کسی صورت کم یا زیادہ موجود ہوتا ہے ورنہ فنون لطیفہ کب کے نابود ہوچکے ہوتے۔ آج علم و فن کی اس ناقدری کے دور میں بھی کیسے علما، ادباء، مصور، مجسمہ ساز، شاعر اور افسانہ نگار غرض تمام فنون کی کتنی ہی نامور ہستیاں موجود ہیں، غرض یہ کہ جہاں یہ مثبت رخ ہے وہی منفی رخ بھی ہے۔ اب یہ بات کہ کچھ لوگ معاشرے میں مثبت اور کچھ منفی رویہ کیوں اختیار کرتے ہیں۔ وہ کیا عوامل ہیں جن کی بنا پر اﷲ تعالیٰ کا عظیم عطیہ عقل و دانش اور شعور انسانی کن حالات میں تعمیری اور کن وجوہات کے باعث تخریبی کاموں پر صرف ہوتا ہے ایک الگ کالم کا متقاضی ہے۔

اس تمہید کے بعد میں صرف آپ کی توجہ اس جانب مبذول کرانا چاہتی ہوں کہ جب کسی بھی معاشی، معاشرتی یا سیاسی وجہ سے کوئی شخص اپنی صلاحیتوں اور عقل و دانش کو منفی انداز میں استعمال کرتا ہے تو وہ بھی اپنے منفی کام میں دن بہ دن ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ ماہر بھی ہوتا جاتا ہے۔ پھر اس کی عقل اس کا علم اس پر بدعنوانی اور جرائم کے نئے نئے در وا کرتا ہے، چھوٹے موٹے جرائم صفائی سے کرنے پر جب وہ قانون کی زد میں آنے سے صاف بچ جاتا ہے تو پھر وہ ان سے بڑے جرائم کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اپنی صلاحیتوں کو وہ ان ہی غلط کاموں کے لیے استعمال کرتا ہے اور بڑی مہارت سے بڑے جرائم میں ہاتھ مارتا ہے اور جب تھوڑی سی کوشش سے کافی مال ہاتھ آجاتا ہے تو پھر وہ مزید دلیر اور بے خوف ہوجاتا ہے اور یکسر بھول جاتا ہے کہ برے کام کا انجام بالآخر برا ہی ہوتا ہے۔ بعض اوقات ڈکیتی کی واردات میں وہ مزاحمت پر قتل کا مرتکب ہوجاتا ہے اور اب روز قتل کرنا اس کے لیے کوئی بڑی بات نہیں رہتی۔ اگر کبھی پکڑا گیا اور قانون اس کو سزا دینے میں کامیاب ہوگیا تو وہ جیل میں جرائم کے مزید گر سیکھ کر معاشرے میں دہشت کی علامت بن کر سامنے آتا ہے۔ کیونکہ ہمارے جیل خانے مجرموں کی اصلاح کے بجائے مزید جرائم کی تربیت گاہیں ثابت ہوتے ہیں۔

ہفتہ 5 اکتوبر کے اخبار کی سرخی اس بات کا ثبوت ہے کہ منشیات فروشی کا گھناؤنا کاروبار کراچی جیسے بڑے شہر میں سینٹرل جیل سے جیل حکام کی سرپرستی میں بحسن و خوبی جاری ہے۔ بظاہر تمام جرائم پیشہ افراد کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن زور و شور سے جاری ہے، ہر روز کئی درجن مجرم گرفتار ہورہے ہیں اور ساتھ ہی کئی درجن قتل بھی روز کا معمول ہے، گرفتار ہونے والے مجرموں کو بڑی عزت و احترام سے چہرے چھپا کے میڈیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ان جرائم پیشہ افراد کی عزت نفس کا پورا پورا احساس ہے کہ آخر وہ بھی تو انسان اور اسی معاشرے کے افراد ہیں لہٰذا ان کو کسی قسم کی شرمندگی (جو اگر وہ واقعی مجرم ہیں تو ذرا بھی نہیں ہوتی) سے بچانے کا پورا اہتمام کرتے ہیں کہ لوگ ان کے چہرے نہ پہچان لیں یا چہرے چھپانے کی ایک منطق یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اپنی کارکردگی کا چرچہ کرنے کے لیے کرائے کے مجرم پیش کردیے جائیں بعد میں ان کو کچھ دے کر اور معافی مانگ کر آزاد کردیا جائے تو کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوگی کہ جو میڈیا میں اس طرح پیش کیے گئے تھے وہ آخر تھے کون؟

مگر بے گناہوں کو گھروں سے اٹھاکر نام سیاسی وابستگی اگلے پچھلے تمام کارناموں کو پورے اہتمام سے نشر کیا جاتا ہے کہ آج واقعی وطن عزیز میں شرفاء ہی کی عزت داؤ پر لگی ہے باقی مجرم اور ان کی کھلی سرپرستی کرنے والے اعلیٰ حکام ہی معاشرے کے سب سے زیادہ عزت دار افراد ہیں۔۔۔۔ جن کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ماؤں کے اکلوتے بیٹے، گھر کے واحد کفیل کو بلاجواز گھر سے اٹھاکر لے جائیں۔ وہ شاید اﷲ کے وجود سے مکمل طور پر لاعلم ہیں ورنہ یہ احساس کبھی کم ازکم تنہائی میں ہی سہی انھیں بھی تو ہو کہ یہ دنیا دارالمکافات ہے اگر کل میرا بیٹا، بھائی یا بھتیجا کسی اندھی گولی کا نشانہ بن گیا تو مجھ پر کیا گزرے گی؟ مگر دنیا کی لذتوں اور اقتدار کی دھن میں مگن باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت شرفا کے گھر اجاڑے جارہے ہیں۔ سندھ کے وزیر اطلاعات اور سندھ اسمبلی کے اسپیکر اور قائم مقام گورنر کے اس بیان کے بعد کہ اصل مجرم یا تو ملک سے فرار ہوگئے یا پھر روپوش ہوگئے بھلا اس نام نہاد آپریشن کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے اور کیا اس کی غیر جانبداری اور شفافیت پر انگلیاں نہیں اٹھائی جانی چاہئیں؟ خیر بات ہورہی تھی کہ اگر کوئی حقیقی مجرم گرفتار ہو بھی جاتا ہے تو جیل میں اس کو تمام ممکنہ سہولتیں اپنے گناہ آلود کاروبار کو چلاتے موبائل فون سمیت مہیا کی جاتی ہیں اور وہ اپنی جان کی حفاظت کے ساتھ ساتھ بحفاظت اپنے کاروبار کو بھی جیل سے ہی فروغ دے رہا ہے۔ اس ساری کارروائی میںجیل حکام خود شریک اور ان کے سرپرست ہوں تو بتائے کہ اب فریاد کس سے کی جائے؟ ہے کوئی جو اس خبر کا نوٹس لے؟

اسی اخبار میں اس نوعیت کے جرم کے انکشاف کے علاوہ این ای ڈی یونیورسٹی کی بس لٹنے کی خبر بھی ہر قاری کی توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔ میں نے تحریر کے آغاز میں لکھا ہے کہ جب انسان اپنی پسند کے کام کرنے کے بہتر مواقع حاصل کرتا ہے تو وہ اس میں نت نئے انداز اپناتا ہے۔۔۔۔ تو ہمارے شہر ناپرساں میں بدامنی، چوری، ڈاکے، قتل بینک لوٹنے جیسے جرائم تو اب کافی فرسودہ ہوچکے ہیں مگر جرائم پیشہ افراد کے ذہن رسا نے اب ایک نیا انداز اختیار کیا ہے کہ ٹریفک جام میں پھنسی گاڑیوں میں لوٹ مار کی جائے، یہ بھی ذرا پرانا فیشن ہوگیا ہے مگر ابھی چل رہا ہے، بالکل ہی فرسودہ نہیں ہوا۔ چنانچہ بطور جدت اب تعلیمی اداروں کی بسیں لوٹنے کا نیا انداز اپنایا گیا ہے۔ بہت کم وقت میں جامعہ کراچی، جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے بعد اب این ای ڈی یونیورسٹی کی بس لٹنے کے پے در پے واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ جو جرائم برسوں سے شہر کراچی کی خصوصیت قرار دیے جارہے ہیں وہ تو اپنی جگہ اب یہ نیا انداز شہریوں کو مزید خوفزدہ کرنے کے لیے کافی ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو پڑھانے سے بھی ڈر جائیں۔

اس صورت حال پر شہریوں کا رویہ بھی قابل داد ہے، وہ حکومتوں کے خلاف تو ماضی میں کئی بار سڑکوں پر آچکے ہیں مگر اعلیٰ حکام کی زیر سرپرستی ہونے والے جرائم کے خلاف آواز اٹھانے کو تیار نہیں۔ اس بے حسی کے باعث اب خطرہ ہر دروازے پر دستک دے رہا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں