سرمایہ کاری اور سرمایہ داری
کچھ عرصے کے لیے ڈیپوٹیشن پر پنجاب آرٹ کونسل میں شعبہ ڈراما/ ادیبات کے ڈپٹی ڈائریکٹر کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا۔
PESHAWAR:
ستر کی دہائی میں مجھے کچھ عرصے کے لیے ڈیپوٹیشن پر پنجاب آرٹ کونسل میں شعبہ ڈراما/ ادیبات کے ڈپٹی ڈائریکٹر کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا تو زندگی میں پہلی بار مجھے کچھ ایسے علوم اور شعبہ ہائے حیات سے آشنائی ہوئی جو اس سے پہلے میرے لیے گم گشتہ جزیروں کی حیثیت رکھتے تھے اور اس کے ساتھ ہی ان سے متعلق کچھ مخصوص اصطلاحات اور ذخیرہ الفاظ سے بھی واقفیت ہوئی لیکن باقاعدہ تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ان کے محلِ استعمال میں گڑ بڑ ہو جاتی تھی اور بعض اوقات تو ''مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے'' والا معاملہ ہو جاتا تھا، جیسے کئی لوگ جب بہت زیادہ تہذیب کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں تو ''میں کل بھی حاضر ہوا تھا'' کی جگہ ''میں کل بھی تشریف لایا تھا'' بول جاتے ہیں بالخصوص ملتی جلتی آوازوں والے الفاظ کے سلسلے میں اکثر معانی upside down ہوجاتے ہیں۔ شفیق الرحمن مرحوم نے ایک جگہ لکھا ہے کہ جب کسی شخص سے پوچھا گیا کہ تمہیں جمہوریت اور ملوکیت میں سے کون سا نظام پسند ہے تو اس کا فوری جواب تھا ''طوائف الملوکی''
اُنہی دنوں میں ہمارے بورڈ آف گورنرز کی پہلی میٹنگ ہوئی جس میں فنون لطیفہ سے متعلق بہت سے نامی گرامی لوگ موجود تھے۔ اجلاس کی صدارت حکومت پنجاب کے سیکریٹری انفارمیشن کر رہے تھے جو عہدے کے اعتبار سے اس ادارے کے افسر اعلیٰ تھے۔ معاملہ زیر بحث یہ تھا کہ پنجاب کی ایک ایسی مستند تاریخ مرتب کرائی جائے جو اپنے اعلیٰ معیار کی وجہ سے ایک بنیادی حوالے کا کام دے سکے۔ اتفاق سے چند دن قبل ان ہی سیکریٹری صاحب نے مجلس ترقی ادب کے ایک اسی نوع کے اجلاس کی صدارت بھی کی تھی جہاں یہ مسئلہ زیر بحث تھا کہ ''مشاہیر پنجاب'' کے نام سے ایک ایسی کتاب تیار کی جائے جس میں پنجاب کی تاریخ کے نامور لوگوں کے بارے میں مستند معلومات اور ان کے کارناموں کا احوال ایک جگہ پر جمع کر دیا جائے۔ اب ہوا یوں کہ ان کے ذہن میں دونوں باتیں گڈ مڈ ہو گئیں۔
ممبران میں سے کچھ لوگوں نے کوشش کی کہ وہ دونوں منصوبوں کے درمیان موجود فرق کو واضح کر دیں مگر ایک صاحب نے (جو اپنے سرکاری عہدے کی رعایت سے اس بورڈ کے ممبر تھے) خوشامد کی انتہا کر دی۔ اب صورت حال یہ تھی کہ سیکریٹری صاحب تو یہ تسلیم کرنے کو تیار تھے کہ ان سے دو الگ الگ باتیں بوجوہ مکس اپ Mix Up ہو گئی ہیں مگر وہ صاحب اس بات پر تلے ہوئے تھے کہ اس معاملے کا تعلق صوتیات کے الٹ پھیر سے نہیں بلکہ حضور جناب سیکریٹری صاحب نے جو بات ایک دفعہ اپنی زبان مبارک سے ارشاد فرما دی ہے وہی حرف آخر ہے۔ اس محفل میں فیض صاحب اور صفدر میر بھی موجود تھے مگر ان صاحب پر نہ فیض کی زیر لب وضاحت کا کچھ اثر ہوا اور نہ صفدر میر کی موٹی موٹی آنکھوں، تیز نظروں اور گونجیلی آواز کا۔ یہاں تک کہ آخر میں سیکریٹری صاحب کو بھی اس more loyal to the king than the king himself کے جدید روپ کو خاموش کرانا پڑا۔ اس پر پھر شفیق الرحمٰن یاد آ رہے ہیں۔ اپنی مشہور پیروڈی ''تزک نادری'' میں ایک جگہ انھوں نے ایک مفتوح سردار کے بارے میں لکھا ہے کہ:
''اس نے وفاداری کا حلف اتنی مرتبہ اٹھایا کہ ہم نے تنگ آ کر منع کر دیا''
ان ساری باتوں کا اصل محرک اس کالم کا عنوان یعنی ''سرمایہ کاری اور سرمایہ داری'' ہے کہ یہ دونوں لفظ یا اصطلاحات بھی اپنے اندر کئی ممکنہ فکری اور صوتی مغالطوں کو سمیٹے ہوئے ہیں۔ معلوم ہوا کہ Investment Climate کے موضوع پر ایک سیمینار ہو رہا ہے جس میں پاکستان کو درپیش معاشی مسائل پر ملک کے بہت بڑے بڑے ''سرمایہ دار'' (معاف کیجیے گا'' سرمایہ کار'') ماہرین معاشیات، پریس اور میڈیا کے نمائندے اور دیگر اسٹیک ہولڈرز ایک چھت تلے جمع ہو کر متعلقہ مسائل پر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کریں گے اور اس گُھتی کو سلجھانے کی کوشش کی جائے گی کہ ملکی اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کے رستے میں حائل رکاوٹوں کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ ان کو ہٹانے کے لیے کن اقدامات کی ضرورت ہے اور ہم کیوں ان پر عمل نہیں کر رہے یا نہیں کر پا رہے۔
تقریب کے میزبان برادران اشفاق گوندل اور سکندر لودھی تھے جو میڈیا کے طویل تجربے کی وجہ سے اس محفل میں ایسے لوگوں کو جمع کرنے میں کامیاب ہو گئے جن میں سے ہر ایک پر (لطیفے کی حد تک) سرداری کا منصب سجتا تھا کہ ان میں سے کوئی بھی ''بچھو'' کہلانے کا مستحق نہیں۔ تفصیل اس اجمال کی ہے کہ کسی جگہ پر بچھوئوں کی ایک قطار جا رہی تھی ،کسی نے پوچھا تمہارا سردار کون ہے؟ جواب ملا، جس پر ہاتھ رکھو گے وہی سردار ہے۔ بس یہ مشابہت یہیں تک تھی۔ اس محفل کے بیشتر شرکاء اپنے اپنے شعبے کے سردار ضرور تھے مگر ان میں بچھو اور ڈنگ والی کوئی بات نہیں تھی۔
میں قدرے تاخیر سے پہنچا تھا اس لیے ممکن ہے کچھ مقررین کے نام رہ گئے ہوں لیکن جن کی باتیں میں سن سکا ان میں نیب کے دو سابق سربراہان ریٹائرڈ جنرل خالد مقبول اور نوید احسن سمیت اسماعیل قریشی، پی جے میر، سمیع ابراہیم، سلمان شاہ، طارق بُچّہ، بریگیڈیئر ریٹائر فاروق، عارف نظامی، ڈاکٹر احسان ملک، رمیزے نظامی، میاں محمد منشا اور سید بابر علی صاحبان کے اسمائے گرامی حافظے میں محفوظ رہ گئے ہیں۔ یوں تو تقریباً سب نے ہی بڑے مختصر الفاظ میں بہت پتے کی باتیں کیں لیکن ڈاکٹر احسان ملک، طارق بُچّہ، عارف نظامی، میاں محمد منشا اور سید بابر علی صاحبان نے تجزیے کے ساتھ ساتھ صورت حال کو عملی طور پر بہتر کرنے کے لیے ایسی ٹھوس تجاویز بھی دیں جن کی فی الوقت زیادہ ضرورت ہے۔
میاں منشا کی باتوں میں میڈیا اور معاشرے کے عمومی منفی رویوں کے بارے میں ہلکی سی تلخی بھی شامل تھی لیکن چونکہ اس کا انداز غالب کے ایک شعر سے ملتا جلتا تھا اس لیے اچھی لگی۔ شعر یہ ہے کہ؎
رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی سے معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سِوا ہوتا ہے
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا معاشرہ اپنے حق تنقید کو تو بلا دریغ استعمال کرتا ہے لیکن اچھے کام کی تحسین کے لیے نہ اسے وقت ملتا ہے اور نہ الفاظ۔ ان کی باتوں سے اس بات کی بھی وضاحت ہوئی کہ سرمایہ کاری بغیر سرمائے کے نہیں ہو سکتی۔ سو اس میں سرمایہ دار تو آئے گا لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اصل برائی کیا اور کہاں۔ یعنی مسئلہ سرمایہ دار کا نہیں اس سرمایہ دارانہ ذہنیت کا ہے جو کسی اخلاقی اصولی اور قومی درد سے ماورا ہو کر محض اپنے ہندسوں کو ہندسوں سے ضرب دینا جانتی ہے اور اس کے رستے میں آنے والی کوئی بھی چیز اس کے لیے معنی نہیں رکھتی۔ انھوں نے بنگلہ دیش کی صنعتی ترقی اور آبادی کی منصوبہ بندی میں کامیابی کی پالیسی کے مختلف پہلوئوں کو اجاگر کیا کہ ان کے بغیر کسی بھی ملک میں سرمایہ کاری کی فضا (Investment Climate) بہتر نہیں ہو سکتی۔ سید بابر علی نے بھی قدرے مختلف انداز میں اپنی دو باتوں پر زیادہ زور دیا اور بتایا کہ جب تک حکومت کا حجم مختصر اور سرکاری کنٹرول میں چلنے والے بہت سے شعبوں کو پرائیوٹائز نہیں کیا جائے گا ملک ترقی نہیں کرسکے گا۔