چودھویں صدی کی نمود سعودی عرب میں
مگر ابھی چودھویں صدی دور تھی۔ قیامت تو بقول ہماری نانی اماں کے چودھویں صدی میں ٹوٹے گی۔
صاحبو کچھ سنا۔ ترکی میں نہیں' ایران میں نہیں' پاکستان میں نہیں' غضب خدا کا سعودی عرب کے بیچ مسلمان بیبیاں شور مچا رہی ہیں کہ ہمیں موٹر چلانے کی آزادی دو۔ اب سے پہلے انھوں نے موقع موقع سے حکومت وقت سے بصد منت و زاری یہ اپیلیں کی تھیں کہ ہمیں موٹر ڈرائیونگ کی اجازت عطا فرمایئے۔ مگر اب ان کی جرأت اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ کہتی ہیں کہ موٹر ڈرائیونگ ہمارا انسانی حق ہے اور اگر یہ حق ہمیں نہیں ملتا تو بتایا جائے کہ ہمارا یہ حق کس منطق کے تحت غصب کیا گیا ہے۔
اب سے بہت پہلے اکبر آلہ آبادی نے ہندوستان میں مسلمان بیبیوں کے بدلے ہوئے تیور دیکھ کر کہا تھا کہ ؎
ترقی کی نئی راہیں جو زیر آسماں نکلیں
میاں مسجد سے نکلے اور حرم سے بیبیاں نکلیں
مگر ابھی چودھویں صدی دور تھی۔ قیامت تو بقول ہماری نانی اماں کے چودھویں صدی میں ٹوٹے گی۔ کہتی تھیں کہ بی بی جب چودھویں صدی چڑھے گی تو گائے گوبر کھائے گی اور کنواری بر مانگے گی۔ یہ وقت پاکستان میں تو آن پہنچا تھا۔ مگر اس فتنہ کا جواب بھی پاکستان میں ترت کے ترت دیا گیا۔ اس کا قاطع جواب تھا۔ آنر کلنگ (Honour Killing) مگر اس کا تو سان گمان بھی نہیں تھا کہ اور کہیں نہیں سعودی عرب میں بیبیاں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تقاضا کریں گی کہ ہمارے بھی کچھ انسانی حقوق ہیں۔ موٹر ڈرائیونگ ہمارا حق ہے۔ اور اگر ہمارا یہ حق نہیں ملتا تو بتایا جائے کہ آخر کیوں یہ ہمارا حق غصب کر رکھا ہے۔ قیامت' قیامت' قیامت۔ کبھی ہماری پردہ دار بیبیوں نے آنکھ اٹھا کر مردوں کی طرف دیکھا تھا اور ایسا سوال کیا تھا؟ یہ تو سچ مچ چودھویں صدی کے آثار ہیں۔
ہمارے ایک دوست کہنے لگے کہ یہ سب اتا ترک کا کیا دھرا ہے۔ اسلامی دنیا میں سب سے پہلے تو ترکی ہی میں آزادی نسواں کی ہوا چلی تھی۔ وہاں سب سے پہلے عورتوں نے اس طرح ترکی بہ ترکی سوال جواب کرنے شروع کیے تھے۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ تو کسی نہ کسی دن سعودی عرب میں بھی ایسا دن آنا تھا۔
ہم نے کہا مگر عرب کی سرزمین میں خربوزے نے ترکی خربوزوں سے رنگ پکڑنے میں بہت دیر لگائی اتنی دیر کہ ادھر ترکی میں تو اب ہوا کا رخ بدلنے کے آثار ہیں۔
خیر ان معاملات میں دیر سویر کے متعلق کیا کہا جا سکتا ہے۔ ترکی کے خربوزوں کو دیکھ کر کہیں خربوزوں نے جلدی رنگ پکڑ لیا' کہیں دیر سے نئی ہوا پہنچی۔ سعودی عرب کی اپنی آب و ہوا ہے۔ وہاں اب کہیں جا کر یہ ہوا پہنچی ہے۔ اور اس زور شور سے پہنچی ہے کہ اس مطالبہ پر مشتمل جو درخواست دائر کی گئی ہے اس پر گیارہ ہزار خواتین کے دستخط ہیں۔
دوسرے اسلامی ملکوں میں نئی ہوا کب اور کیسے پہنچی' اس کی اپنی تفصیلات ہیں۔ ایران کی ایک مثال ہمیں یاد آ گئی۔ اصل میں تو ایران میں رضا شاہ پہلوی کے زمانے ہی میں اصلاحی دور شروع ہو گیا تھا۔ اسی لیے یہاں جب امام خمینی کا اسلامی انقلاب آیا تو سب سے زیادہ بے چینی کی لہر یہاں کی نسوانی دنیا میں پھیلی۔ سوئے اتفاق سے ایک ایرانی خاتون جن کی ساری تعلیم و تربیت امریکا میں ہوئی تھی عین اسی زمانے میں یہاں وارد ہوئیں۔ تہران کے عارضی قیام میں جو انھیں تجربے ہوئے اسے انھوں نے ایک کتاب کی صورت قلمبند کیا جس کا عنوان اگر ہمیں صحیح یاد ہے جو اس طرح ہے۔
Reading Lolita in Tehran
اصل میں یہ خاتون انگریزی کی پروفیسر تھیں۔ یہاں جب یونیورسٹی میں ان کا گزاراہ نہ ہوا تو انھوں نے گھر پر انگریزی ادب کی کلاس لینی شروع کر دی۔ کتنے طلبا اور طالبات ان کے گرد جمع ہو گئے' ایک دن وہ تعجب سے کہنے لگیں کہ عجب ماجرا ہے۔ جب میں کسی طالب علم سے مصافحہ کرنے کے لیے ہاتھ بڑھاتی ہوں تو وہ اپنا ہاتھ کھینچ لیتا ہے۔ اس پر ان کی ایک شاگردہ نے انھیں بتایا کہ اصل میں ایران کی تہذیب میں عورت کا مرد سے ہاتھ ملانا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اس ایران نژاد بی بی نے جس کی ساری تعلیم و تربیت امریکا میں ہوئی تھی۔ یہ سنا تو ورطۂ حیرت میں غرق ہو گئی۔
ہمیں یاد آیا کہ جب بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں اور انھوں نے سرکاری آداب کے مطابق ایک غیر ملکی سربراہ سے ہاتھ ملایا تو ان پر بہت انگلیاں اٹھیں اور مولویوں نے بہت اعتراضات کیے۔ مگر جب زرداری صاحب کے زمانے میں حنا ربانی کھر وزیر خارجہ بنیں تو وہ کس بے تکلفی سے غیر ملکی مہمانوں سے مصافحہ کرتی تھیں۔ مگر ان پر کوئی انگلی نہیں اٹھی۔ شاید اب تک لوگوں نے یہ سوچ کر صبر کر لیا تھا کہ عورتیں جب ایسے عہدوں پر پہنچیں گی تو پھر یہ تو ہو گا۔ حالانکہ یہ تو وہ زمانہ تھا جب پاکستان میں ہوا الٹی چلنے لگی تھی اور برقعے کی واپسی شروع ہو گئی تھی۔ اور ایسی واپسی کہ ایک بی بی لندن میں بچوں کے اسکول میں ٹیچر کے فرائض انجام دے رہی تھیں۔ کلاس میں بھی برقع پوش رہتی تھیں۔ ان سے کہا گیا کہ یہ تو بچوں کی کلاس ہے۔ کم از کم نقاب اٹھا دیا کیجیے کہ بچوں کو اپنی استاد کی شکل تو نظر آئے۔ انھوں نے ضد پکڑی کہ چاہے دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے نہ برقع اتاروں گی نہ نقاب اٹھاؤں گی۔ ملازمت جاتی ہے تو جائے۔ پھر ملازمت کو تو جانا ہی تھا۔
اس موسم میں جب ہم ہندوستان گئے۔ پہلے دلی' پھر علی گڑھ تو کیا دیکھا۔ دلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ جانا ہوا تو وہاں طالبات جوق در جوق' بالعموم شلوار قمیص کا پہناوا' کوئی کوئی جینز میں 'کوئی کوئی آڑا پائجامہ زیب تن کیے ہوئے۔ ادھر جب علی گڑھ یونیورسٹی میں حاضری دی تو کیا دیکھا کہ طالبات سیاہ برقعہ اوڑھے ہوئے قطار اندر قطار۔ اس سے انحراف کرنے والیاں بھی تھیں۔ مگر کم کم ۔ ارے ہم نے سوچا کہ یہ طالبات تو اصل میں علی گڑھ یونیورسٹی کی روایت کو نبھا رہی ہیں۔ کالے برقعے کی تو پیدائش ہی یہاں ہوئی تھی۔ جب لڑکیوں نے علی گڑھ کالج میں نیا نیا قدم رکھا تو پردہ تو وہ ترک نہیں کر سکتیں تھیں۔ وہ وقت تو ابھی بہت دور تھا مگر نانیوں' دادیوں والا کلغی دار سفید برقعہ بھی انھیں زیب نہیں دیتا تھا۔ رستہ یہ نکالا کہ برقعہ ہو مگر اس کی شناخت الگ ہو۔ سو نئی تراش خراش کا کالا برقعہ زیب تن کر کے کالج میں قدم رکھا۔ اس وقت یہ برقعہ نئی نسوانی تہذیب کی نمایندگی کرتا تھا اور اپنی ایک کشش رکھتا تھا۔ مگر تب سے اب تک زمانہ اتنا بدل چکا ہے کہ وہی برقعہ دیکھنے والوں کو دقیانوسی نظر آتا ہے۔
تو زمانہ اسلامی دنیا میں بھی لشتم پشتم بدلتا ہی چلا جا رہا ہے۔ سعودی عرب میں بھی آخر کسی نہ کسی وقت اور کسی نہ کسی رنگ میں بدلنا ہی ہے۔ مگر کب اور کیسے۔ اس نئے مظاہرے میں آنے والے وقت کی ایک جھلک تو نظر آ رہی ہے۔