ظلم کی ہوگئی ہے حد‘ یا رب
ابھی ہم صلاح الدین کا ہی رونا رو رہے تھے، جسے پولیس والوں نے مار ڈالا۔
پچھلے ایک ہفتے میں جو خبریں آئی ہیں ، انھوں نے دہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ کون عفریت ہیں جو ملک پر چھا گئے ہیں، نہ یہ کسی سے ڈرتے ہیں، نہ انھیں قانون کا خوف ہے اور حد تو یہ ہے کہ یہ اللہ سے بھی نہیں ڈرتے۔ موت، قبر، قیامت ان باتوں پر ان کا ایمان ہی نہیں ہے۔
ابھی ہم صلاح الدین کا ہی رونا رو رہے تھے، جسے پولیس والوں نے مار ڈالا۔ صلاح الدین کا جثہ اور اس کا حوصلہ دیکھ کر یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر ایک ایک پولیس والا اس سے مقابلہ کرتا تو وہ سب کو ''لم لیٹ'' کر دیتا ، مگر اس پر تو سات آٹھ پولیس والے پل پڑے اور آخر وہ مر گیا۔ ''پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی۔'' ابھی صلاح الدین کی ہاہا کار مچی ہوئی تھی کہ تحصیل چونیاں ضلع قصور سے تین بچوں کی لاشیں سامنے آ گئیں جنھیں زیادتی کے بعد مار دیا گیا۔
اس واقعے کے بعد پورا شہر باہر نکل آیا اور تھانہ چونیاں پر عوام نے دھاوا بول دیا جن والدین کے لال مارے گئے ان کا حال خراب تھا اور لوگ دہائیاں دے رہے تھے ''عمران خان! چونیاں تمہیں للکار رہا ہے'' مگر عمران اعلیٰ درجے کے عفریتوں سے لڑ رہا ہے۔
چونیاں میں عوام سراپا احتجاج تھے کہ اس شہر میں دو موٹر سائیکل سوار دو بچوں کو اغوا کر کے لے جا رہے تھے کہ لوگوں نے انھیں دیکھ لیا تو وہ ایک بے ہوش بچے کو گرا کر دوسرے کو لے جانے میں کامیاب ہو گئے۔ سوچنے کا مقام ہے کہ ''یہ بچے اغوا کرنے والا مافیا اتنا طاقتور ہے؟'' ابھی یہی غم و غصے کی عوامی لہر چل رہی تھی کہ لٹن روڈ لاہور سے ایک رکشے والا تین بچوں کو لے جاتا ہوا لوگوں نے پکڑ لیا، رکشے والے کا بیان ہے کہ بچے خود رکشے میں بیٹھے تھے تو بھائی رکشے والے! تو ان بچوں کے رکشے سے اتارنے کا کہتا، مگر تو ان بچوں کو لے کر چل دیا۔
رکشے والے سے پوچھا جائے تو بچوں کو کہاں لے جا رہا تھا؟ یہ سب چل رہا تھا کہ اپنے لاڑکانے میں کمشنر لاڑکانہ کے دفتر کے سامنے ایک ماں کی گود میں اس کے دس سالہ بیٹے نے تڑپ تڑپ کر جان دے دی، اس بچے کوکتے نے کاٹ لیا تھا، اس کے ماں باپ لاڑکانے کے علاوہ شکارپور بھی گئے مگر وہاں کہیں بھی کتے کے کاٹنے کی ویکسین نہیں تھی۔
کتے نے کاٹا، کتوں نے مار دیا۔ پھر اپنے سندھ سے ایک خبر آئی تصویر چھپی موٹرسائیکل والے درمیان میں ایک لاش رکھے جا رہے تھے۔ ان غریبوں کے پاس ایمبولینس کو دینے کے لیے پانچ ہزار روپے نہیں تھے اور کہانی یوں ختم ہوئی کہ موٹرسائیکل سوار باپ اور چچا لاش سمیت ایکسیڈنٹ میں مارے گئے۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ایمبولینس نہ دینے کا نوٹس لے لیا ہے۔
یہی دل دہلا دینے والی فضا چل رہی تھی کہ سجاول شہر سے خبر آئی، تمام ٹی وی چینلز پر دکھایا گیا، ایک تختے پر چارپائی ہے جس پر سات آٹھ سال کی بچی کی لاش ہے اور وارث ، لاش کو رسے کی مدد سے نہر کے دوسرے کنارے لے جا رہے ہیں۔ ''وعدے'' کے باوجود پل نہ بن سکا۔ اداکار علاؤالدین نے ایک پنجابی فلم کا گانا لکھا تھا، اسے مہدی حسن نے گایا تھا، یاد رہے کہ علاؤالدین پنجابی کے دبنگ، نڈر، بے خوف عوامی شاعر استاد دامن کے منہ بولے بیٹے بھی تھے۔ گانے کی چند لائنیں دیکھئے:
گُھنڈ مُکھڑے تو لا او یار
سامنے آ کے سن لے دکھڑے
نہ لُک کے تڑفا او یار
جیڑے اندروں باہروں کھوٹے
کون ایناں نوں ربّا روکے
تیتھوں ودھ کے ناز اینا دے
بن بن بیہن خدا او یار
ترجمہ کچھ یوں ہے ''چہرے سے نقاب اتار اور سامنے آ کے ہمارے دکھڑے سن لے۔ جو اندر اور باہر سے کھوٹے ہیں، اے رب! ان کو کون روکے، تجھ سے بڑھ کر ان کے ناز ہیں اور یہ خدا بن بن کر قابض ہیں، بیٹھے ہیں، ابھی دکھوں کی داستان چل رہی تھی کہ عروس البلاد روشنیوں کے شہر آسمان کو چھوتی ایمپائر کا شہر، جس کا نام کبھی کراچی ہوتا تھا، اب یہ کچرا چی کہلاتا ہے۔
اس شہر کے ایک پوش علاقے پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی میں واقع 2000 گز یعنی 4 کنال کے گھر پر نیب کے اہلکار چھاپہ مارتے ہیں۔ گھر کا مالک لیاقت قائم خانی گھر میں موجود تھا، اس گھرکی کار پارکنگ میں آٹھ گاڑیاں (مالیت کروڑوں روپے) پائی جاتی ہیں۔ 40 گز یعنی دو مرلے پر بنا ہوا باتھ روم ، ٹی وی لگا ہوا، ڈبل بیڈ بچھا ہوا، صوفے رکھے ہوئے، یہ دو مرلہ زمین وہ ہے جس پر ہمارے ملک کے غریب ذرا سے کھاتے پیتے لوگوں کا مکمل گھر ہوتا ہے۔
لیاقت قائم خانی گرفتار ہو کر جا رہا ہے اور صحافیوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہتا ہے ''میرا تعلق زمیندار گھرانے سے ہے اور یہ گھر میرا آبائی گھر ہے'' اگلے روز لیاقت قائم خانی کو پھر اس کے گھر لایا جاتا ہے اور خفیہ لاکر کھلوایا جاتا ہے، اندر سے سونے کے زیورات نکلتے ہیں، نیب کے اہلکار کہتے ہیں دس ارب کا خزانہ ہے جو سابق ڈائریکٹر جنرل باغات حکومت کے گھر سے ملا ہے۔
ایک بات اور لیاقت قائم خانی نے اسلام آباد جاتے ہوئے کہی ''سب پتا پڑ جائے گا اور میں باعزت بری ہو کر آؤں گا'' او شاباشے قربان تیرے حوصلے تے۔ قارئین! یہ گھر تو پدی کا شوربا ہے۔ ابھی پنجاب کی طرف بھی نیب کی یلغار ہونے دیں ''لگ پتا جائے گا'' اور خیبر پختونخوا کے باغات میں بنے ہوئے محل، لہلہاتے ریشم و کمخواب کے پردے وغیرہ وغیرہ۔
یہ ہیں وہ خزانے جن کی وجہ سے گھر گھر اندھیارا ہے۔ مگر ان خزانوں تک پہنچنا بہت مشکل ہے بقول جگر ''اک آگ کا دریا ہے'' اس آگ کے دریا کو کون عبور کرے گا۔ جالب خدا کی بارگاہ میں التجائی ہے:
اپنے بندوں کی کر مدد یا رب
ظلم کی ہو گئی ہے حد یا رب
توڑ دے سامراج کا یہ غرور
کر اس آئی بلا کو رد یا رب
غیر تیری ہنسی اڑاتے ہیں
تجھ پہ بھی پڑ رہی ہے زد یا رب
نیک لوگوں پہ حکمراں بن کر
آتے ہیں کیسے کیسے بد یا رب
کیوں مسلط نہیں آسماں کے تلے
ہم پہ صدیوں سے چند صد یا رب
اے محل سراؤں کے باسیو! میں خود سے کچھ نہیں کہہ رہا۔ ماضی قریب ہی کا واقعہ ہے۔ انقلاب فرانس، حریت پسند انقلابی دستے، سارے ظلمت کے نشانات مٹانے کے شہر شہر لوگوں کے ہاتھ دیکھتے ہیں، ہاتھ نرم ہیں ''گولی مار دو'' ہاتھ کھردرے ہیں چھوڑ دو، یہ ہما محنت کش مزدور ساتھی ہے۔ غاصبو! قابضو تم نہیں تو تمہاری اولادیں یہ دن ضرور دیکھیں گی۔اور یہ جو تحریک انصاف والے جاگیردار ہیں تحریک اور انصاف کا تقاضا ہے۔ اپنی اپنی آدھی جائیدادیں سرکاری خزانے میں جمع کروادیں ورنہ وقت کا انتظار کریں۔