چین کی ترقی
یکم اکتوبر 2013 کو عوامی جمہوریہ چین کی آزادی کے 65 برس پورے ہو گئے ہیں۔ یہ عرصہ وطن عزیز...
یکم اکتوبر 2013 کو عوامی جمہوریہ چین کی آزادی کے 65 برس پورے ہو گئے ہیں۔ یہ عرصہ وطن عزیز کی آزادی سے ایک سال ایک ماہ اور سترہ دن کم بنتا ہے لیکن اگر دونوں ملکوں کی ترقی کی رفتار اور اس کے مجموعی حجم کا موازنہ کیا جائے تو یہ فاصلہ قطبین کے درمیانی فاصلے کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ مجھے 1992 میں پاکستانی ادیبوں کے ایک وفد کے ساتھ پندرہ دن چین میں رہنے اس کے انقلاب کو سمجھنے اور عوام اور اہل قلم سے ملنے کا موقع ملا اگرچہ اس وقت ماوزے تنگ اور چو این لائی کا چین نیا نیا ان راستوں پر چلنا شروع ہوا تھا جن کی وجہ سے وہ آج سب سے تیز رفتار ترقی کرنے والی سپر پاور بن چکا ہے مگر اس کی اٹھان بتا رہی تھی کہ اب وہ خود اور اس کی وجہ سے دنیا ایک نئے دور میں داخل ہونے والی ہے۔ ڈین ژیاو پنگ اور ان کے رفقاء پچاس کی دہائی کے روس کے برعکس سرمایہ دارانہ نظام کا مقابلہ ایک ایسے اقتصادی نظام کے ساتھ کر رہے تھے جو سوشلزم کا داعی ہونے کے ساتھ ساتھ ہر اعتبار سے ایک مانوس مضبوط اور ترقی پسند نظام تھا۔مجھے یاد ہے شنگھائی کے جس ہوٹل میں ہمارا قیام تھا اس کے استقبالیہ کاونٹر پر چین' اس کے نظام اور ترقی کے بارے میں رکھے گئے مختلف بروشرز کے درمیان چین اور ہانگ کانگ کے متوقع رشتے اور تعلقات (اس وقت تک ابھی ہانگ کانگ برطانیہ کے زیر انتظام تھا اور اس کی معیشت اور بینکاری کا نظام سرمایہ داری نظام کا ماڈل سمجھا جاتا تھا) کے بارے میں ایک کتابچہ بہت نمایاں انداز میں رکھا گیا تھا جس کا عنوان تھا۔
One Country,two Systems
یہ گویا چین کی اس بدلتی ہوئی سوچ کا نمایندہ تھا کہ نیا چین کس قدر کشادہ نظر اور جدید سوچ کا حامل ہے (گزشتہ برس مجھے ہانگ کانگ جانے کا موقع ملا تو میں نے اس روشن فکری کے ثمرات اپنی آنکھوں سے دیکھے جو بلاشبہ حیران کن ہیں) یہاں میں شاعر مشرق علامہ اقبال کی سیاسی بصیرت اور وژن کی بھی داد دینا چاہوں گا کہ وہ بیسویں صدی کے بالکل آغاز میں جب چین مغربی استعمار کے ہاتھوں برصغیر سے بھی زیادہ برے حالوں میں تھا گراں خواب چینیوں کے سنبھلنے کی خبر دے رہے تھے۔ اس دورے کے دوران میں نے چین کے تین شہروں پیکنگ (حالیہ بیجنگ) کانگ چو اور شنگھائی کے حوالے سے تین نظمیں لکھی تھیں جو چین کی اس وقت تک کی ترقی کی مظہر تھیں (اب تو بات ہی کچھ اور ہے) آئیے پہلے بیجنگ والی نظم دیکھتے ہیں۔
نگاہ شاعر مشرق کی پیش بینی نے
ہمالیہ کے جو چشمے ابلتے دیکھے تھے
نمو کے جوش نے دریا بنا دیا ہے انھیں
ہر ایک آنکھ میں ٹھہرے تھے جتنے خواب گراں
نگاہ صبح کا چہرا بنا دیا ہے انھیں
ہر ایک شے سے نمایاں ہے لذت تعمیر
ہر ایک نقش ہے اک شاہکار محنت کا
بس ایک خواب ہی دیکھا تمام آنکھوں نے
''ہر ایک بوئے گا خوشیاں' ہر ایک کاٹے گا''
ہر ایک رشتہ الفت میں استوار بھی ہیں
یہ لوگ ایک بھی ہیں اور بے شمار بھی ہیں
جہان نو کی حسیں صبح کا نکھار ہیں یہ
یہ شہر باغ ہے اور قاصد بہار ہیں یہ
چین کی نئی قیادت کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے بڑوں کے اس لانگ مارچ اور اس کی روح کو بھی نہیں بھولی جو آگے چل کر ان کی آزادی کا محرک اور رہنما بنا اور جس میں ایک لاکھ لوگوں نے پا پیادہ دس ہزار میل کا انتہائی دشوار گزار فاصلہ طے کیا اور ان میں سے صرف آٹھ ہزار منزل تک پہنچے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی نظر اقتصادی ترقی اور عوامی خوش حالی کے اس لانگ مارچ پر بھی ہے جس نے ساری دنیا کو رشک بھری نظروں سے چین کی طرف دیکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ساٹھ کی دہائی کے آغاز میں پاک چین دوستی کا جو سفر شروع ہوا آج تقریباً نصف صدی گزرنے اور مختلف النوع امتحانات کا سامنا کرنے کے بعد بھی وہ اسی طرح سے رواں دواں ہے۔ میری معلومات کے مطابق اس وقت دنیا میں صرف چین اور ترکی ہی دو ایسے ملک ہیں جن کے عوام اور حکمران دونوں پاکستان اور پاکستانیوں سے محبت کرتے ہیں بدقسمتی سے ہمارے سیاستدانوں نے عمومی طور پر محبت کے اس پیڑ کو اس طرح سے پھلنے پھولنے نہیں دیا جو اس کا حق تھا رہی سہی کسر ہماری تاجر برادری نے پوری کر دی ہے کہ جنہوں نے اپنے گھٹیا مفادات کے لیے ایسی چھچھوری حرکات کی ہیں کہ ہماری باہمی تجارت کا حجم تو شاید بڑھ گیا ہو لیکن اعتبار اور اعتماد میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔
اگر ہم صدق دل سے سیکھنا چاہیں تو چین سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے خاص طور پر محنت کی عزت اور عظمت بھائی چارے اور مل جل کر زندہ رہنے اور ترقی کرنے کے جو مناظر اور رویے مجھے شنگھائی میں نظر آئے وہ ہمارے عوام اور حکمرانوں دونوں کے لیے بہت سود مند ثابت ہو سکتے ہیں۔ آخر میں اسی زمانے کی لکھی ہوئی نظم ''شنگھائی'' بطور مثال درج کر رہا ہوں جب یہ نظم لکھی گئی تھی اس وقت شنگھائی کی آبادی تقریباً ڈیڑھ کروڑ تھی اب سنا ہے یہ دو کروڑ کے لگ بھگ ہو گئی ہے لیکن اس سے کوئی فرق اس لیے نہیں پڑتا کہ ہمارا روئے سخن معیار کی طرف ہے حقدار کی طرف نہیں۔
ڈیڑھ کروڑ انسان۔ یک دل اور یک جان
ہاتھ میں ڈالے ہاتھ
آگے بڑھتے جائیں
اک دوجے کے ساتھ
منزل روشن ہے
مہکی سبز بہار
گلشن گلشن ہے
محنت پر ایقان
ڈیڑھ کروڑ انسان' یک دل اور یک جان
ہر جانب تعمیر
مٹی' پتھر' دھات
سب میں ہے تنویر
سایہ کرتے رکھ
مل کر بانٹے ہیں
سارے دکھ اور سکھ
بستی' دل' کھلیان
ڈیڑھ کروڑ انسان' یک دل اور یک جان
ہر اک ہے مزدور
سانجھی خوشیوں میں
رہتے ہیں مسرور
ہر غنچہ کھلتا ہے
اک جیسا انصاف ہے
سب کو ملتا ہے
محنت سب کی شان
ڈیڑھ کروڑ انسان۔ یک دل اور یک جان