گھناؤنے واقعات سے بچنے کے لیے جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے

یورپ کے مہذب معاشروں میں بھی جنسی زیادتی کے واقعات عموماً سننے اور پڑھنے میں آتے رہتے ہیں۔


Shehzad Amjad October 02, 2013
ایکسپریس فورم میں دانشوروں اورماہرین کا اظہارِ خیال۔ فوٹو: فائل

بچوں کے ساتھ زیادتی خصوصاً جنسی تشدد کا معاملہ نہ تو نیا ہے اور نہ ہی صرف پاکستانی معاشرہ اس کا شکار ہے، یہ برائی پوری دنیا میں پائی جاتی ہے۔

یورپ کے مہذب معاشروں میں اس قسم کے واقعات عموماً سننے اور پڑھنے میں آتے رہتے ہیں۔ معصوم بچوں یا بچیوں کو اپنی جنسی ہوس کی بھینٹ چڑھانا ایک ایسا قبیح اور شرمناک فعل ہے جس کی نہ تو محض مذمت کرکے اور آنکھیں بند کرکے اسے نظر انداز کیاجاسکتا ہے اور نہ ہی اس کے ملزمان کو کسی قسم کی رعائت دی جاسکتی ہے۔ البتہ پاکستان ایسے ایک اسلامی ملک اور بظاہر صاف ستھرے معاشرے میں اس قسم کے جرم کا ارتکاب انتہائی افسوس ناک اورشرمناک بھی ہے اور باعث ندامت بھی۔

اخلاقی گراوٹ کی اس سے بدترین مثال اور کیاہوسکتی ہے کہ پھول سی نازک کلیوں کو بڑی سفاکی کے ساتھ مسل دیاجائے اور قانون اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس، لاچار اور مجبور ِمحض بن کر رہ جائیں۔ لاہور میں چند روز قبل پانچ سالہ بچی سنبل کو چند شیطان صفت بھیڑیوں نے جس طرح اپنی ہوس کا نشانہ بنایا اس پر جہاں پورے ملک میں احتجاج کی لہر شروع ہوگئی وہاں انتظامیہ، قانو ن نافذ کرنے والے اداروں کا کردار بھی ایک سوالیہ نشان بن کر چیلنج کی صورت میں سامنے آکھڑا ہواہے۔



حقیقت یہ ہے کہ اس صورت حال نے پورے معاشرتی ڈھانچے کو زمین بوس کرکے رکھ دیا ہے اور اس ایک واقعہ سے اس کا کھوکھلا پن سب پر عیاں ہوگیاہے۔ روزنامہ ''ایکسپریس'' نے اس سنگین نوعیت کے ایشو پر اہل سیاست ،نفسیاتی ماہرین اور سول سوسائٹی کے نمائندہ افراد کی رائے جاننے اور اس پر غوروفکر کے دروازے کھولنے کے لیے ایک فورم کا اہتمام کیا جس میں شرکاء نے اس موضوع پر کھل کر اظہارخیال کیا اور معاملے کے تمام پہلووں کااحاطہ کیا۔

فورم کے شرکاء میں پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما پروفیسر اعجاز الحسن، ماہر نفسیات اور ڈائریکٹر سٹوڈنٹس افیئرز لاہورکالج برائے خواتین یونیورسٹی پروفیسر شیریں اسد، ایگزیکٹو ڈائریکٹرورکنگ ویمن آرگنائزیشن آئمہ محمود، چیف ایگزیکٹو وائٹ ربن کمپین عمر آفتاب اورصدرسول سوسائٹی نیٹ ورک عبداﷲ ملک شامل تھے ۔ فورم میں ہونے والی گفتگو کی تفصیلات ذیل میں پیش کی جارہی ہیں۔

پروفیسر اعجازالحسن
(سینئر رہنماء پیپلزپارٹی)
ہر بچہ پاکستان کا شہری ہے اور اس کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ معصوم پانچ سالہ بچی سے پانچ لوگوں کا ریپ ایک گھناؤنا جرم ہے۔ ان مجرموں کو قانون اورآئین پاکستان کے تحت سزا ملنی چاہیے ہماری حکومت کو حوصلہ پیدا کرناچاہیے ایسے ایشو زپرسخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے عوام میںشعور پیدا کیا جائے۔

بھارت میں ایک لڑکی سے ریپ ہوا وہاں کے عوام بڑی تعداد میں باہر نکل آئے اور آج تک مظاہرے ہورہے ہیں یہاں پر پانچ سالہ بچی سے زیادتی ہوئی کتنے لوگ باہر نکلے ہیں۔مجموعی طور پر سب کو اپنے روئیوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے بلکہ یہ جو واقعہ ہوا ہے مجموعی طور پر ہمیں ڈوب مرنا چاہیے۔ یہ جو کہا جارہا ہے کہ مجرموں کو سر عام پھانسی دی جائے ایسا مناسب نہیں ہے کیونکہ لوگوں کے اندر خوف پیداکرکے جرم کنٹرول نہیں کیاجاسکتاہے بلکہ اس کیلئے ضروری ہے کہ مجرموں کو آئین اور قانون کے مطابق سزا دی جائے۔

جرم صرف غریب عوام نہیں کرتے بلکہ زیادہ تر اثر ورسوخ رکھنے والے لوگ جرائم میں ملوث ہوتے ہیں کیونکہ انہیں قانون کا کوئی خوف نہیں ہوتا اور ایسے لوگ ریاست کے قوانین کو اپنی مرضی سے تبدیل کرا لیتے ہیں اس مقصد کیلئے اپنے سیاسی اثرو رسوخ یا مذہب کا سہارابھی لیتے ہیں اس کے علاوہ بعض حالتوں میں بااثر لوگ مذہب کا سہارا لے کر بھی سزاؤں سے بچ جاتے ہیں۔اصل میں ہمارے ملک میں قانون پر طاقتور شخص کے معاملے میں عملدرآمد نہیں ہوتا اسلئے معاشرہ بے حس ہوگیاہے یہاں پر کمٹڈ مجرم کام کرتے ہیں جب جج انصاف کرنے بیٹھتے ہیں تو انہیں گواہ نہیں ملتے ہماری ریاست کو60سال بعد پتہ چلا ہے کہ گواہوں کو تحفظ بھی دینا چاہیے۔ ہماری ریاست میں کسی کو شریف کہنا گالی بن گیا ہے جبکہ بدمعاش کی معاشرہ عزت کرتاہے۔

معاشرے کی قدروں میں تبدیلی آئی ہے یہ بہت بڑا المیہ ہے ہمارے سامنے کوئی مر رہاہو تو کوئی اس طرف دھیان نہیں دیتا کیونکہ لوگ ڈرتے ہیں کہ اس کے بعد دو دوسال تھانوں کے دھکے کھانے پڑیں گے اسلئے لوگ کسی کی مدد کرنے سے بھی ڈرتے ہیں ملکی قوانین بھی کچھ اس طرح کے ہیں جو شہریوں کو کام کرنے سے روکتے ہیں۔ پہلے دور میں اسی پاکستان میں خواتین کو ہر کوئی اپنی ماں بہن سمجھتا تھا اب رویئے تبدیل ہوگئے ہیں معاشرے میں ایسی تفریق پیدا کردی گئی ہے عورت کو صرف جنسی آسودگی کی علامت کے طور پر دیکھا جاتاہے معاشرتی روئیوں کو تبدیل کرنے کیلئے ایک دوسرے سے بات چیت ضروری ہے لوگ جس طرح محلہ داروں کی خوشی غمی میں شریک ہوتے ہیں ان کو چاہیے کہ وہ برائی کے خاتمہ کیلئے اسی طرح پورے معاشرے میں بھی اکٹھے ہوں تو اسطرح کے واقعات میں واضح کمی آسکتی ہے۔



ہمارے پاس صرف محدود مذہبی سوچ رکھنے والے لوگ ہی نہیں بلکہ بڑے اچھے مذہبی سکالرموجود ہیں ان کو آگے لانے کی ضرورت ہے اچھی اور صحیح اسلامی سوچ اور فکر رکھنے والے مذہبی لوگ بھی ہیں جن کی مدد سے ہم معاشرے سے جرائم میں کمی لا سکتے ہیں۔ لگتاہے کہ ایک خاص روش نے ہر سطح پر خرابی پیدا کی ہے۔ قرآن پاک میں ہر چیز موجود ہے ہر مسئلہ کاحل بتایا گیاہے قرآنی تعلیمات پر عمل کیا جائے اور ان تعلیمات کو عام کیا جائے مگر ہم ان پر عمل درآمد نہیں کرتے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں لوگوں میں محبتیں پیدا کرنے کی بجائے ایک خاص مقصد کے تحت نفرت پیدا کی جارہی ہے، یہ بہت شرم کی بات ہے۔ بچوں پر تشدد سمیت تمام جرائم ملکی قوانین پر عملدرآمد کرنے سے ختم ہونگے۔

اس معاملے میں احتیاط کی بھی ضرورت ہے ایشوز کو اتنا نہ پھیلایا جائے کہ ان کی اہمیت ہی ختم ہوجائے۔ استاد اگر بچے کو تھپڑمارتاہے تو اس کو معطل کردیاجائے کیونکہ اگر بچہ شرارتی ہے اور باز نہیں آتاتو اس کے ماں باپ کو بلایاجائے انکو بتایا جائے اس بچے کوسمجھایا جائے حتی کہ اگر بچہ باز نہیں ا ٓتا تو اس کو سکول سے نکال دیاجائے لیکن کسی صورت بھی بچے پر تشدد نہیں کیاجاسکتا۔ رویوں کی درستگی کا عمل گھر سے شروع ہونا چاہئے اس میں ماں باپ کا بنیادی کردار ہے۔

میڈیا کو چاہیے کہ وہ ذمہ داری کامظاہرہ کرے جس بچی کے ساتھ یہ افسوسناک واقعہ ہواہے اس کی تصویریں چل رہی ہیں اس کی فیملی کے انٹرویو کئے جارہے ہیں اخبارات میں تصویریں چھپ رہی ہیں۔ میڈیاوالے مائیک ان کی بھائی بہنوں کے منہ کے سامنے کرکے پوچھ رہے ہیں کہ آپ اس واقعہ کے بعدکیامحسوس کرتے ہیں یہ عمل بالکل نامناسب ہے اس طرح کے سوالات نہیں ہونے چاہیے اسطرح اس بچی اوراس کے خاندان کی عزت میںفرق آتا ہے۔ میڈیا اور خاص کر الیکٹرانک میڈیا کو چاہئے کہ اپنے طریقہ کار پر نظر ثانی کرے۔

پروفیسر شیریں اسد
(پروفیسر آف نفسیات اور ڈائریکٹر سٹوڈنٹس افیئرلاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی)
یہ موضوع بڑا دردناک ہے اور اس پر بات کرتے ہوئے انسان کی روح تک کانپ جاتی ہے۔ ہم ایک پڑھے لکھے اور مہذب معاشرے میں رہتے ہیں مگر یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ بحیثیت معاشرہ ہم کیا کررہے ہیں اور معاشرے میں اپنا کردار بہتر انداز میں ادا کررہے ہیں اس پر اگر ٹھنڈے دماغ سے سوچا جائے تو انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ ہم بحیثیت معاشرہ اپنا کردار بہتر طریقے سے ادا نہیں کررہے ہیں اگر ہم یہ کردار ادا کررہے ہوتے تو پانچ سالہ بچی کے ساتھ اتنا گھناؤنا واقعہ نہ ہوتا۔

کوئی بھی مہذب انسان اس طرح کے جرم کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اگرہم اپنے معاشرے میں دیکھیں تو یہ اس طرح کا واحد واقعہ نہیں ہے بلکہ اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں اور ان میں سے زیادہ تر رپورٹ بھی نہیں ہوتے۔ اس طرح کے واقعات میں جہاں مجرم ذمہ دار ہے وہیں بچوں کے والدین بھی اتنے ہی ذمہ دار ہیں جو بچوں کے حوالے سے احتیاط نہیں کرتے، ان کے ساتھ اپنا رویہ دوستانہ کی بجائے حاکمانہ رکھتے ہیں اور سب سے اہم بچوں کی دیکھ بھال خود کرنے کی بجائے ملازموں کے حوالے کردیتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک واقعہ میرے ایک جاننے والے خاندان کے ایک 3سالہ بچے کے ساتھ بھی ہوا۔بچے کے والد ایک قومی ادارے میں ملازم ہیں اور گھر سے باہر تھے۔ والدہ بچے کو بیٹ مین کے پاس چھوڑ کر خریداری کے لئے چلی گئی۔

اس بچے کے ساتھ زیادتی شروع کی ہی تھی کہ اس کی ہمسائی نے چیخوں کی آوازیں سن کر خاتون کو فون پر اطلاع دی کہ گھر سے بچے کی چیخوں کی آوازیں آرہی ہیں۔ بچے کی قسمت اچھی تھی کہ وہ ابھی گھر کے قریب ہی تھی اور اس نے فوراً آکر بچے کو بیٹ مین سے بچایا۔ والدین نے بدنامی کے ڈر سے واقعے کی رپورٹ کرنے کی بجائے خاموشی سے بیٹ مین کو نوکری سے فارغ کردیا۔ ان واقعات سے ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ ایسا کبھی ہمارے ساتھ بھی ہوسکتا ہے اور ان سے سبق سیکھنا چاہئے۔ اس طرح کے واقعات کے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ واقعہ کے مجرموں کو سرعام پھانسی دی جائے۔

جب تک ان مجرموں کو سر عام پھانسی نہیں دی جائے گی ان کے دل میں قانون کا خوف پیدا نہیں ہوگا اور واقعات کی روک تھام مشکل ہوگی۔میں یونیورسٹی میں سٹوڈنٹس افیئرز کی ذمہ داراور نفسیات کی استاد ہوں اس لئے طالبات اپنے مسائل اور معاملات مجھے بتاتی ہیں جس سے مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ اخلاقی انحطاط کے اس درجے پر پہنچ چکا ہے اور جنسی زیادتیاں اتنا بڑھ چکی ہیں خون کا رشتہ رکھنے والے لوگ بھی بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی میں ملوث پائے جارہے ہیں۔ہمارا المیہ اب یہ ہے کہ ہم جرائم کے عادی ہوکر بے حس ہوچکے ہیں کراچی میں روزانہ 15سے 20لوگ قتل ہوجاتے ہیں اور ہم صرف ان کی گنتی کرتے ہیں اور اگر کسی دن یہ تعداد کم ہوتو یہی سوچ ہوتی ہے کہ شام تک تعداد پوری ہوجائے گی، یہ ہمارے سوچنے کا انداز ہے۔

ہمارے ہاں زیادتی کے معاملے پر کھل کر بات کرنے میں بھی ہچکچاہت ہوتی ہے مگر جب تک ان معاملات میں کھل کر بات نہیں کی جائے گی، لوگوں میں اس حوالے سے آگاہی نہیں پیدا ہوگی، حکمران قوانین بنانے میں سنجیدگی دکھائیں گے اور ان کی روک تھام کیلئے لوگ اپنے طور پر احتیاط کرنا شروع کریں گے ان واقعات کی روک تھام ممکن نہیں ہے۔

قوانین کے ساتھ ساتھ والدین کو اپنے طور پر بھی احتیاط کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ والدین بچوں اور خاص کر بچیوں کے ساتھ دوستانہ رویہ نہیں رکھتے جس سے وہ اپنے مسائل سے انہیں آگاہ کرنے میں خوف محسوس کرتے ہیں، اس رویئے کو بدلنا ہوگا، بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ اپنانا بہت ضروری ہے۔ گھریلو ملازمین بھی عمومی طور پر بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں ملوث ہوتے ہیں جنہیں عام طور پر چھپا لیا جاتا ہے اس لئے والدین کو گھریلو ملازمین پر نظر رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ زیادتی کے واقعہ کی کی سزا فوری اور موقع پر ہونی چاہئے۔

آئمہ محمود
(ایگزیکٹو ڈائریکٹر ورکنگ ویمن آرگنائزیشن)
زیادتی کے حالیہ واقعات جو بچوں کے ساتھ ہورہے ہیں، یہ ہوتے پہلے بھی تھے مگر آزاد میڈیا کی وجہ سے اس ناسور کی نشاندہی ہونا شروع ہوئی ہے۔ یہ زہر جو ہمارے معاشرے میں سرایت کرتا جارہا ہے اور اس میں اضافہ ہورہا ہے۔ ہمارے معاشرے کی ترقی کے تمام دعووں کے برعکس اس طرح کے واقعات ہورہے ہیں۔ اس طرح کے واقعات اگر بڑھ رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ گھر میں ہمیں وہ مناسب ماحول نہیں ملتا۔ بچوں کے ساتھ گھر اور سکول میں مار پیٹ کا نشانہ بنایا جاتا ہے حالانکہ بچوں کے ساتھ محبت اور شفقت کا رویہ رکھنا چاہئے۔

استاد کو کوئی حق نہیں کہ وہ بچے پر تشدد کرے جو بھی استاد مار پیٹ میں ملوث پایا جائے بلکہ اگر کوئی استاد بچے کو تھپڑ بھی مارے تو اس کو فوری نوکری سے برخاست کیا جانا چاہئے۔ سکول اور گھر کے علاوہ مدرسے جہاں پر دینی تعلیم دی جاتی ہے اور وہ دین پڑھایا جاتا ہے جو کہ محبت اورامن کا درس دیتا ہے وہیں پر تشدد اور مارپیٹ لمحۂ فکریہ ہے۔ ہم نے بچوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے کنونشن منعقد کروایا جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ بچوں کے تحفظ اور جنسی تشدد کو روکنے کیلئے قوانین بنائے جائیں۔

تاہم صرف کنونشن منعقد کرانے سے مسئلے کا حل نہیں ہوگا بلکہ حکومت کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا چاہئے اور اپنا کردار بھی ادا کرنا چاہئیے۔ حکومتی کارکردگی کا اندازہ اس چیز سے لگایا جاسکتا ہے پانچ سالہ بچی سے زیادتی کیس میں ایک ایک پل کی سی سی ٹی وی فوٹیج موجود ہے مگر ابھی تک تفتیش کسی نتیجے پر نہیں پہنچی۔ یہ گڈ گورننس کے سراسر خلاف ہے اور گڈ گورننس کے حکومتی دعووں پر سوالیہ نشان ہے۔ حکومت نے آج تک بچوں کے تحفط کیلئے کوئی قوانین ہی نہیں بنائے تو بچوں کا تحفظ کیسے ہو؟ ہماری حکومت اور قانون پر عملدرآمد کے ذمہ دار ادارے بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔

بچوں کے تحفظ کیلئے ہم ان پر انحصار نہیں کرسکتے۔ ہماری پولیس اور دیگر ایجنسیاں اس اہل ہی نہیں ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے ذمہ دار افراد صرف اخبارات میں بیان دیکر اور کانفرنسز کا انعقاد کرکے خاموش ہوکر نہ بیٹھ جائیں اور زیادتی کا شکار ہونیوالے بچے کے گھرجاکر ان سے اظہار ہمدردی ہی نہ کریں بلکہ اس کی روک تھام کیلئے قوانین بنائے جائیں اور ان پر سختی سے عمل بھی کرایا جائے۔

جب تک بچوں کے تحفظ کے قوانین نہیں بنیں گے تب تک تبدیلی نہیں آئے گی۔ لڑکوں کو بہتر تعلیم کی ضرورت ہے مگر ساتھ ہی لڑکیوں کو بھی انہی جیسا سمجھا جائے۔ لڑکوں کو بھی یہ سمجھایا جائے سب لوگ اور لڑکیوں کو بھی اپنے جیسا سمجھیں۔ حکومتی سطح پر اس مسئلے کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا جب تک حکومت اس پر سنجیدہ نہیں ہوگی اور اس کی روک تھام کیلئے قوانین بنا کر ان پر سختی سے عمل نہیں کرائے گی اس طرح کے واقعات کی روک تھام ممکن نہیں ہے۔

عمر آفتاب
(چیف ایگزیکٹو وائٹ ربن کمپین)
کچھ عرصہ سے پاکستان میں بچوں پر تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہاہے جس میں ہر قسم کا تشدد شامل ہے پاکستان میں 8سے10 فیصد کیسز ایسے ہیں جن میں بچوں پر تشدد اور زیادتی کے حوالہ سے ان کے رشتہ دار ملوث ہیں اور پانچ سالہ سنبل جس کے ساتھ زیادتی ہوئی کے کیس میں پتہ چلاہے کہ اس میں بھی اس کا کزن ملوث ہے اسطرح کے گھناؤنے عمل میں رشتہ داروں کا ملوث ہونا بہت تشویشناک بات ہے۔ ایک طرف ہم مذہبی معاشرہ ہونے کی بات کرتے ہیں دوسری طرف ہمارے معاشرے کارجحان یہ ہے۔

ایک سروے کے مطابق پاکستان میں پچھلے ایک سال میں بچوں پر مختلف قسم کے تشدد کے 2500کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جو انتہائی تشویشناک بات ہے جبکہ بہت سارے ایسے کیسز ہیں جو رپورٹ ہی نہیں ہوتے لوگ بدنامی کے ڈر سے ان کو چھپا لیتے ہیں اگر دیکھا جائے تو ان کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔ ایک جوینائل کیس میں ملزم ایک پندرہ سالہ لڑکے سے بات کرنے کا موقع ملا تو اس نے ایسا کرنے کی وجہ یہ بتائی کہ اس نے ایک قابل اعتراض فلم دیکھی جس کے بعد اس نے وہی عمل دہرایا۔

ہمارے گاؤں شہروں اور محلوں میں منی سینما کھلے ہوئے ہیں جہاں پر فحش فلمیں چل رہی ہیں ہمیں برائی کو ختم کرنے کیلئے ان چیزوں کو روکنا ہوگا۔ معاشرے کو مجموعی طور پر رویئے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے پاکستان میں قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ سمجھ نہیں آتا کہ سوسائٹی کس طرف جارہی ہے اس کے روئیوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تعلیمی نصاب میں بچوں کے حوالہ سے انفارمیشن شامل کرنے کی ضرورت ہے اس میں حکومت کابھی رول ہے کہ وہ نصاب تعلیم میں بچوں کے حوالہ سے ساری انفارمیشن کوشامل کرے تاکہ ان چیزوں سے بچوں کو سیکھنے میں مدد ملے اور اپنے آپ کو نشانہ بننے سے بچا سکیں۔



دوسرے ممالک میں بچوں کو باقاعدہ اس بات کی تربیت دی جاتی ہے کہ انہوں نے اپنی حفاظت کس طرح کرنی ہے اور کن کن چیزوں سے بچناہے اگر کوئی انہیں بلیک میل کرے تو فوری بتاناہے بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بچوں کو اس طرح کی کوئی تربیت نہیں دی جاتی اور بچوں پر تشدد کے واقعات ہوتے بھی ہیں تو انکو والدین چھپا لیتے ہیں تاکہ ان کی بدنامی نہ ہو لیکن اس طرح بچے نفسیاتی مسائل کاشکار ہوجاتے ہیں۔ ہماری تنظیم خواتین کے حقوق کیلئے ترجیحی بنیادوں پر کام کررہی ہے ہم خواتین میں اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے شعود کو اجاگر کررہے ہیں کیونکہ خواتین بھی اس معاشرے کا بہت اہم حصہ ہیں ان کا وہی مقام ہے جو دوسرے افراد کاہے ۔

بچوں کے حقوق کیلئے بہت ساری تنظیمیں کام کررہی ہیں خاص طور پر جیلوں میں جو بچے قید ہیں انہیں قانونی امداد فراہم کرنا بہت اہم کام ہے کیونکہ جیلوں میں بہت سے ایسے بچے قید ہوتے ہیں جو بے گناہ ہوتے ہیں لیکن وہ جیل میں رہ کر جرائم پیشہ بن سکتے ہیں ان کو لیگل ایڈ فراہم کرکے انہیں معاشرے کا بہتر شہری بنا یاجاسکتاہے۔ ہمارا معاشرہ مرد کا معاشرہ ہے یہاں پر بچوں اور خواتین کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی جن کی ضرورت ہے اس حوالہ سے سول سوسائٹی کی مختلف تنظیمیں مردوں کو ان ایشوز کے بارے آگہی دینے کیلئے کام کررہی ہیں اور انکی یہ کوششیں کامیاب بھی ہوئی لیکن ابھی اس میں کامیابی کی ریشو بہت کم ہے۔

عبداﷲ ملک
(صدر سول سوسائٹی نیٹ ورک)
اس بھیانک واقعے پر بات کرنے سے پہلے یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس واقعے کو سامنے لانے میں میڈیا کا کردار بہت اہم ہے کیونکہ اس طرح کے واقعات تو پہلے بھی ہوتے رہے ہیں مگر ان کوسامنے نہیں لایا جاتا تھا مگر اب میڈیا کی وجہ سے یہ معاملات سامنے آنا شروع ہوئے ہیں جس سے ان کی روک تھام میں مدد ملے گی۔کسی معاشرے کو سمجھنے کے لئے چار چیزیں اہم ہوتی ہیں معاشرے کا مطالعہ، معاشی صورتحال، سماجی رویئے اور قانون۔

معاشرے کا مطالعہ کریں تو اس وقت ہمارا معاشرہ زمانہ جاہلیت کی طرف جارہا ہے جوں جوں ٹیکنالوجی ترقی کررہی ہے ہم تنزلی کی طرف جارہے ہیں اور اس دور کی طرف واپسی کا سفر جاری ہے جب زمانہ جاہلیت میں لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ دفنا دیا کرتے تھے۔ چند روز پہلے لاہور میں ہم نے دیکھا کہ ایک باپ نے اپنی بچی کو دریا میں پھینک دیا۔ یہ زمانہ جاہلیت جیسا ہی واقعہ ہے۔ اس وقت یہ چیز بہت عام ہوچکی ہے کہ بیٹیوں کو گھر میں دوسرا درجہ دیا جاتا ہے۔ بیٹوں کو بہتر تعلیم دلوائی جاتی ہے مگر بیٹیوں کی تعلیم کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ بیٹی کے بارے میں یہی سوچا جاتا ہے کہ اس نے بیاہ کر پرائے گھر چلے جانا ہے اور وہاں جاکر صرف گھر ہی چلانا ہے تو اس کیلئے زیادہ تعلیم کی ضرورت نہیں ہے۔



حالانکہ لڑکوں سے ساتھ لڑکیوں کی تعلیم کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے۔ لڑکیوں کے ساتھ والدین کا رویہ بھی دوستانہ نہیں ہوتا۔ دوسرا معاشی سسٹم ہوتا ہے ہمار معاشی سسٹم بھی خراب ہوچکا ہے مڈل کلاس جو ہر معاشرے کی صحیح عکاس ہوتی ہے اور اس کا معاشرے میں کلیدی کردار ہوتا ہے وہ ہمارے ہاں ختم ہوچکی ہے۔یہاں چھینا جھپٹی کی صورتحال ہے مثال کے طور پر اگر میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے تواسے دوسرے سے چھیننے کی کوشش کروں گا۔ ہم اپنی محرومیوں کا ذمہ دار دوسروں کو سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں میں کسی چیز سے محروم ہوں تو دوسرا بھی اس سے محروم ہوجائے۔ یہ رویہ منفی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ تیسرے سماجی رویئے ہوتے ہیں ہمارے سماجی رویوں میں رواداری نہیں رہی اور ہم یہ رویئے بدلنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔

دنیا بھر میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ہوتا ہے اور خاص کر انفارمیشن ٹیکنالوجی جس میں انٹر نیٹ بھی شامل ہے دیگر ممالک نے اس کا استعمال آہستہ آہستہ شروع کیا ، انہوں نے اسے مثبت طور پر لیا اور وہ اس کے عادی ہوگئے جبکہ ہم انے اچانک اسے اپنایا جس کے باعث فائدہ اٹھانے کی بجائے ہم نے اس سے نقصان زیادہ اٹھایا۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ اگر ہمارے ہاں کوئی حادثہ ہوجائے تو فرسٹ انفارمیشن رپورٹ جسے ایف آئی آر کہا جاتا ہے جوکہ ہر جرم کے بعد بنیادی ضرورت ہے اور درج کرنا پولیس کی ذمہ داری ہے وہی درج نہیں ہوتی اور تفتیش کا عمل جو کہ اس کے بعد شروع ہونا ہوتا ہے اس کیلئے بھی پولیس کی بجائے مدعی کو خود تفتیش مکمل کرکے تفتیشی افسر کو دینا پڑتی ہے۔

تفتیشی افسر جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے تفتیش کر طریقہ کار سے آگاہ ہی نہیں ہے اس کے بعد وہ گواہ جنہوں نے واقعہ ہوتے ہوئے دیکھا ہوتا ہے وہ کیس اور عدالتی نظام کی طوالت سے گھبرا کر گواہی دینے سے بھاگ جاتا ہے جس کے نتیجے میں مدعی کو واقعہ کے جھوٹے گواہ پیدا کرنا پڑتے ہیں۔میڈیکو لیگل کا طریقہ بھی درست اور جدید تقاضوں کے مطابق نہیں ہے۔ میڈیکو لیگل میں صرف یہ بتایا جاتا ہے کہ زخم کتنا گہرا ہے اور کس چیز سے لگایا گیا ہے۔

جبکہ جدید طریقہ میڈیکو لیگل میں زخم کو جانچ کر یہ تک بتادیا جاتا ہے زخم کس قسم کے اور کونسے ہتھیار سے لگا ہے جبکہ ہم ابھی تک پرانے فرسودہ طریقے کو استعمال کیاجارہا ہے جب تک ہم جدید ٹیکنالوجی استعمال شروع نہیں کریں گے تفتیش کے عمل میں بہتری نہیں آئے گی۔ چوتھی اہم چیز ہمارا قانون ہے ۔ ہمار جوڈیشل سسٹم بہت پیچیدہ ہے جس میں کیس اتنا لمبا کردیا جاتا ہے کہ انصاف کی فراہمی ممکن نہیں رہتی کیونکہ انصاف کی فراہمی میں جتنی بھی تاخیر ہوگی انصاف مشکل ہوجائے گا۔ پیچیدہ عدالتی طریقہ کار کی باعث ملزمان چھوٹ جاتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں