کچرا اٹھانے کے لیے آرٹیکل4 149کا اطلاق
اپوزیشن جماعتیں پہلے ہی وفاقی حکومت پر یہ الزام عائد کرتی رہی ہیں کہ وہ 18ویں آئینی ترمیم کو ختم کر دینا چاہتی ہے۔
کراچی سے کچرے کی صفائی کی ناکامی کے ضمن میں سندھ حکومت اور بلدیہ عظمی کراچی نے یہاں کے شہریوں کو بے پناہ مایوس کیا اور وفاقی حکومت کو جواز فراہم کیا ہے کہ وہ کراچی کی صفائی کے بہانے آئین کے آرٹیکل 149 (4) کے تحت کراچی کا کنٹرول سنبھالنے کا مطالبہ کرے ۔
موجودہ وفاقی حکومت نے اب کراچی سے کچرا اٹھانے اورگندگی کی صفائی کے لیے آئین کے آرٹیکل 149(4) کے تحت وفاق کی مداخلت کا شوشہ چھوڑ کر نان ایشو کو بلاوجہ موضوع بحث بنا دیا ہے۔ اس مسئلے پر ملک کی بڑی قومی سیاسی جماعتوں سمیت سندھ حکومت اور سندھ کی دیگر چھوٹی سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھرپور احتجاج کیا جا رہا ہے۔
یہ سب کچھ آج ایک ایسے موقع پر ہو رہا ہے کہ جب ملک کو قومی یکجہتی کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر قانونی اور غیر اخلاقی تسلط قائم کر لیا ہے۔ اسی لیے اپوزیشن الزام عائد کر رہی ہے کہ حکومت اپنی خارجہ پالیسی کی ناکامی چھپانے کے لیے اس طرح کے شوشے چھوڑکر عوام کی توجہ مقبوضہ کشمیر سے ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔
وجہ جو بھی ہو بہرحال سوال یہ ہے کہ کراچی سے کچرے کی صفائی کے لیے وفاقی حکومت کو آئین کے آرٹیکل 149(4) کے تحت اختیارات کی کیا ضرورت ہے ؟ ورنہ سچ تو یہ ہے کہ اگر وزیر اعظم عمران خان گزشتہ برس کیے گئے اپنے وعدے کے مطابق اعلان کردہ کراچی پیکیج کے 162 ارب روپے جاری کر دیں تو کراچی کی صفائی سمیت کئی دیگر مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں کیونکہ دیکھا تو یہی گیا ہے کہ مسائل حل کرنے کے لیے سب سے پہلے کام کرنے کا جذبہ ، پھر وسائل اور آخر میں اگرکوئی رکاوٹ حائل ہو تو آئینی اختیارات درکار ہوتے ہیں لیکن یہاں صورتحال بالکل مختلف ہے، نہ جذبہ دکھائی دے رہا ہے اور نہ وفاق وسائل دینے کو تیار ہے لیکن صرف اختیارات کا حصول مقصود دکھائی دیتا ہے۔
جس سے مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ یہ امر خود کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ کراچی سے صرف کچرا اٹھانے اور گندگی صاف کرنے کے لیے وفاقی حکومت کو آئین کے آرٹیکل 149(4)کے تحت کراچی کا آئینی کنٹرول درکار ہوگا۔ یہاں اپوزیشن یہ سوال بھی اٹھا رہی ہے کہ کراچی کی صفائی کے لیے پی ٹی آئی کی وہ وفاقی حکومت کنٹرول کا مطالبہ کر رہی ہے۔
جس سے پشاور میں گزشتہ کئی سال سے ایک میٹرو بس منصوبہ (بی آر ٹی) مکمل نہیں ہو سکا ، اور جس کی پنجاب حکومت کی کارکردگی اور بدترین نظم حکمرانی کی داستانیں زبان زد عام ہیں۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ پہلے آپ ان کا مسئلہ اور ان کی صحیح طور خدمت تو کر لیں جس صوبے کے عوام نے آپ کو اپنی خدمت کرنے اور اپنے مسائل حل کروانے کا مینڈیٹ دیا ہے پھر آپ کسی دوسرے صوبے کے عوام کی خدمت کے لیے آئینی اختیارکی بات کیجیے گا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے تو اس مسئلے پر اپنے سخت ردعمل کا اظہارکر کے آرٹیکل 149(4) کے تحت سندھ میں وفاق کی مداخلت کو ملکی سلامتی کے خلاف سازش قرار دیا ہے۔ اسی مسئلے پر اپنے شدید تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما محمد زبیر نے کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 149(4) کے تحت کراچی کا انتظام وفاق کو سونپنے کا مطالبہ کرنا درحقیقت سندھ کی تقسیم کا مطالبہ ہے جس کی ہر سطح پر مزاحمت اور مخالفت کی جائے گی اور سندھ کوکسی صورت تقسیم نہیں ہونے دیا جائے گا۔
ویسے بھی آئین کے آرٹیکل149(4) کے تحت فیصلے کے اختیارات وفاق کو منتقل ہونا اور صوبائی حکومت کا ان کے کیے گئے فیصلوں پر عمل درآمد تک محدود رہنا درحقیقت 18ویں آئینی ترمیم میں دی گئی صوبائی خودمختاری کو سلب کرنے کے مترادف ہو گا۔ سندھ حکومت اور اپوزیشن جماعتیں پہلے ہی وفاقی حکومت پر یہ الزام عائد کرتی رہی ہیں کہ وہ 18ویں آئینی ترمیم کو ختم کر دینا چاہتی ہے۔
اس اقدام سے ان کے الزام کو تقویت حاصل ہو گی کہ وفاق صوبہ سندھ کو 18ویںآئینی ترمیم کے ذریعے حاصل ہونے والے اختیارات سے محروم کر دینا چاہتا ہے۔ صرف کراچی کی صفائی کے لیے وفاقی حکومت کا آئین کے آرٹیکل 149(4)کے تحت اختیارات حاصل کرنے کا مطالبہ کرنا اور اس کے نتیجے میں صوبائی خود مختاری کو سلب کرنا خود 1973ء کے آئین کے منشاء کے بر خلاف ہو گا کیونکہ 1973 ء کے آئین میں آرٹیکل 149(4)کے اطلاق کے لیے جس طرح کے حالات کی وضاحت کی گئی ہے۔
اُس کے مطابق تو امن وامان کی بد ترین صورتحال کی بحالی یا سنگین معاشی بحران ، بس یہی دو صورتیں ہیں کہ جن میں آئین ، آرٹیکل 149(4)کے اطلاق کی اجازت دیتا ہے ورنہ اس کا استعمال آئین کی روح کے خلاف ہے، یعنی 1973ء کے آئین کی روح کے مطابق کسی شہر سے محض کچرا اٹھانے کے لیے آئین کے آرٹیکل 149(4)کا اطلاق خود آئین کے خلاف ہے جس کے انتہائی مضر اثرات ہماری قومی سیاست پر مرتب ہونے کا اندیشہ ہے۔
2013ء کے انتخابات میں جب وفاقی سطح پر مسلم لیگ (ن) کامیاب ہوئی تو اسے کراچی میں امن بحال کرنے کی ضرورت کا احساس تھا۔ کراچی جو اس وقت ایک خطرناک اور غیر محفوظ شہر تھا کہ جہاں شہریوں کی جان و مال قطعی طور پر محفوظ نہ تھی اور روز درجنوں افراد کا جاں بحق ہونا ایک معمول بن چکا تھا۔ وفاقی حکومت نے افواج پاکستان اور سندھ کی صوبائی حکومت کے اعتماد سے مجرموں کے خلاف آپریشن شروع کیا۔
جس کا سارا خرچہ وفاقی حکومت نے برداشت کیا، یہ وہ مرحلہ تھا کہ جب اگر وفاقی حکومت آئین کے آرٹیکل 149(4) کے تحت اختیارات کا مطالبہ کرتی تو اسے آئینی جواز حاصل ہو سکتا تھا لیکن وفاقی حکومت نے اس موقع پر آئین کے آرٹیکل 149(4) کے اختیارات طلب کیے بغیر ہی مطلوبہ نتائج حاصل کر کے کراچی کو ایک پرامن شہر بنا دیا کہ جس کے بعد یہاں تجارتی اورکاروباری سرگرمیاں ایک بار پھر اپنے عروج تک جا پہنچیں۔
ماضی قریب کے اس تجربے سے اس سوچ کو تقویت حاصل ہوتی ہے کہ اگرکچھ کرنے کا جذبہ موجود ہو تو مقصدکے حصول میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہو سکتی، لہذا اس مرحلے پر ذہانت اور حکمت کا تقاضہ ہے کہ ملکی سلامتی محفوظ رکھتے ہوئے عالمی سطح پر قومی یکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے تاکہ کم ازکم کشمیری عوام کی اخلاقی حمایت جاری رکھی جا سکے ورنہ اگر ہم ملک کے اندر اس طرح کے اختلافات میں الجھے رہے تو نہ کراچی کا کچرا اٹھ سکے گا، نہ وفاق کو کراچی کا کنٹرول مل سکے گا اور نہ ہی ہم مظلوم کشمیری عوام کی متحد ہوکر حمایت جاری رکھ سکیں گے ۔