زلزلہ اعمال کا بدلہ

بلوچستان شدید زلزلے سے لرز اٹھا ،خوفناک زلزلے نے ہولناک تباہی مچادی، متعدد افراد جاں بحق اور...


[email protected]

بلوچستان شدید زلزلے سے لرز اٹھا ،خوفناک زلزلے نے ہولناک تباہی مچادی، متعدد افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئے، زلزلے کی شدت 7.8 ریکارڈ کی گئی اس کا مرکز بلوچستان کا ضلع آواران تھا لہٰذا ضلع آواران، بہت زیادہ متاثر ہوا اور ہزاروں مکانات منہدم ہوگئے نیز مواصلاتی نظام بھی درہم برہم ہوگیا۔ منگل کی سہ پہر 4 بج کر29 منٹ پر آنے والے اس زلزلے کے جھٹکے کراچی، حیدرآباد، سکھر، نواب شاہ سمیت سندھ کے کئی علاقوں نیز بھارت، ایران، افغانستان اور امارات میں بھی محسوس کیے گئے، اس زلزلے کی گہرائی 10 کلومیٹر زمین کے اندر تھی جس کے بعد گوادر کے قریب سمندر میں پہاڑ نما جزیرہ نمودار ہوگیا جس کی اونچائی سطح سمندر سے 35 سے 40 فٹ بلند بتائی گئی ہے۔

قرآن حکیم فرقان حمید، احادیث اور تاریخی حقائق سے یہ امر روز روشن کی طرح بالکل عیاں اور واضح ہوجاتا ہے کہ سنت اللہ کے مطابق جب کسی بھی سرزمین یا قوم پر کوئی بھی آسمانی یا زمینی قدرتی آفت نازل ہوتی ہے تو وہ یا تو اللہ عزوجل کی جانب سے آزمائش کی گھڑی ہوتی ہے یا پھر عذاب الٰہی و قہر خداوندی کا نقارہ! اگر قوم نیک و پارسا اور پابند شریعت ہے اور اللہ عزوجل کو اس کا امتحان مقصود ہے تو یقینا کوئی بھی آفت محض آزمائش الٰہی ہوتی ہے ۔

قرآن حکیم کے مطالعے سے طوفان نوحؑ کا پتہ چلتا ہے جو حضرت نوحؑ کی قوم پر بطور عذاب نازل ہوا تھا جس نے پوری قوم کو ڈبو دیا تھا سوائے چند نیک بندوں کے جو حضرت نوحؑ پر ایمان لائے تھے، اس کا مفصل تذکرہ سورۃ ہود میں ہے۔ قوم صالحؑ کے بارے میں ہے (سورۃ اعتراف۔78) یعنی ظالموں وجابروں کو آ پکڑا زلزلے نے پھر صبح کو رہ گئے اپنے گھر میں اوندھے پڑے، سورہ ہود آیت نمبر67 میں ''الرجفہ'' کی جگہ ''الصبحۃ'' ہے ممکن ہے کہ بیک وقت دونوں اقسام کا عذاب آیا ہو، نیچے سے زلزلہ اور اوپر سے خوفناک آواز، ویسے بھی عموماً زلزلے سے قبل آواز سنائی دیتی ہے۔

اسی طرح سے احادیث مبارکہ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ''قیامت سے قبل کثرت سے زلزلہ اور چیخ و پکار کا عذاب آئے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو آگاہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ قیامت سے پہلے کے سال زلزلوں کے سال ہوں گے یعنی کثرت سے زلزلے آئیں گے ۔ (بخاری شریف)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب مال غنیمت کو میراث کا مال سمجھ کر ہضم کرلیا جائے'' امانت کے مال کو مال غنیمت تصور کرکے کھا لیا جائے، زکوٰۃ کی ادائیگی بطور جرمانہ ٹیکس کے ہو، ناکہ رضائے الٰہی کے پیش نظر، علم دین کا حصول مال اور مرتبہ کے واسطے ہو، مرد بیوی کی اطاعت اور ماں کی نافرمانی کرے، انسان اپنے دوست سے قربت اور ماں باپ سے دوری اختیار کرے، مسجدوں میں آوازیں اونچی ہونے لگیں، قبیلہ کی قیادت فاسق و فاجر کے ہاتھ میں ہو، قوم کا سردار ذلیل ترین آدمی ہو، لوگوں کی عزت ان کے شر اور برائی سے بچنے کے لیے کی جائے، گانے والی عورتوں کی کثرت ہو، لہوولعب کے آلات زیادہ ہوں، شراب پینے کا رواج عام ہو اور امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آخری لوگ اگلے لوگوں کو طعن تشنیع کا نشانہ بنائیں، تو درج ذیل امور کا انتظار کرو، سخت ترین سرخ ہوا، خطرناک زلزلہ، تباہ کن خسف کا عذاب، پتھروں کی بارش اور مسخ وغیرہ۔ مذکورہ عذاب اب تسلسل کے ساتھ آتا رہے گا۔ (ترمذی شریف)

تاریخ کے مطالعے سے علم ہوتا ہے کہ جب اقوام کی سرکشی اور بے راہ روی حد سے بڑھ گئی اور ان کی بستیاں جرائم کی آماجگاہ بن گئیں ان میں حق تلفی، قتل و غارت گری، ظلم وستم، چوری، ڈکیتی، لوٹ مار، غیبت، فراڈ، دھوکہ دہی، شراب نوشی، زنا و بدکاری، ناپ تول میں کمی، جوا اور دیگر بڑے گناہ عام ہوگئے اور زندگی کے ہر رخ، ہر پہلو، ہر شعبے میں حدود شریعت و سنت کی انفرادی و اجتماعی سطح پر خلاف ورزی کی گئی، حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دیا گیا، عریانی و فحاشی عام ہوگئی، قوم آخرت کو فراموش کرکے دنیاوی زندگی میں مشغول ہوگئی، قوم آخرت پر دنیا کو ترجیح دینے لگی تب ان پر خدائے واحد بزرگ و برتر کا عتاب نازل ہوا اور زلزلہ، پتھر کی بارش، چنگھاڑ کا عذاب، طوفان، زمین میں دھنسنا وغیرہ، اللہ قہار و جبار کی طرف سے بطور عذاب ظالموں، سرکشوں اور نافرمانوں پر نازل کیا گیا تاکہ شیطانیت کا شکار انسانوں سے زمین پاک ہوجائے اور باقی ماندہ کو عبرت حاصل ہو اور وہ توبہ کرکے اپنی دائمی اصلاح کا سامان کرلے۔

حضرت عمر فاروقؓ کے عہد خلافت میں ایک مرتبہ زلزلہ آیا (یہ واقعہ 30 جمادی الثانی 13 ھ اگست 634ء تا 27 ذوالحجہ 23ھ 3 نومبر 644ء کے درمیان کا ہے) تو آپؓ نے کوڑا مار کر فرمایا کہ ''اے زمین ہلتی کیوں ہے؟ کیا عمرؓ نے تجھ پر انصاف قائم نہیں کیا؟ اسی طرح پانچویں خلیفہ راشد حضرت عمرؓ بن عبدالعزیز کے عہد خلافت (99ھ /717 تا 101ھ /719ء) میں ایک مرتبہ زلزلہ آیا تو آپؓ نے جابجا شہروں میں حکم نامے بھیجے کہ ''زمین کا زلزلہ عتاب الٰہی ہے''۔

سورہ انبیاء آیت 09 تا 12 میں انتہائی قابل غور فرمان الٰہی ملاحظہ فرمایے ''پھر ہم نے ان کے بارے میں اپنا وعدہ سچا کردیا تو ان کو اور جس کو چاہا نجات دی اور حد سے نکل جانے والوں کو ہلاک کردیا، ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے کیا تم نہیں سمجھتے؟ اور ہم نے بہت سی بستیوں کو جو ستم گار تھیں ہلاک کر مارا اور ان کے بعد اور لوگ پیدا کردیے، جب انھوں نے ہمارے (مقدمہ) عذاب دیکھا تو لگے اس سے بھاگنے''۔

مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں ہم اپنے اعمال کی کسوٹی پر کسی بھی قدرتی آفت کو خود ہی پرکھ سکتے ہیں کہ آیا وہ عذاب الٰہی ہے یا آزمائش الٰہی؟ بہرحال دونوں صورتوں میں انسان پر نظری وعملی ہر اعتبار سے زندگی کے ہر رخ، ہر پہلو، ہر شعبے میں، قومی اور بین الاقوامی ہر سطح پر صبر، شکر، اپنے اعمال کا محاسبہ نیز سچی و پکی توبہ فرض ہے۔

قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ''(اے پیغمبرؐ) آپؐ کہہ دیجیے کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ عزوجل کی رحمت سے ناامید نہ ہونا، اللہ عزوجل تو تمام گناہ بخش دیتا ہے (اور) وہ تو بخشنے والا مہربان ہے''۔ (سورۃ الزمر۔ آیت 53) اسی طرح سے سورۃ الحجر آیت 56 میں فرمایا گیا کہ ''اللہ عزوجل کی رحمت سے صرف گمراہ ہی مایوس ہوسکتے ہیں ''۔ پس یہی قدرتی فطرت کی وہ چیخ و پکار اور دھاڑ ہے جس کے ادراک و فہم، شعور و آگہی اور معرفت کی حضرت انسان کو ماضی کی نسبت آج کہیں زیادہ ضرورت ہے تاہم آج ہم ان بصیرت افروز حقائق سے اتنے ہی نابلد ولاپروا، ہلاکت کا شکار و خسارے میں گرفتار ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔