قانون کی زیردستی
دو لڑکے ایک سائیکل پر سفر کر رہے تھے۔ سورج غروب ہوچکا تھا اور رات کی تاریکی نے...
دو لڑکے ایک سائیکل پر سفر کر رہے تھے۔ سورج غروب ہوچکا تھا اور رات کی تاریکی نے اپنے پر پھیلانا شروع کردیے تھے۔ اچانک دکان کی اوٹ سے ایک پولیس کانسٹیبل نمودار ہوا، اس نے سائیکل پر ڈبل سواری دیکھ کر زوردار سیٹی بجائی۔ سائیکل رک گئی۔ پولیس والا نزدیک آیا اور سائیکل سوار سے ڈپٹ کر بولا ''ایک تو تمہاری سائیکل میں لائٹ نہیں ہے، اوپر سے ڈبل سواری بٹھا رکھی ہے، تمہیں شرم نہیں آتی؟'' سپاہی کو دیکھ کر سائیکل کے ڈنڈے پر بیٹھا ہوا آدمی شرمندہ ہو کر اتر آیا اور ایک طرف کھڑا ہوگیا۔ سائیکل سوار بھی اپنے جرم پر پشیماں نظر آتا تھا۔ سپاہی کے پاس کوئی اسلحہ موجود نہیں تھا، اس کی بیلٹ کے ساتھ ایک ہک میں اسلحے کے نام پر سیاہ رنگ کا ایک ڈنڈا ضرور لٹکا ہوا تھا جس کی لمبائی بمشکل دو فٹ ہوگی، ڈنڈے کے ایک سرے پر چمڑے کی ایک دہری پٹی لگی ہوئی تھی۔
سپاہی نے اس ڈنڈے کو اپنی کمر سے اتارنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی تھی۔ صاف نظر آتا تھا کہ سائیکل سوار اپنے جرم پر شرمندہ بھی ہے اور قانون کی گرفت میں آنے پر خوفزدہ بھی ہے۔ وہ قانون سے خوفزدہ تھا، لیکن سپاہی سے خوفزدہ نظر نہیں آتا تھا۔ یہ الگ بات کہ اس وقت ملک کا قانون اس سپاہی کی شکل میں اس کے سامنے موجود تھا۔ سپاہی نے موقع پر ہی فرد جرم سناتے ہوئے کہا ''ایک تو تم نے بغیر بتی کے سائیکل چلانے کا جرم کیا اور دوسرا قانون یہ توڑا کہ سائیکل پر ڈبل سواری بٹھائی، لہٰذا فوراً اگلے ٹائر کی ہوا نکالو اور ڈبل سواری بٹھانے کی سزا یہ ہے کہ پچھلے ٹائر کی ہوا بھی نکال دو۔'' سائیکل سوار نے خاموشی کے ساتھ سپاہی کے حکم کی تعمیل کی اور دونوں آدمی سائیکل کا ہینڈل پکڑ کر پیدل آگے روانہ ہوگئے۔ انھوں نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا کہ ٹائروں کی ہوا نکالنے پر ہی سزا سے جان چھوٹ گئی اور پولیس اسٹیشن نہیں جانا پڑا۔
یہ 60-50 کی دہائی کے وسط کا واقعہ ہے اور میں نے اپنی آنکھوں سے یہ سارا منظر دیکھا تھا۔ میری عمر اس وقت نو یا دس برس کی ہوگی۔ ایوب خان کا زمانہ تھا اور 62 کا وہ دستور نافذ العمل ہوچکا تھا، جسے بنیادی جمہوریت کے نظام کا نام دیا گیا تھا۔ یہ وہی آئین یا دستور تھا، جس پر حبیب جالب مرحوم نے بڑی معرکۃ الآرا نظم لکھی تھی۔ ''ایسے دستور کو، صبح بے نور کو، میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا'' اور جسے میاں شہباز شریف اپنے جلسوں میں آج بھی لہک لہک کر پڑھتے ہیں ۔ لیکن اس وقت ہمارا زیر بحث موضوع یہ دستور نہیں، بلکہ آئین اور قانون پر عمل درآمد ہے۔ آئین اور قانون میں کسی بھی قسم کی خامیاں ہوں، وہ ایک الگ بات ہے لیکن جس قسم کا بھی قانون ریاست میں نافذ العمل ہو، اچھا یا برا، اہم بات یہ ہے کہ اس پر عمل درآمد ہورہا ہے یا نہیں؟ 60 کی دہائی میں قوانین پر عمل درآمد کی جو صورتحال تھی، وہ میں نے اوپر آپ کے سامنے پیش کی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کی دیگر مہذب ریاستوں کی طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی میں مزید بہتری آنی چاہیے تھی، ہر شخص پر بلا امتیاز ان قوانین کا نفاذ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا ہوا نہیں۔ پھر بھٹو صاحب کا دور آیا۔ اب 73 کا آئین نافذ ہوچکا تھا۔ یہ ہمارے زمانہ طالب علمی کا وہ دور تھا، جب ہم اسکول کی تعلیم مکمل کرکے کالج لائف میں قدم رکھ چکے تھے اور بھٹو صاحب کی حکومت تمام تعلیمی اداروں کو سرکاری ملکیت میں لے چکی تھی۔ اس زمانے میں ایک موٹر سائیکل پر تین افراد کی سواری ممنوع تھی اور آج بھی ہے۔ جس بائیک پر تین افراد سواری کر رہے ہوں، وہ ٹریفک سارجنٹ کی نظروں سے چھپتے پھرتے تھے اور پکڑے جانے کی صورت میں چالان کی پرچی کٹنا لازمی تھا۔
لیکن آج لگتا ہے کہ اب اسے جرم سمجھا ہی نہیں جاتا۔ سائیکل پر ڈبل سواری کی پابندی کا قانون اب بھی نافذ تھا۔ لیکن پولیس کا سپاہی سائیکل سواروں کو اب روکتا نہیں تھا۔ تانگے، وکٹوریہ، اونٹ گاڑی اور گدھا گاڑی کے مالکان نے مٹی کے تیل سے جلنے والی وہ بتیاں اتار کر گھروں میں رکھ دیں تھیں جو چند سال قبل رات کے وقت ان گاڑیوں کی دونوں سائیڈوں پر نصب ہوتی تھیں اور رات کے وقت جھلملایا کرتی تھیں۔ اونٹ گاڑیوں، گدھا گاڑیوں اور گھوڑا گاڑیوںکی میونسپلٹی میں رجسٹریشن غیر ضروری سمجھی جانے لگی تھیں۔ انسداد بے رحمی حیوان کا محکمہ اور عملہ تو موجود تھا، لیکن اس کی کارکردگی صفر ہوچکی تھی۔ ٹریفک کا عملہ بیس روپے کے عوض ٹریفک کی ہر خلاف ورزی پر اپنی آنکھیں بند کرنی سیکھ چکا تھا۔ عوام نے بجائے قانون کے پولیس والے سے ڈرنا شروع کردیا تھا۔ پولیس کو دیکھ کر بے گناہ عوام کو اپنی عافیت خطرے میں نظر آنے لگتی تھی۔
ریاست پاکستان کا سفر اور آگے بڑھا، اب جنرل ضیاء کا دور حکومت تھا۔ عوام کے ہاتھوں میں افغان جنگ کے طفیل آتشیں اسلحہ نظر آنے لگا تھا، سڑکوں پر ہیروئنچی جا بہ جا آڑے سیدھے پڑے ہوئے نظر آنے لگے۔ اب سائیکل تو کیا موٹر سائیکلیں بھی بغیر لائٹ کے سڑکوں پر دندناتی پھرتی تھیں۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی قیمت 20 روپے سے بڑھ کر 30 روپے ہوچکی تھی۔ رشوت نہ دینے کی صورت میں پولیس کا سپاہی کسی بھی شریف آدمی کی جیب سے ہیروئن کی پڑیا برآمد کرنے کے فن میں ماہر ہوچکا تھا۔ پولیس کا سپاہی اب خوف کی علامت بن چکا تھا۔ رمضان المبارک میں پولیس کے سپاہی کو دیکھ کر عوام خالی منہ چلاتے ہوئے بھی ڈرنے لگے تھے۔ منہ چلانے کی قیمت مبلغ 50 روپے ہوچکی تھی۔ عوام قانون کو بھول کر پولیس سے ڈرنے لگے تھے اور قانون کو خریدنے اور اس کا بھاؤ تاؤ کرنے میں ماہر ہوچکے تھے۔ مک مکا کی اصطلاح زبان زد عام ہوچکی تھی۔
ریاست کا سفر اور آگے بڑھا، اب بم دھماکوں کی گونج ہر طرف سنائی دیتی تھی۔ ہر شہری خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگا تھا۔ عوام تو عوام اب خود قانون نافذ کرنے والے ادارے، دہشت گردوں سے خوفزدہ رہنے لگے تھے۔ قانون نہ جانے ریاست کے کس کونے میں جا چھپا تھا۔ حکمران اب عوام کے سامنے کھلی گاڑی میں کھڑے ہو کر ہاتھ ہلانا بھول چکے تھے۔ انھوں نے خود کو بنکروں اور بلٹ پروف گاڑیوں میں محصور کرلیا تھا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بسنے والے مسلمان اپنا اپنا مسلک بندوق کی نوک پر نافذ العمل کروانے پر کمربستہ ہوچکے تھے۔ اس کے لیے اب خودکش دھماکوں کا سہارا لیا جانے لگا تھا۔ پشاور میں گزشتہ دنوں ہونے والے خودکش حملوں کا پس منظر اسی قانون کی ''زیردستی'' میں پوشیدہ ہے۔ جن گرجا گھروں کی حفاظت ہمارا فرض تھا، جس کا حکم ہمارا مذہب، آئین اور قانون دیتا ہے۔ انھی عبادت گاہوں کی تباہی کا یہ مکروہ فعل اسی مقام سے شروع ہوتا ہے، جب ہم نے بغیر لائٹ کی سائیکل چلانے کو جرم سمجھنا چھوڑ دیا تھا اور ملکی قوانین کو نیلام پر چڑھا کر انھیں بکاؤ مال کی طرح فروخت کرنا شروع کردیا تھا۔ قانون کی بالادستی کا یہ عمل بجائے آگے بڑھنے کے، قانون کی ''زیر دستی'' کی شکل میں ڈھل کر تنزل کی طرف مسلسل رواں دواں ہے۔ دیکھتے ہیں یہ کہاں جاکر ٹھہرتا ہے؟