ذکر ان کا جو گزر گئے
پچھلے کالم میں ایک نام غلط چھپ گیا۔ ظفر سپل تھا۔ وہاں چھپ گیا ظفر سہیل۔ خیر یہ تو اخبار ہے...
پچھلے کالم میں ایک نام غلط چھپ گیا۔ ظفر سپل تھا۔ وہاں چھپ گیا ظفر سہیل۔ خیر یہ تو اخبار ہے۔ ہم نے تو سلیقہ سے چھپی ہوئی معیاری کتابوں میں یہ عالم دیکھا ہے کہ تحریر خوب ہے مگر بیچ بیچ میں سہو کاتب یا پروف ریڈر کی لاپروائی کا ذائقہ چکھتے چلے جا رہے ہیں۔ تو ہم تو ایسی غلطیوں کو سہو کاتب کے حساب میں ڈال کر تیزی سے آگے گزر جاتے ہیں۔ مگر یہ نام ایک مصنف کا ہے جس نے مسلمان فلسفیوں کا ایک پورا تذکرہ لکھا ہے۔ ان فلسفیوں کے ساتھ ان کے زمانوں میں جو گزری سو گزری مگر ان کے تذکرہ نویس کے ساتھ تو زیادتی نہیں ہونا چاہیے۔ مگر سچ پوچھیے تو موصوف نے نام ہی ایسا رکھا ہے جس کی تہہ میں غلط لکھے جانے اور غلط پڑھے جانے کی خرابی مضمر ہے۔ اچھا ہوتا کہ ہم مصنف سے پہلے پوچھ لیتے کہ سپل یہ کیا لفظ ہے اور آپ کے نام کا حصہ کسی تقریب سے ہے۔
لیکن ہم کس کس سے پوچھیں۔ ان دنوں تو عالم یہ ہے کہ ہر نامور اپنے نام میں کوئی ایسی گرہ لگا دیتا ہے جیسے یاروں کو چیلنج کر رہا ہو کہ بوجھو تو جانیں۔ اب ہمارے دوست ہیں مستنصر حسین تارڑ، ویسے تو نام اپنی جگہ خوب ہے مگر کتنے دنوں تک ہمارا یہ عالم رہا کہ پہلے ہم مستنصر کے ہجے کرتے تھے پھر تارڑ کو کئی مرتبہ دہراتے تھے۔ جب رواں ہو جاتے تھے تب ان کا نام لیتے تھے۔ مگر ٹریفک پولیس والوں کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا۔ سنا ہے کہ ان کی کار سے کوئی غلطی سرزد ہو گئی۔ ڈیوٹی پر کھڑے ٹریفک سپاہی نے انھیں روک لیا۔ نام پوچھا، انھوں نے کہا مستنصر حسین تارڑ وہ یہ نام سن کر شش و پنج میں پڑ گیا۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا تو پھر سوال دہرایا۔ انھوں نے پھر وہی جواب دیا۔ مستنصر حسین تارڑ۔ اس نے اپنے طور پر نام کی الجھی ڈور کو سلجھانے کی بہت کوشش کی۔ جب الجھن دور نہ ہوئی تو زچ ہو کر اس نے چالان سے ہاتھ روکا۔ اتنے مشکل نام والے کا چالان اسے اور بھی مشکل نظر آیا۔ ''اچھا جائیے'' کہہ کر جلدی چھٹکارا حاصل کر لیا۔
ایک اور دوست کے نام کا احوال سنیے۔ اچھا بھلا نام تھا امجد اسلام۔ مگر اس نام میں جانے کس طرح انھیں کچھ کسر نظر آئی۔ تھوڑا سوچ کو امجد کو دو سے ضرب دیا اور امجد کو دہرا کر نام رکھا امجد اسلام امجد۔ اب دو گو نہ عذاب مجنوں والا مضمون ہے۔ ارے ہم پر تو ایک ہی امجد بھاری پڑ رہا تھا۔ اب دو دو امجد ہو گئے۔ یعنی یک نہ شد دو شد۔ کیا خوب لکھتے ہیں کہ ایک رنگ کے مضمون کو دو دو مرتبہ باندھتے ہیں۔ لیکن اس سے مفر بھی نہیں ہے۔ بھاگ کے کہاں جائیں گے۔ مرجائیں گے تو بھی پکڑے جائیں گے۔ جس نے اس کتاب کو نہ دیکھا ہو وہ اب دیکھ لے۔ جو جو شخص اس دنیا سے گزر گیا اسے انھوں نے اس کتاب میں سنگھوا لیا۔
کتاب کا نام ہے 'کوئی دن اور' چھاپا ہے اسے سنگ میل نے۔ اس عنوان سے غالبؔ کی وہ غزل جو اپنی جگہ ایک مرثیہ ہے یاد آ گئی ہو گی؎
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
لیکن ہمیں غالبؔ ہی کا ایک شعر اور یاد آیا؎
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کہاں جائیں گے
مگر امجد اسلام امجد کے ہوتے ہوئے ہم یہ فکر کیوں کریں۔ جانے والے کو وہ جلد ہی اپنے تعزیتی مجموعے میں سنگھوا لیتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ مرنے والے کا ان سے قریب و دور کا کوئی واسطہ ہو۔ انھوں نے اپنے دیباچہ میں بتایا ہے کہ ''میں نے اپنی طرف سے ان چھبیس برسوں میں ہر اس جانے والے کو یاد رکھنے کی کوشش کی ہے جس کا مجھ سے کسی نہ کسی حوالے سے کوئی نہ کوئی تعلق رہا ہے۔''
امجد اسلام نے چھبیس برس کی قید لگا کر ان کتنے مرحومین کا دل توڑ دیا جو چھبیس برس پہلے گزر گئے۔ مگر اس میں خود مرحومین کا بھی تھوڑا قصور ہے۔ آخر انھوں نے مرنے میں اتنی عجلت کیوں کی۔ ارے اس دنیائے فانی میں تھوڑے دن اور گزار لیتے؎
تم کون سے تھے ایسے کھرے داد و ستد کے
کرتا ملک الموت تقاضا کوئی دن اور
اچھے رہے وہ مرحومین جنہوں نے ملک الموت کو تھوڑا اور انتظار کرایا۔ اتنا کہ چھبیس برس کی میعاد کی حدود میں آ کر موت کو لبیک کہا اور اس اطمینان کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے کہ خالی آسودۂ خاک نہیں ہوں گے۔ بلکہ اس سے بڑھ کر امجد اسلام کے بسائے ہوئے شہر خموشاں میں آسودہ ہوں گے۔
بہرحال اچھا خاصا ضخیم مجموعہ ہے۔ 416 صفحوں پر مشتمل ہے۔ اتنی ضخامت کے باوجود یہاں جگہ کی تنگی کا مسئلہ درپیش ہے۔ اسے امجد نے اس طرح حل کیا ہے کہ اگر ایک دن میں دو عزیزوں نے انتقال کیا ہے تو دونوں کو ایک ہی تعزیتی کالم میں سنگھوا لیا۔ ایک قبر میں دو مردے تو دفن نہیں کیے جا سکتے۔ مگر ایک تعزیتی کالم میں دو مرحومین کو سنگھوایا جا سکتا ہے۔ اب یہ مرنے والے کی قسمت ہے کہ اسے کس کی ہم نشینی میسر آئی ہے۔ اب مثلاً ہمارے انجم رومانی اور شکور رانا ایک ہی کالم میں سنگھوائے گئے ہیں۔ انجم صاحب اپنی طرز کے شاعر اور آدمی اکل کھرے۔ ادھر شکور رانا دنیائے کرکٹ کی مخلوق۔ مگر کیا ہو سکتا تھا۔ دونوں ایک ہی دن اللہ کو پیارے ہوئے۔ اب انھیں ایک ہی کالم میں ایک دوسرے کے ساتھ گزارہ کرنا ہے۔ خیر یہاں تو صرف دو ہیں۔ یہ صورت بھی ہوئی کہ ایک ایک کالم میں تین تین اور چار چار مرحومین سنگھوائے گئے ہیں اور اس طرح کہ میاں طفیل محمد اور مائیکل جیکسن ایک ہی کالم میں نظر آ رہے ہیں۔ بہرحال دونوں کے بیچ میں عدنان سمیع حائل ہیں۔ اور ایک ایسا کالم بھی ہے جہاں جائے تنگ است و مردماں بسیار کا مضمون ہے۔ دو نہیں تین نہیں پورے چار مرحومین۔ جیلانی کامران، ایلس فیض، افتخار جالب، شاہدہ پروین۔
مگر امجد اسلام داد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ہر مرحوم کو اس کے شایان شان خراج تحسین پیش کیا ہے اور ان کی ذاتی خوبیوں کو اور ان کے کارناموں کو بطریق احسن اجاگر کیا ہے۔