شہر ممنوع کا دروازہ
میں عموماًNGO's کے سیمینارز وغیرہ میں جانے سے احتراز کرتا ہوں کہ بالعموم ان پروگراموں کی تشکیل اور غرض...
لاہور:
میں عموماًNGO's کے سیمینارز وغیرہ میں جانے سے احتراز کرتا ہوں کہ بالعموم ان پروگراموں کی تشکیل اور غرض و غایت میں منصور کے پردے میں کئی خدا بیک وقت بول رہے ہوتے ہیں لیکن چند دن قبل اسلام آباد میں ہونے والے ایک مجوّزہ سیمینار کے بارے میں ایک ایسے صحافی دوست کا فون آیا جس کی میں دل سے اِس لیے عزّت کرتا ہوں کہ اُس کے قلم، زبان اور سوچ تینوں میں سے کسی پر بھی ''برائے فروخت''' کی وہ تختی نظر نہیں آتی جو اُس کے اکثر ہم پیشہ افراد کا امتیازی نشان بن چکی ہے۔ موضوع کی بات چھڑی تو میں نے اُسے اپنے سابقہ تجربات اور تحفّظات سے آگا ہ کیا کہ شاید اُن کی موجودگی میں میری شمولیت اُلٹا منتظمین کے لیے پریشانی کا باعث نہ بن جائے مگر جب اُس نے میرے تحفّظات سے اتفاق کرتے ہوئے اُن پر کھل کر بات کرنے کو کہا تو میرے پاس فرار اور انکار کی گنجائش نہ رہی ویسے اگر ہوتی بھی تو میرے لیے اُس فرمائش کو ٹالنا ممکن نہیں تھا کہ دوستوں کے دلوں کی طرح ہنرمند اور ایک نمبر کے لوگوں کی توقعّات کے آئینے بھی بہت احتیاط اور دیکھ بھال کے متقاضی ہوتے ہیں۔
تقریب کے میزبان ''حیات، لائف لائن کمپیئن'' کے احباب تھے جو ایک ایسی NGO ہے جو بنیادی طور پر خواتین کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہے جب کہ اس سیمینار کا موضوع اور مقصد تعلیمی نصابوں میں اُن مسائل کے بارے میں معلومات فراہم کرنا تھا جن سے ہر انسان (مرد اور عورت) عمر کے ایک خاص حصے میں مختلف النوع جسمانی تبدیلیوں کے حوالے سے گزرتا ہے لیکن اُن کے بارے میں باقاعدہ، صحیح اور مستند معلومات نہ ہونے یا سنی سنائی اور گمراہ کن باتوں کی وجہ سے طرح طر ح کے نفسیاتی، سماجی، جنسی، ازدواجی اور غیر فطری مسائل، عادات اور اُلجھنوں کا شکار ہو جاتاہے جو آگے چل کر فرد اور معاشرے دونوں کے لیے فساد اور انتشار کا باعث بنتے ہیں۔ ایجنڈا بنانے والوں نے جنس یعنی Sex کے عوامی اور مروّجہ معانی اور متعلقہ تصورّات کے فوری ردِّعمل سے گھبرا کر اسے بہت سے الفاظ اور تراکیب کی بھیڑ میں چھپانے کی کوشش کی تھی اور یہ کوئی اتنی غلط بھی نہیں تھی کہ اگرچہ یہ مسئلہ پورے معاشرے کا ہے لیکن اس کا براہ راست سامنا کرنے سے بیشتر لوگ بوجوہ گھبراتے یا شرماتے ہیں۔
جب کہ بہت زیادہ پرانے خیالات کے لوگ اِس پر بات کرنے کو ہی تیار نہیں ہوتے اور اُن کی واحد دلیل یہی ہوتی ہے کہ یہ مسائل انسانی معاشروں کی تشکیل کے ساتھ ہی پیدا ہو گئے تھے اور اب تک نسل در نسل لوگ اپنے اپنے وضع کردہ مقامی، محدود اور مخصوص حوالوں سے ان کا حل نکالتے چلے آ رہے ہیں اور جس طرح مچھلی کے بچے کو تیرنا کوئی نہیں سکھاتا اسی طرح انسان کے بچے بھی کسی نہ کسی طرح اپنے ماحول سے متعلقہ معلومات حاصل کر لیتے ہیں اور یوں یہ گاڑی اگر صدیوں سے بغیر رُکے چلتی چلی جا رہی ہے تو آئندہ بھی اسی طرح چلتی رہے گی جب کہ ایک دوسرا گروہ جو مغرب کی ''اندھی'' تقلید کا قائل اور اُس کی ظاہری ترقی سے غیر ضروری طور پر متاثر اور مغلوب ہے اُس کے خیال میں ہر بات کو ہر طرح کے تحفظات سے بالاتر ہو کر دیکھنا اور دکھانا ہی ترقی کی اصل نشانی ہے پرانے وقتوں میں شاید اِسی تضاد کو مسٹر اور مُلا کی سوچ کا نام دیا جاتا تھا۔
''حیات'' والوں نے سب سے اچھا کام یہ کیا کہ دونوں طرف کے انتہا پسندوں کو دریا کے دو متوازی کناروں کو چُھونے والے پانی کے بجائے اسے ایک وسیع تر سمندر میں لے آئے اور ہر مکتبہ فکر کے نمائندوں کے ساتھ مل بیٹھ کر اور اُن کی آراء اور مشوروں کے مطابق ایک ایسا ڈاکیومنٹ تیار کیا جس کا ورکنگ ٹائٹل ''زندگی گزارنے کی مہارتوں پر مبنی حقوق سے آگاہی، صنفی برابری اور خوشگوار تعلقات کی تشکیل'' رکھا گیا ہے اس مجوزّہ نصاب اور Textual Material میں اگرچہ بہت سی باتوں کو شامل کیا گیا ہے لیکن اصل بات گھوم پھر کر وہیں رہتی ہے کہ پاکستانی معاشرے کے مخصوص تہذیبی، تاریخی، مذہبی اور سماجی پسِ منظر میں، جہاں جنسی اعضاء کا ذکر تک یا تو ممنوع ہے یا انھیں صرف گالیوں میں استعما ل کیا جاتا ہے کس طرح سے جو ان ہوتے ہوئے بچوں اور بچیوں کو یہ بتایا جائے کہ خالقِ کائنات نے اُن کے جسموں کو کیوں اور کیسے بنایا اور یہ کہ حیا، شرم اور جھجک کے فطری مسائل کے باوجود ان کے بارے میں مثبت اور واضح معلومات کا ہونا کس قدر ضروری ہے۔ تسلیم کہ بوجوہ ہمارے یہاں باپ بیٹا اور ماں بیٹی ان مسائل پر کُھل کر گفتگو نہیں کر سکتے لیکن یہ بھی اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ وقت پر ان مسائل کی تفہیم نہ ہونے سے بہت سی انسانی زندگیاں نہ صرف متأثر اور ضایع ہو جاتی ہیں بلکہ بے شمار نوجوان بچے اور بچیاں غلط اور گمراہ کن معلومات کے باعث گوناگوں جسمانی، ذہنی، نفسیاتی اور معاشرتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جن میں سے ایک کم سِن بچوں اور بچیوں سے جنسی زیادتی کے وہ واقعات بھی ہیں جن کی تعداد میں مسلسل اور خوفناک اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے ۔
اس محفل میں مختلف مکاتبِ فکر کے علماء کرام کے ساتھ ساتھ ماہرین، اساتذہ، دانشور، سرکار اور میڈیا سے متعلق بہت سے خواتین و حضرات نے اپنے اپنے خیالات اور تحفظات کا اظہار کیا جس میں ان معلومات کو نصابِ تعلیم کا حصہ بنانے کے موضوع پر سب سے زیادہ بات ہوئی کہ انھیں کب کب، کیسے، کیوں اور کن لفظوں میں ترتیب دیا جائے کہ یہ ہمارے مذہبی اور معاشرتی روّیوں سے ٹکرانے کے بجائے اُن کے ساتھ ہم آمیز ہو جائیں۔ یہ احتیاط اس لیے اور بھی زیادہ ضروری تھی کہ چند برس قبل اسی نوع کی ایک کوشش بہت بھونڈے، غیر محتاط اور زمینی حقائق کو سمجھے بغیر کی گئی تھی جس کا بہت شدید ردّعمل ہوا تھا جو بہت حد تک جائز تھا کہ ہمیں ترقی یافتہ دنیا کے کامیاب تجربات سے استفادہ ضرور کرنا چاہیے لیکن جب تک ان کی عملی شکل ہمارے معاشرے کی ضروریات اور تحفظات کے مطابق نہیں ہو گی یہ نہ تو ہمارے کسی کام آ سکے گی اور نہ ہی ہمارا معاشرہ اسے قبول کرے گا ۔
کسی غیر ملکی سسٹم کی بِلا سوچے سمجھے نقل کرنے والے اکثر یہ بات بُھول جاتے ہیں کہ اگر مرض کی دوا مریض کی حالت اور مرض کی مخصوص نوعیت کو دیکھے بغیر تجویز کر دی جائے تو بعض اوقات وہ معاملے کو سلجھانے کے بجائے مزید بگاڑ دیتی ہے۔ مثال کے طور پر اس سوالنامے میں اس طرح کے بہت سے سوالات تھے جو دس سے بارہ سال کے بچوں اور بچیوں سے پوچھے گئے تھے کہ آپ کو پہلا جنسی تجربہ کب اور کیسے ہوا؟ اب تک آپ کتنی بار اس سے گزر چکے ہیں اور یہ کہ آپ کو کبھی اس سے احساسِ جُرم تو نہیں ہوا؟
مغرب کے تعلیمی اور تہذیبی نظام اور فرد کی تربیت کے مخصوص تصورّات کے حوالے سے ممکن ہے یہ اور اس قسم کے دوسرے سوالات ، بے موقع، Awkward یا غیر محتاط نہ ہوں لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کیا اس طرح کے سوال ہمارے معاشرے میں کسی بھی عمر کی غیر شادی شدہ لڑکی سے اس میشنی انداز میں پوچھے سکتے ہیں؟ اور اگر نہیں تو سب سے پہلے دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کون سی چیز عملی طور پر ہمارے مقصد سے متعلق ہے اور کون سی نہیں اور پھر یہ کہ جو کچھ بتانا ہے وہ کس عمر میں، کس طریقے سے اور کن لفظوں میں بتایا جائے کیونکہ خلافِ واقعہ مثالوں سے آپ کی معلومات میں تو اضافہ ہو سکتا ہے لیکن عِلم یعنی Knowledge میں نہیں۔ ''معلومات اور عِلم'' کی اس بحث کو کسی اور وقت پر ڈالتے ہوئے میں واپس اس سیمینار کی طرف آتا ہوں جس کا بنیادی مقصد اس موضوع سے متعلق دو مختلف معاشرتی دھاروں اور کناروں کے درمیان ایک پُل تعمیر کرنا تھا۔
پروگرام کے کمپیئر طلعت حسین تھے جو کسی تعارف کے محتاج نہیں اور انھوں نے جس خوبصورتی اور مہارت سے اس بہت مشکل اور نازک موضوع کو صبح دس بجے سے شام پانچ بجے تک بغیر کسی لڑائی جھگڑے کے آگے بڑھایا اُس کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی ۔ آخر میں ایک بات جو میں نے اپنی گفتگو کے درران بھی کہی تھی کو دہراتے ہوئے میں اس ذکر کو فی الوقت ختم کرتا ہوں کہ ''حیات'' والوں کا سارا فوکس دس سے سولہ برس کی عمر کے لڑکوں اور لڑکیوں تک زندگی کے اس بہت اہم حصے سے متعلق صحیح، مستند اور کار آمد معلومات پہنچانا ہے لیکن ان 70% نوجوان پاکستانی شہریوں کا کیا بنے گا جو اس عمر تک تعلیمی نظام کا حصہ ہی نہیں ہوتے؟