طلاق ایسے بھی دی جاسکتی ہے

شرعی لحاظ سے ہماری بیوی کے ذمے نہیں ہے کہ وہ ہمارے والدین کی خدمت کرے بلکہ ہمارے ذمے ہے کہ ہم اپنے والدین کی خدمت کریں


اگر ہم چند باتیں ذہن میں رکھ لیں تو ہماری ازدواجی زندگی شاندار بن سکتی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

میں روزانہ کے دفتری امور نمٹانے میں مصروف تھا کہ قاسم اچانک کمرے میں داخل ہوا۔ ''عمران بھائی یہ گھروں میں لڑائیاں آخر کس طرح ختم ہوں گی؟'' اس نے میری مصروفیت کی پرواہ کیے بغیر سرگوشی کے انداز میں سوال داغا۔ ''کچھ وقت کے بعد بتاسکتا ہوں''۔ میں نے سر اٹھائےبغیر جواب دیا۔ ''نہیں مجھے ابھی جواب چاہیے''۔ اس نے اصرار کیا۔

''اگر ہم چند باتیں ذہن میں رکھ لیں تو ہماری ازدواجی زندگی شاندار بن سکتی ہے۔ شرعی لحاظ سے ہماری بیوی کے ذمے نہیں ہے کہ وہ ہمارے والدین کی خدمت کرے بلکہ ہمارے ذمے ہے کہ ہم اپنے والدین کی خدمت کریں۔ 2۔ ہماری بیوی کے ذمے نہیں ہے کہ وہ بچے کو دودھ پلائے۔ اگر وہ کہے کہ اس سلسلے میں کسی عورت کا بندوبست کیا جائے، تو میاں کو ایسا کرنا چاہیے۔

ایک معروف عالم دین متوقع دلہوں، یعنی مدرسے کے طالب علموں سے خطاب کرتے ہوئے کچھ یوں گویا ہوئے: 'میاں کے ذمے ہے کہ وہ بیوی کےلیے الگ گھر کا بندوبست کرے، اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر گھر کے اندر ایک الگ حصہ بیوی کے لیے مختص ہو، اگر ایسا ممکن نہ ہو تو ایک کمرہ اور ایک باتھ روم بیوی کےلیے الگ مختص ہو اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو بھائی پھر ایک تسبیح لے کر رب کو یاد کرو، کسی کی بہن، بیٹی کو برباد نہ کرو''۔

''لیکن ہمارا دین یہ بھی تو کہتا ہے کہ اگر والدین کہیں کہ بیوی کو طلاق دو، تو طلاق دے دینی چاہیے''۔ میں جیسے ہی رکا قاسم نے سوال کیا۔

''بالکل ایسا ہی ہے، میں نے بھی کتب حدیث میں یہ ہی پڑھا ہے، لیکن اس کی تفصیل مفتی صاحب سے معلوم کرنی ضروری ہے۔ اور پھر ہم نے جب متحدہ عرب امارات کے سرکاری مفتی سے رابطہ کیا تو مفتی صاحب نے جواب دیا کہ والدین اگر بیوی کے خدمت نہ کرنے پر حکم دیں کہ طلاق دو، تو طلاق نہیں دی جاسکتی۔ کیونکہ بیوی کے ذمے تو آپ کے والدین کی خدمت نہیں ہے، یہ تو آپ کے ذمے ہے کہ آپ خدمت کریں۔

''اگر بیوی بدتمیزی کرے تو پھر؟'' قاسم نے پھر سوال کیا۔ ''اس صورت میں اسے پہلے پیار سے سمجھاؤ، پھر بھی حالات ٹھیک نہ ہوں تو، بستر الگ کرو، اگر حالات جوں کے توں رہیں تو رشتے داروں کی مدد لی جائے۔ اگر وہ لوگ بھی ناکام ہوجائیں تو پھر تین طلاق کے بجائے ایک طلاق دی جائے اور علیحدگی اختیار کرلی جائے۔ اگر فراق کے دوران دونوں فریق اپنی غلطی کا احساس کرلیں تو بغیر حلالہ کے ایک ہوسکتے ہیں۔ لیکن اگر محسوس ہو کہ یہ فیصلہ درست ہے تو دوسری طلاق دے دینی چاہیے اور اپنی اپنی زندگی گزارنا شروع کردیں۔ ایک مخصوص وقت کے اندر ابھی بھی واپسی ہوسکتی ہے۔ وقت مقررہ کے اندر اگر دونوں فریق واپسی پر رضامند نہ ہوں تو تیسری طلاق دے کر ہمیشہ کےلیے راہیں جدا کرلیں۔

اگر ہم مندرجہ بالا طریقے پر عمل کریں تو نہ صرف ہمارا ٹوٹتا بکھرتا خاندانی نظام مزید شکشت و ریخت سے بچ سکتا ہے، بلکہ وطن عزیز میں طلاق کی شرح میں بھی کمی آسکتی ہے۔ اور آخری بات اگر ہم حضرت محمدؐ کا مندرجہ ذیل فرمان عالیشان
''تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی سے اچھا سلوک کرے اور میں تم سب میں اپنی بیوی بچوں سے اچھا سلوک کرتا ہوں''
ذہن میں رکھ کر زندگی گزاریں تو ہمارے گھروں میں لڑائیاں مکمل طور پر ختم ہوسکتی ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں