کس کس کی مُہر ہے سرِ محضر لگی ہوئی
اے خدا اِن راہ سے بھٹکے ہوئے لوگوں کو معاف کردے ۔ اس لیے کہ انھیں صحیح راستے کا علم نہیں ہے۔
پرسوں رات تقریباً تمام ٹی وی چینلز پر پشاور میں گرجا گھر پر کیے جانے والے خود کش حملے کے بارے میں خصوصی پروگرام نیوز رپورٹس اور ٹاک شوز پیش کیے گئے جن کا مجموعی تاثر ایک ہی تھا اور وہ یہ کہ یہ حملہ صرف ہمارے مسیحی بھائیوں یا ایک مذہبی اقلیت پر نہیں کیا گیا بلکہ اس کا ہدف پاکستان کے تمام عوام تھے اور یوں یہ دکھ بھی صرف ایک برادری کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کا اجتماعی دُکھ ہے۔ ایک پروگرام میں پشاور کے بشپ اور ایک میں لاہور کے پادری شاہد معراج کے خیالات کو بھی سننے کا موقع ملا۔ پادری شاہد معراج سے میری پہلی ملاقات کوئی بیس برس قبل اُس وقت ہوئی تھی جب میں کرسمس کے لیے ایک خصوصی کھیل ''پھر یُوں ہوا '' لکھ رہا تھا۔ وہ تب بھی آج ہی کی طرح دھیمے ، محبتی اور معتدل مزاج کے انسان تھے۔ اتفاق سے اس ڈرامے کی کہانی بھی اسی نوع کی ایک تخریبی واردات کے گرد گھومتی تھی جس میں کچھ انتہا پسندوں نے اپنی جہالت ، تعصب اور اسلامی تعلیمات کی روح سے عدم واقفیت کی بناء پر ایک گرجے پر حملہ کرکے اپنے بے قصور مسیحی بھائیوں پر ظلم کا بازار گرم کیا تھا اس حوالے سے اُنہی دنوں میں میں نے جناب عیسیٰ علیہ السلام کی ایک دُعا کا بھی منظوم ترجمہ کیا تھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ
اے خدا اِن راہ سے بھٹکے ہوئے لوگوں کو معاف کردے ۔ اس لیے کہ انھیں صحیح راستے کا علم نہیں ہے۔
O God forgive them for they know not
لیکن یہ شقی القلب لوگ جنہوں نے پشاور کے گرجا گھر میں عبادت کے دوران سو کے قریب لوگوںکو ہلاک اور تقریباً دو سو کو زخمی کیا ہے یہ شاید اس دُعا کے قابل اور حق دار نہیں ہیں کہ یہ نہ جانتے ہیں اور نہ مانتے ہیں۔
تقریباً تمام مذہبی گروہوں کے نمایندے اور علماء کرام نے ان پروگراموں میں واضح طور پر اس بات کا اعلان (قرآن حکیم اور اسلامی تاریخ سے مثالیں دے کر) کیا ہے کہ اسلامی معاشرے یا مسلمان ریاست میں غیر مسلم شہریوں کے جان و مال اور عزت و ناموس کی حفاظت پر بعض صورتوں میں مسلمانوں کے حقوق سے بھی زیادہ زور دیا گیا ہے ، سو صوبائی اور مرکزی دونوں حکومتوں کے ساتھ ساتھ معاشرے کے تمام گروہوں کو یہ ذمے داری نبھانا اوراُٹھانا ہوگی کہ یہ ہمارے رب کریم اور اُس کے نبیؐ پاک کا واضح حکم ہے کوئی مہربانی یا احسان نہیں۔
جہاں تک اس مخصوص واقعے کا تعلق ہے محسوس یوں ہوتا ہے کہ ایک اقلیت کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر دہشت گردوں اور اُن کی پسِ پشت پاکستان کی سلامتی کی دشمن قوتوں نے پاکستانی حکومت ، عوام اور بین الاقوامی برادری کو ایک سوچا سمجھا پیغام دیا ہے اگرچہ اس سے پہلے بھی بعض اقلیتوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ہے لیکن یہ حالیہ حملہ غالباً اس لیے کیا گیا ہے کہ انھی دنوں میں وزیر اعظم پاکستان اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے جانے والے تھے اور اس طرح کا واقعہ عیسائی دنیا کے لیے پاکستان پر مزید سختی کرنے کا ایک مضبوط اور منطقی جواز بن سکتا ہے۔ نائن الیون کے بعد سے'' تہذیبوں کی جنگ ''اور مشرقِ وسطی کی صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان پہلے ہی سے ان کی ہِٹ لِسٹ کے ابتدائی نمبروں میں ہے۔
ٹاک شوز کے اکثر میزبان اور مہمان اس واردات کو اُن ''مذاکرات'' سے ملا کر دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے جن کی نوعیت بھی ابھی تک واضح نہیں ہو پا رہی کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ مذاکرات کی مجوزّہ کامیابی یا ناکامی میں طالبان اور پاکستان سے زیادہ کچھ اور ''مہربان'' برسرِ عمل ہیں جو یہ مَوہُوم Risk لینا ہی نہیں چاہتے کہ دونوں فریق آپس میں کسی بھی سطح پر کوئی مکالمہ کر سکیں اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پاکستان کی حکومت اور آرمی ان دہشت گردوں کے خلاف مکمل بھر پور اور علانیہ ایکشن کرنے پر مجبور ہوجائے۔ یہ لوگ ایسا کیوں چاہتے ہیں یہ ایک بہت مشکل اور پیچیدہ سوال ہے کہ بظاہر ( سوات ایکشن کی طرح ) اس ایکشن کے ایسے مثبت نتائج نکلنے کا چانس زیادہ ہے۔ جن کی وجہ سے شورش پسندوں کے گروپوںکی عسکری اور تخریبی صلاحیت کو ختم کیا جاسکتا ہے بعض ماہرین اس دائو کو ایک بڑی بازی کا ایک حصہ سمجھتے ہیں جس کا آخری مقصد پاکستان کی ایٹمی صلاحیت ، معاشی قوت اور امکانات ، سالمیت اور (خدانخواستہ) وجود کو ہی سرے سے ختم کر دینا ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ آئے دن اُن کے جنگی اور سیاسی ماہرین کی طرف سے اس طرح کے بیانات سامنے آتے رہتے ہیں کہ آیندہ بیس برس میں وہ افغانستان کو تو اپنی جگہ پر برقرار دیکھ رہے ہیں لیکن پاکستان نام کا کوئی ملک انھیں اس خطے میں دکھائی نہیں دے رہا۔
افغان جنگ کے بعد سے اب تک پاکستان کو جس طرح کے مسائل میں اُلجھایا گیا ہے (ظاہر ہے اس کا موقع انھیں ہمارے جرنیلوں اور سیاستدانوں نے ہی فراہم کیا ہے) وہ دن بدن گھمبیر سے گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں قومی مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے کہ پوری قوم اپنے چھوٹے موٹے اور فروعی اختلافات کو ختم کرکے اور یک جان اور یک زبان ہوکراندرونی اور بیرونی خطرات اور سازشوں کا مقابلہ کرے جب کہ ہم لوگ سیاسی ، علاقائی ، لسانی ، مسلکی اور قومیتی جھگڑوں کی دلدل میں مسلسل نیچے ہی نیچے گرتے جارہے ہیں اور اقلیتوں پر یہ حملے ہماری اندرونی وحدت اور بیرونی تشخص دونوں کے لیے زہرِ قاتل کا درجہ رکھتے ہیں اس افسوسناک صورتِ حال سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم ان عوامل پر کنٹرول تو کیا اُن لوگوں کی شناخت کے بارے میں بھی واضح نہیں ہیں جو اس طرح کی کارروائیوں میں ملوّث ہیں مثال کے طور پر آپ اپنے دل اور ارد گرد کے لوگوں سے پوچھ کر دیکھیے کہ
.1یہ پاکستانی طالبان کون ہیں ؟ ان کے مختلف گروہ کیوں، کب اور کیسے بنے ؟.2 وہ مذہبی جماعتیں کون سی ہیں جو انھیں گھروں سے نکال کرخفیہ تربیت اور پناہ گاہوں میں لے جاتی ہیں اور ان کے خاندانوں ، محلے اور شہر والوں تک کو اس عمل کی خبر تک نہیں ہوتی؟ -3قبائلی اور افغان سرحد سے متصل علاقوں میں پوشیدہ ہونے کے باوجود یہ اتنی آسانی سے ملک بھر میں تخریبی کارروائیاں کس طرح سے کر لیتے ہیں؟
سوال تو اور بھی بہت سے ہوسکتے ہیں لیکن فی الوقت میں انھیں پر اکتفا کرتے ہوئے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کا ہر شہری ( مذہب ، رنگ ، نسل ، عقیدے،مسلک اور کسی اقلیتی گروہ کا فرد ہونے کے باوجود) ریاست کی نظر میں ایک جیسے حقوق اور مقام کا مالک ہے اور ہمارے مسیحی بھائیوں کو اس بات کا یقین رکھنا چاہیے (اور وہ رکھتے بھی ہیں) کہ اس ملک کے 99% لوگ اُن کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں اور باقی کے 1% اُن کے ہی نہیں ہم سب کے دشمن ہیں۔