انسانی حقوق کا دائمی منشور

حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات اور خود ان پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے عمل مبارک سے معلوم چلتا ہے ...


[email protected]

حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات اور خود ان پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے عمل مبارک سے معلوم چلتا ہے کہ کوئی فلسفہ یا نظریہ اسی صورت میں مستحکم ہوتا ہے جو اجتماعی اور انفرادی زندگی میں ہر شخص و ادارے کے لیے یکساں طور پر قابل عمل ہو اور صرف نعروں پر مشتمل نہ ہو اور جو منصفانہ طور پر سب پر یکساں لاگو ہو سکے۔ اس طرح موجودہ دور میں انسانی حقوق (Human Rights) کا ساری دنیا میں چرچا عام ہے۔ اس پر مختلف طریقوں سے کام ہو رہا ہے، ادارے قائم ہیں اور ان کا بظاہر مقصد صرف یہ نظر آ رہا ہے کہ انسانی حقوق کا نظریہ ایسے مذہب کا درجہ پا لے کہ جس کے مقابل کوئی مذہب جس میں حالات اور زمانے کی رعایت ہو، نہ آ سکے اور خصوصاً اسلام، اس لیے کہ اس کی تعلیمات ہر طرح اور ہر دور کے لیے مکمل اور قابل عمل ضابطہ حیات اور قابل عمل ہیں، نہ یہ تعلیمات کسی قوم اور زبان بولنے والے اور نہ ہی بلند اور کم تر کو سامنے رکھ کر واضح کی گئی ہیں اس لیے عالم گیر ہیں اور خود حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی ایک عملی مثال ہے۔

انسانی حقوق کا تعین اسلام نے خود کر دیا ہے اور نبی آخر الزماں صلی اﷲ علیہ وسلم نے واضح احکامات اس ضمن میں عطا فرمائے، چونکہ لوگ دینی احکام اور رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے کم واقفیت رکھتے ہیں اس لیے دوسری اقوام سے مرعوب رہتے ہیں اور ان کی ہر در آمد شدہ فکر اور نظریہ ہمیں صحیح بھی لگنے لگتا ہے۔ اب غور فرمائیں کہ اقوام متحدہ نے جو انسانی حقوق کا چارٹر پیش کیا ہے اس کی بیشتر دفعات اور خود (Universal Declaration of Human Rights) ''خطبہ حجۃ الوداع'' کا چربہ ہے، جو ہمیں محسن انسانیت نے چودہ صدی قبل عطا فرما دیا تھا۔

انسانیت کے محسن اعظم حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و سلم کا انسانیت کے نام منشور اعظم ''حجۃ الوداع 632'' جس کے متعلق یہ کہنا بجا ہے کہ یہ انسانی حقوق کا اولین، جامع ترین، مثالی، ہمہ گیر اور دائمی نافذ العمل منشور ہے۔ جو نہ کسی سیاسی مصلحت کی بنیاد تھا اور نہ کسی وقتی جذبے کی پیداوار۔

یہ حقوق انسانی کے اولین علمبردار، انسانیت کے تاجدار، محسن انسانیت صلی اﷲ علیہ وسلم کا بنی نوع انسان کے نام انسانی حقوق و فرائض کا آخری اور دائمی پیغام تھا جسے تاریخ میں انسانی حقوق کے تمام منشوروں اور دستاویزات حقوق پر تاریخی اعتبار سے اولیت کا شرف حاصل ہے اور جو ابدی فوقیت اور عملی حقیقت کا آئینہ دار ہے ''خطبہ حجۃ الوداع'' کو بلا خوف تردید تاریخی حقائق کی روشنی میں انسانیت کا سب سے پہلا منشور انسانی حقوق "Declaration of the Right of man" اور ظلمت کدہ عالم سے انسان دشمنی، بد امنی، نا انصافی، جبر و تشدد اور استحصال و استبداد کے خاتمے پر مبنی فلاحی نظام کو نئے عالمی نظام (New World Order) ہونے کا شرف حاصل ہے۔

عہد حاضر میں مغربی علمبرداروں اور انسانی حقوق کے نام نہاد ترجمانوں کی جد وجہد اور تحریک کا آغاز خود ان کی اپنی تاریخی شہادتوں کی روشنی میگنا کارٹا (Magna Carta) (مجریہ 15جون 2015 جسے وولٹیر منشور آزادی اور مغربی دنیا ''منشور اعظم'' قرار دیتی ہے) سے ہوا ہے۔

مغربی دنیا کی اس تحریک کا نکتہ اختتام اور منتہائے ارتقاء اقوام متحدہ کے منشور انسانی حقوق مجریہ 10دسمبر1948 کو قرار دیا جاتاہے اس طرح ہادی عالم حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے عطا کردہ انسانیت کے منشور اعظم ''خطبہ حجۃ الوداع'' کو تاریخ کے تمام انسانی حقوق کے منشوروں اور دستاویز پر تاریخی اولیت اور ابدی فوقیت کا حامل قرار دینا بالکل بجا ہے۔ انسانی حقوق کی یہ مثال اور دائمی منشور رہتی دنیا تک کے تمام انسانوں اور انسانی معاشرے کے لیے دائمی دستور عمل اور ضابطہ حیات ہے۔

مغربی دنیا کے خود ساختہ ناپائیدار قابل تغیر وتبدیل وقتی تقاضوں اور مصلحتوں کی وجہ سے ان میں اضافہ اور تخمینے کا عمل جاری رہتاہے اور یہی اس کے نقص کی دلیل ہے، ہر انسانی عمل خواہ وہ اجتماعی ہو یا انفرادی نقائص سے پاک اور تنقید سے بالاتر نہیں ہوتا، ان وجوہ سے تمام بنی نوع انسان کے لیے قابل عمل نہیں ہو سکتا۔ دن رات کا مشاہدہ اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے۔

انسانی حقوق کے ان مغربی علم برداروں کے قول و فعل کا تضاد ہے، جس کے نتیجے میں دنیا کے گوشے گوشے میں آج ہر جگہ حریت کی قدر و منزلت پامال اور شرف انسانیت کی مٹی پلید ہو رہی ہے، انسانیت کے ان نام نہاد علمبرداروں نے انسانی دوستی، ہمدردی اور انصاف کے نام پر جو کردار ادا کیا اسے انسانیت کے نام پر جنگ عظیم اول و دوئم، جنگ خلیج، بوسنیا، روانڈا، صومالیہ،فلسطین و لبنان، عراق اور افغانستان نیز دیگر خطوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ان ممالک میں انھوںنے انسانیت کے خلاف ایسے سنگین جرائم سے تاریخ رقم کی جس کی مثال تاریخ عالم کے تاریک سے تاریک دور میں بھی ملنا محال ہے، یہ بھی ناقابل تردیدحقیقت ہے کہ جو قومیں عہد حاضر میں حقوق انسانی کے پر فریب اور بلند و بانگ دعوے کر رہی ہیں وہی انسانیت کا خون چوسنے میں پیش پیش ہیں۔

آج اسلام و اسلامی دنیا اور پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات بابرکت کو انسانی حقوق کے حوالے سے ہدف تنقید بنانے والے در حقیقت تاریخی صداقت اور ایک ناقابل تردید ابدی حقیقت کو جھٹلا کر انسانیت کے خلاف اپنے سیاہ کارناموں اور تاریک مظالم کے سفاکانہ جرائم سے توجہ ہٹا کر اس پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔

رحمت عالم صلی اﷲ علیہ و سلم نے ''خطبہ حجۃ الوداع'' کی صورت میں انسانی حقوق کا منشور اعظم اس تاریخی دور میں عطا فرمایا جو آج کی نام نہاد مہذب دنیا کی ترقی یافتہ جمہوریت سے زیادہ بہتر دور تھا، اس میں درندگی، دھوکا دہی اور فریب نہ تھا، وہ ایسا زمانہ تھا جب عہد حاضر کی ترقی یافتہ اقوام تہذیب و تمدن سے بہت دور تھیں، جس میں مغربی دنیا انسانی حقوق تو درکنار انسانیت کے نام سے بھی ناواقف اور انسانیت و انسانیت نوازی سے حد درجہ دور تھی۔

پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس تاریک دور میں انسان کو انسانیت نوازی کا عملی درس دیا، انھیں حقوق و فرائض سے آگاہ کیا، انسانی حقوق کے منشور اعظم ''خطبہ حجۃ الوداع'' کے اس مثالی، ہمہ گیر اور ابدی منشور کو عہد رسالت صلی اﷲ علیہ وسلم میں مدنی معاشرہ میں نافذ العمل بنا کر اسلامی دستور حیات کا لازمی عنصر اور جزو لاینفک بنا دیا اور اس طرح ایک تاریخ ساز مثالی فلاحی معاشرہ کی بنیاد قائم فرمائی جس کے تفویض تابندہ کی بدولت یورپ اور مغربی دنیا تہذیب و تمدن کی دولت سے ہمکنار اور مہذب ہونے کے اہل قرار پائی۔ لہٰذا انسانی حقوق پر مبنی یہ ایسا ابدی منشور اور چارٹر ہے جسے بلا تفریق رنگ و نسل، قوم وملت رہتی دنیا تک تمام انسانوں کے لیے دائمی دستور العمل ہونے کا شرف حاصل ہے جس پر انسانیت جتنا بھی فخر و ناز کرے کم ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔