پلیٹ فارم
چند روز قبل مجھے اپنے ایک قریبی دوست کی بیماری کی اطلاع موصول ہوئی۔ میں نے ان کی عیادت کی غرض سے سفر کے...
NEW DEHLI:
چند روز قبل مجھے اپنے ایک قریبی دوست کی بیماری کی اطلاع موصول ہوئی۔ میں نے ان کی عیادت کی غرض سے سفر کے لیے ٹرین کا انتخاب کیا اور ٹکٹ لے کر ٹرین کے انتظار میں پلیٹ فارم پر بڑی بے قراری سے ٹہل رہا تھا کہ اچانک مجھے ''السلام علیکم'' کا ایک فلک شگاف نعرہ سنائی دیا۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو میرے ایک پرانے جاننے والے تھے جو پیشے کے لحاظ سے پرائمری اسکول ٹیچر ہیں لیکن از روئے شوق جملہ اصناف سخن، علم و ادب پر بقول خود مکمل دسترس رکھتے ہیں۔ اس دن ان کے ایک ہاتھ میں سبزی کا تھیلا تھا اور دوسرے ہاتھ میں ایک ڈائری۔ سلام دعا کے بعد چھوٹتے ہی کہنے لگے۔
''دیکھیے راؤ صاحب! میں ایک الجھن میں مبتلا ہوں۔'' میں نے جواباً اپنے چہرے پر مروت کے تاثرات پیدا کرتے ہوئے جاننا چاہا۔ ''کیسی الجھن؟'' وہ لخت سنجیدہ ہوتے ہوئے کہنے لگے۔ ''میں نفسیات پر ایک کتاب لکھنا چاہتا ہوں، پریشان ہوں کہ آغاز کس طرح کروں؟'' میں اس انوکھے اور غیر متوقع سوال کے لیے ہرگز تیار نہیں تھا، تاہم میں نے بے ساختہ کہا کہ نفسیات اگر جانوروں کی ہے تو جنگل سے اور اگر انسانوں کی ہے تو یہیں سے ابتدا کیجیے۔ ''یہیں سے یعنی ریلوے پلیٹ فارم سے؟'' انھوں نے تعجب سے پوچھا اور پھر جب انھیں میرا طنز محسوس ہوا تو مجھے گھورتے اور بڑبڑاتے ہوئے چلے گئے۔
اب جو اس چھوٹے سے واقعے پر غور کرتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ ایک لمحہ خود فراموشی میں کتنی بڑی بات میرے منہ سے نکل گئی تھی، کیونکہ موجودہ ملکی حالات میں زندگی کی بے ثباتی، فنا اور تغیر کا احساس اگرچہ ہر مقام پر ہوتا ہے، لیکن ''پلیٹ فارم'' کسی بھی دہشت گردی کے لیے موزوں ترین جگہ ہے اور یہ انسانی نفسیات کا منبع اعظم بھی ہے۔ آپ کو کبھی موقع ملے تو ریلوے پلیٹ فارم کے کسی بینچ پر اطمینان سے بیٹھ جائیے اور اپنے چاروں طرف ہجوم کے بھنور پر ایک نظر ڈالیے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ زندگی اپنی تمام تر ہنگامہ خیزیوں کے ساتھ ''پلیٹ فارم'' کی مختصر سی سطح پر نمودار ہو گئی ہے۔
''شیکسپیئر'' نے ایک جگہ دنیا کو اسٹیج سے تشبیہہ دی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ شیکسپیئر کے زمانے میں ریلوے پلیٹ فارم بن چکا ہوتا تو وہ کبھی اس خوفناک غلط بیانی کا مرتکب نہ ہوتا۔ دراصل ایک ریلوے پلیٹ فارم بالکل ہماری دنیا کی طرح ہے۔ یہاں مسافروں سے لدی ہوئی گاڑیاں آتی ہیں اور یہیں سے مسافروں کو لے کر نامعلوم منازل کی طرف روانہ ہو جاتی ہیں۔ دنیا کی طرح پلیٹ فارم کا احوال بھی ثبات سے ناآشنا اور تغیر سے ہم آہنگ ہے۔ بھلا انسانی نفسیات کے مطالعے کے لیے اس سے موزوں صورت حال اور کیا ہو سکتی ہے؟
ریلوے پلیٹ فارم کے ماحول سے اکتساب علم تو غالباً ایک خالص شخصی مسئلہ ہے لیکن ریلوے حکام کے وہ اقدامات جن کی مدد سے وہ اہل وطن کے خالص مادی میلانات کو تبدیل کرنے کی سعی کرتی ہے ان کے دل میں ''روحانیت'' کی ایک ننھی سی قندیل روشن کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ میرا اشارہ ان ریلوے اشتہارات کی طرف ہے جن سے مسافروں کی تیرہ و تار دنیا میں چکا چوند پیدا ہوجاتی ہے۔ میں ان سے محض ایک اشتہار کا ذکر کرتا ہوں جو تقریباً بیس برس قبل میں نے کراچی کینٹ ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر دیکھا تھا۔ اس اشتہار میں ایک ایسا مسافر پیش کیا گیا تھا، جس کے شکم مبارک کا بیضوی دور شرقاً غرباً تاحد تصویر پھیلا ہوا تھا اور جس کے لیے ایک ایک قدم اٹھانا دوبھر نظر آ رہا تھا۔ اس مسافر کے عقب میں ایک مریل سا قلی تھا جس کے سر پر صندوقوں اور بستروں کا ایک خاصا بڑا اہرام دکھائی دے رہا تھا۔ اس کی چوٹی پر میاں مٹھو کا ایک پنجرہ تھا جو اپنے نیچے گزرتے جم غفیر کو بنظر استہزا دیکھ رہا تھا۔ اشتہار کے نیچے صرف دو لفظ تحریر تھے۔ ''ٹریول لائٹ (Travel Light)۔
''ٹریول لائٹ'' یہ جادو کے الفاظ سم سم کی کلید ہیں اور ان کے زبان پر آتے ہی زندگی کے غار کا دہانہ یک لخت کھل جاتا ہے اور آپ کے محسوسات میں ایک انقلاب عظیم رونما ہونے لگتا ہے۔ آپ دفعتاً سوچتے ہیں کہ ہم سب مسافر ہیں جو زندگی کے اس پلیٹ فارم کو عبور کر رہے ہیں اور ہم میں سے ہر ایک کے عقب میں اس کا ''ہمزاد'' بڑھا چلا آ رہا ہے۔ اس ہمزاد کے سر پر صندوق اور بستروں کا ایک بڑا سا گٹھڑ بلند ہوتا چلا گیا ہے۔ ایک صندوق میں اس کی زندگی کا مادی اثاثہ بند ہے۔ اس کا مکان، دولت، زمین، ملازمت وغیرہ۔ اس سے اوپر ایک بیگ ہے جس میں اس کی بیوی، بچے، عزیزواقارب، دوست احباب بند پڑے ہیں۔ اس کے بعد سماجی روایات، ملکی قوانین، اخلاقی اصول، مذہبی رجحانات اور تجربات و حوادث کے کئی ایک بستر ہیں۔
اور ان سب کی چوٹی پر ایک پنجرہ ہے۔ جس میں اس کی روح ایک خانماں برباد شہزادے کی طرح قید ہے اور زندگی کے گزرے ہوئے کارواں کو اداس اداس دیکھ رہی ہے۔ اشتہار کا خالق حیران ہے کہ ہم لوگ اتنا بوجھ اٹھا کر کس طرح سے سفر کر سکیں گے۔ اسے ڈر ہے کہ یہ بارگراں ہماری کمریں توڑ دے گا۔ چنانچہ وہ ایک بڑے واضح اشارے میں آپ سے کہتا ہے ''اے زندگی کے مسافر! تو اپنے ہمزاد کو زور سے دھکا دے۔ اتنے زور سے کہ وہ پلیٹ فارم پر اوندھے منہ جا گرے اور تو خود اس بھاگتی، دوڑتی ہوئی ٹرین میں سوار ہو جا جو تجھے ''گمان'' کے صحرا سے گزار کر ''یقین'' کی منزل تک لے جائے گی اور جہاں پہنچ کر تو زندگی اور موت کی کشمکش سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آزاد ہو جائے گا۔
یہ ہے ''انسانی نفسیات'' کا لب لباب جسے اس اشتہار کے خالق نے بڑے آسان طریقے سے ہم تک پہنچایا ہے۔ ویسے تاریخی لحاظ سے دیکھیے تو خالق اشتہار کا قدم کوئی اجتہادی عمل نہیں بلکہ صرف ان عظیم قدموں کی صدائے بازگشت ہے۔ جن سے سرزمین پاک و ہند آج تک گل و گلزار ہے اور مہک رہی ہے۔ وہ تمام اولیائے عظام، بزرگان دین جنہوں نے کشف کے ایک لمحے میں اپنا ملک، دولت، جاہ و حشمت، بیوی بچوں کو الوداع کہہ دیا تھا اور ایک اندھیری شب ''ٹریول لائٹ'' کا جیتا جاگتا اشتہار بن کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے تھے۔ جنھیں ہم آج حضرت داتا علی ہجویریؒ، حضرت عثمان مروندیؒ المعروف لعل شہباز قلندر، حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ، حضرت بابا فرید شکرگنجؒ، حضرت بختیار کاکیؒ، کے بلند و باوقار ناموں سے جانتے ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ یہ سب ''ٹریول لائٹ'' کے علمبردار تھے۔ ان کے بعد ان ہزاروں، لاکھوں سادھوؤں کا تذکرہ کچھ مناسب نہیں جو اپنے جسموں پر بھبھوت مل کر گھروں سے نکلے اور گھپاؤں میں جا بیٹھے۔
ترے مستوںکو ساقی شور محشر کیا جگائے گا
یہ وہ ہیں جن کو پی کر ہوش میں آنا نہیں آتا