تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے
دہشتگردی وطن عزیز کا ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی گھمبیرتا نے ہماری قومی زندگی کے ہر آئینے کو دھندلا کر رکھ دیا ہے
رُوس افغان جنگ میں پاکستان کی شمولیت کے دن سے لے کر اب تک وطنِ عزیز میں دہشت گردی اور تخریبی کارروائیوں کا جو سلسلہ جاری ہے اور جس میں نائن الیون کے بعد ایک خاص طرح کی شدّت کا بھی اضافہ ہو گیا ہے ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی گھمبیرتا نے ہماری قومی زندگی کے ہر آئینے کو دھندلا کر رکھ دیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب کالا باغ ڈیم کی طرح ہمارا معاشرہ اس معاملے میں بھی ایک ہو کر نہیں دے رہا۔ بظاہر اے پی سی میں تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق رائے سے ایک طریقہ کار وضع کیا ہے مگر عملی طور پر اب بھی ذاتی اور گروہی مفادات قومی مفاد پر حاوی نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہمارا میڈیا بھی ایک طرف تو اس ضمن میں ماہرین اور سٹیک ہولڈرز کو جمع کر کے اس مسئلے کے ضروری اور غیر ضروری ہر طرح کے پہلوئوں پر تفصیل اور سنجیدگی سے گفتگو کر رہا ہے اور دوسری طرف ان ہی چینلز پر یہی بات مذاق، تضحیک، تشکیک، الزام تراشی اور پوائنٹ اسکورنگ کے انداز میں اس شدّت اور تسلسل سے کی جا رہی ہے کہ عام اور اَن پڑھ آدمی کو تو چھوڑیئے تعلیم یافتہ اور اہلِ نظر لوگ بھی اس مخمصے میں مبتلا ہیں کہ انھیں کہاں ہنسنا اور کہاں رونا چاہیے۔
اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا میں بھی بعض لوگ اور گروپ مختلف طرح کی الزام تراشیوں، افواہوں اور الزامات کی آڑ میں صورت حال کو مزید کشیدہ کرنے پر تُلے بیٹھے ہیں۔ یہ سوال اپنی جگہ پر اہم سہی کہ جنرل ضیاء الحق سے جنرل پرویز مشرف کے ادوارِ حکومت میں کیا کیا اور کب کب غلط فیصلے کیے گئے؟ آرمی ایکشن کہاں صحیح تھا اور کہاں غلط؟ سیاستدانوں نے اس مسئلے کو کیسے ہینڈل کیا؟ غیر ملکی طاقتوں کی دخل اور در اندازیوں کی وجہ سے بھانت بھانت کے ''طالبان'' کیسے بنے اور بنائے گئے اور یہ کہ ہمارے میڈیا کا صورتِ حال کو سلجھانے اور اُلجھانے میں کیا رول رہا۔ فی الوقت زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ان سب عوامل کے باوجود اس مسئلے کے مستقل حل کا راستہ کیسے نکالا جائے کہ اب آگ صرف افغان بارڈر پر ہی نہیں ہمارے گھروں تک پہنچ چکی ہے اور اگر اس وقت اسے مل کر نہ بُجھایا گیا تو سب کچھ جل کر خاک ہو جائے گا اور بچیں گے وہ بھی نہیں جن کی جائیدادیں اور کاروبار ملک سے باہر ہیں یا جو پاکستان سے علیحدہ ہو کر اپنے آپ کو بنگلہ دیش کی طرح دیکھ رہے ہیں۔ ہم سب کی بقاء کا دارومدار اسی پر ہے کہ وطنِ عزیز سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کر دیا جائے چاہے وہ القاعدہ اور طالبان کی طرف سے ہو یا ان کی آڑ میں بھتہ خوری، ملکی وسائل کی لوٹ کھسوٹ اور لسّانی یا علاقائی بنیادوں پر پاکستانی عوام کی تقسیم کرنے والے عناصر کی طرف سے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے سیاستدانوں، فوج اور عوام تینوں نے مجموعی طور پر گزشتہ 66 برس میں اُس ذہنی بلوغت اور عملی صلاحیت کا وہ ثبوت نہیں دیا جس سے قومیں اپنے تجربات سے سیکھ کر آگے بڑھتی ہیں لیکن اب ایسا بھی نہیں کہ ہم کسی ایسے اندھے غار میں سفر کر رہے ہیں جس میں کہیں سے روشنی کا گزر ہی نہ ہو ہماری اجتماعی غلطیوں کی تعداد زیادہ ہوسکتی ہے مگر یہ ساری کی ساری داستان تو غلطیوں کا مجموعہ نہیں ہے، سو ہمیں اے پی سی کے حالیہ فیصلوں کے کمزور حصوں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہو سکنے والی کسی غیر متوقع صورتِ حال پر نظر تو رکھنی چاہیے کہ یہ اس ''تجربے'' کا لازمی حصہ ہیں مگر روّیہ مثبت اور حل طلب ہونا چاہیے مانا کہ اس وقت طالبان کے بہت سے گروہ انفرادی اور جماعتی سطح پر دہشت گردی میں مصروف ہیں، ان میں سے کچھ کا تعلق ہماری سرحدوں سے باہر کے لوگوں اور ملکوں سے ہے اور کچھ مطالبات کی بنیاد مقامی ، مسلکی اور قبائلی نظام میں ہے( یہ اور بات ہے کہ ان میں سے بھی اکثر کو تخریب کاری کی تربیت اور وسائل ''کہیں اور'' سے مل رہے ہیں)۔
میرے خیال میں عمران خان اور کچھ اور سیاستدانوں کی یہ بات توجہ طلب ضرور ہے کہ ان میں سے جو گروہ پاکستان کی سالمیت کو تسلیم کرتے ہیں اور کسی نظریئے ، عقیدے یا ردِّعمل کی وجہ سے اس ''تخریب کار''قافلے کا حصہ بن گئے ہیں انھیں کسی بیک ڈور پالیسی کے تحت باقیوں سے الگ کر دیا جائے اور اُن کے جائز زخموں کا اندمال اور نظریاتی سطح پر مفاہمت کا کوئی راستہ نکالا جائے جو مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں کہ ہماری ایجنسیوںکے پاس یقینا ان کے بارے میں معلومات بھی ہیں اور متعلقہ تفصیلات بھی ۔ ان میں سے بیشتر کا تعلق رُوس افغان جنگ کے پسماندہ مجاہدین کے مسائل ، پاک فوج کی کچھ کارروائیوں اور ڈرون حملوں کے بے گناہ مقتولین سے نکلے گا یعنی یہ پیشہ ور دہشت گرد اور تخریب کار نہیں ہیں بلکہ ایک ردِّعمل کی کیفیت نے انھیں ان کی صف میں کھڑا کر دیا ہے ۔ ماہرین کے خیال کے مطابق یہ لوگ تعداد میں کل طالبان کے 80% سے بھی زیادہ ہیں مگر بد قسمتی سے ایسی ''خاموش اکثریت'' ہیں جو ایک ایسی اقلیت کے ہاتھوں میں کھلونا بن گئے ہیں جو انتہا پسند بھی ہے اور جس کو ہمارے دشمنوں سے ہر طرح کی مدد اور سہولتیں بھی مل رہی ہیں ۔ اگر ہماری حکومت اور اُس کے متعلقہ نمائندے اس خاموش اکثریت سے بھی ''مکالمہ '' جاری رکھ سکیں تو یقینا باقی لوگوں سے نتیجہ خیز انداز میں نمٹنے کا راستہ نکل سکتا ہے۔
جہاں تک اس سارے عمل میں پاک فوج کا کردار ہے تو میرے خیال میں بین الاقوامی دبائو یا سیاسی سطح پر کچھ غلط فیصلوں سے قطع نظر (جو کہیں اور ہوئے تھے اور جن کی بنیادی وجہ دو جرنیلوں کا سِول حکومت کا تختہ اُلٹ کر خود اقتدار پر قابض ہونا تھا) اس کے لیے ''شاندار'' اور ''بے مثال'' کے الفاظ بڑے اعتماد سے استعمال کیے جاسکتے ہیں بلا شبہ اس جنگ میں شہید ہونے والے تقریباََ 40 ہزار افراد میں سے فوجی افسروں اور جوانوں کی تعداد پانچ ہزار کے لگ بھگ ہے مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ 35 ہزار شہری مختلف انواع کی دہشت گردی کا نشانہ بنے تھے مگر پاک فوج کے ہر شہید نے شہادت کوخود آگے بڑھ کر اور تمام خطرات کو جانتے ہوئے گلے لگایا تھا۔ میں ذاتی طور پر ایسے بہت سے شہدا کو جانتا ہوں ۔ جنھوں نے خود درخواست دے کر اور اصرار کرکے افغان بارڈرز پر اپنی پوسٹنگ کرائی تھی اور یہ بات بھی میرے علم میں ہے کہ ان کے بے شمار ساتھی اب بھی وطنِ عزیز کی آزادی اور سالمیت کی حفاظت کے لیے اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ا ن تمام شہیدوں اور شہادت کے طلب گاروں کا احترام ہم سب پر فرض ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم سب قومی مفاد پر اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کو قربان کرنا سیکھ لیں کہ اس کے بغیر یہ جنگ جیتنا بہت مشکل ہوگا۔