حضرت بہزاد لکھنوی کا بلاوا

’’اگر آپ انکار کریں گے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ آپ مجھے ثواب سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘


نادر شاہ عادل August 15, 2019

ملک کے بزرگ نعت گو شاعر بہزاد لکھنوی کے نعتیہ مجموعہ ''کرم بالائے کرم '' کا ایک پرانا نسخہ گھر کی کتابوں کے انبار سے اچانک مل گیا۔ اس نایاب مجموعہ میں فریضہ حج کی ادائیگی کا جو واقعہ بہزاد صاحب نے بیان کیا ہے وہ بے انتہاء روح پرور ہے۔ لکھتے ہیں۔

26 اگست 1957کو جہاز جمہوریہ مصر سے واپس کراچی لوٹا۔ گو تکان بہت تھی، لیکن دوسرے دن ہی دفتر میں حاضری دی کیوں کہ دفتر سے چھٹیاں بلا تنخواہ ملی تھیں۔ غالباً 28 اگست کو صبح نعت پڑھنے کے لیے ریڈیو اسٹیشن گیا اور اسٹوڈیو نمبر 4 میں بیٹھ گیا۔ مولانا عبدالجبار صاحب درسِ کلامِ پاک دے رہے تھے۔ جوں ہی ان کا درس ختم ہوا میں نے نعت شروع کی جس کا مطلع یہ ہے:

صد شکر کہ پورا ہوا ارمانِ مدینہ

دل اور سوا ہو گیا قربان مدینہ

میں پڑھ رہا تھا اور خود اپنی آواز اور کیف میں کھویا ہوا تھا کہ یکایک میری نگاہ اٹھی، سامنے شیشے کے بوتھ میں انجینئر کے پاس مولانا عبدالجبار صاحب کھڑے ہوئے مجھے سن رہے تھے۔ جب میری نعت ختم ہوئی تو مولانا اسٹوڈیو کا دروازہ کھول کر روتے ہوئے اندر داخل ہوئے اور مجھ سے لپٹ گئے وہ بھی رو رہے تھے اور میں بھی رو رہا تھا۔ آنے کو تو واپس آگیا تھا۔ کیفِ حضوری کی یاد۔ مدینہ طیبہ کے ان پرسکون اور بابرکات لمحات کا خیال ہمہ وقت ساتھ تھا۔ اگلے حج اور زیارت کے لیے بے چین تھا۔ لیکن تھا وہی بے مائیگی کا سوال۔

یکایک ربیع الاول شریف کا چاند ہوگیا۔ میلاد النبیؐ اور سیرۃ النبیؐ کے جلسے شہر میں شروع ہوگئے اور میری مصروفیت کا یہ عالم ہوگیا کہ ایک رات میں آٹھ آٹھ جگہ پڑھنے جانا پڑتا تھا۔ اس کثرت کے باعث سینے پر زور پڑ گیا اور مجھے خون آنا شروع ہوگیا۔ صاحب فراش ہوگیا۔ انجکشن لگے۔ بحمدللہ اچھا ہوگیا۔ لیکن کھانسی زکام اور نزلے نے پیچھا نہ چھوڑا۔ حکما صاحبان سے رجوع کیا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ اسی عالم میں دفتری فرائض بھی پورے کرنا پڑتے تھے۔

بلاتنخواہ چھٹیاں لینے کی سکت مجھ میں نہ تھی۔ دن گزرتے گئے یہاں تک کہ اخبارات میں اعلان ہوا کہ حج کے لیے درخواستیں صرف 3 مارچ سے 11 مارچ تک لی جائیں گی۔ دل بہت بے چین ہوا لیکن کرتا تو کیا کرتا اللہ اور اس کے حبیبؐ کے سہارے خاموش بیٹھا رہا اس لیے کہ کسی سے سوال کرنا میرے بس کی چیز نہ تھی ۔ یہاں تک کہ دس تاریخیں گزر گئیں۔ 11 مارچ کو حسب معمول دفتر پہنچا تو میں نے اپنے ساتھی میر حامد علی سے کہا:

''میر صاحب! اب کی شاید سرکارؐ کے وہاں کی حاضری مقدر میں نہیں ہے۔''

یکایک ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ کرم بالائے کرم ہوگیا۔ میں نے ریسیور اٹھایا۔ ایک آواز آئی:

''میں بہزاد صاحب سے بات کرنا چاہتا ہوں۔''

میں نے کہا: ''میں بہزاد بول رہا ہوں۔''

آواز آئی: ''کیا آپ کی نشستوں کا انتظام ہوگیا؟''

میں نے کہا: ''ابھی تک تو نہیں!''

آواز آئی : ''میں۔۔۔۔ ہوں (مجھے نام بتانے کی اجازت نہیں) آپ براہ کرم فوراً میرے پاس آجائیے۔ میرے پاس دو حضرات نے پانچ سو کی رقم آپ کے واسطے بھجوا دی ہے۔ درخواست کے ساتھ یہ رقم داخل ہونا ضروری ہے۔ آپ عرضی دے دیجیے۔ آگے اللہ مالک ہے۔''

اس وقت میری جیب میں کل تین روپے تھے۔ میں عالم شوق میں دفتر سے بغیر کہے سنے باہر نکلا۔ گھڑی دیکھی پونے بارہ کا عمل تھا۔ نیوٹاؤن سے تین بجے آخری ڈاک سے اگر عرضی نہ جائے تو قرعہ اندازی میں شریک نہ ہونے کا دھڑکا تھا۔ میں نے فوراً موٹرسائیکل رکشہ پکڑا اور ان محسن کے گھر روانہ ہوگیا۔ اللہ ان کو خوش رکھے۔ وہ بے حد محبت اور خلوص سے ملے۔ میری جانب دو فارم بڑھاتے ہوئے بولے:

''مولانا! یہ فارم جلدی سے بھر دیجیے جب تک میں چپڑاسی کے ہاتھ پانچ سو کی رقم ڈاک خانے بھیج کر رسید منگواتا ہوں تاکہ رسید کے نمبر بھی فارم میں درج کردیے جائیں۔'' آپ یقین جانیں فارم بھرتے وقت میں سارے جسم سے کانپ رہا تھا۔ ان غریب نے اپنے پاس سے سوا چھ روپے منی آرڈر فیس کے چپڑاسی کو دیے اور روانہ کردیا۔ میں فارموں کی خانہ پری کے بعد چائے پی رہا تھا کہ چپڑاسی آگیا۔ رسید کے نمبروں کے اندراج کے بعد میں کھڑا ہوگیا۔ انھوں نے چار روپے میری جانب بڑھاتے ہوئے کہا:

''معاف کیجیے گا شاید آپ کے پاس روپیہ اس وقت نہ ہوں۔ آپ صدر سے پانچ منٹ والے فوٹو کھنچوا کر ان فارموں کے ساتھ منسلک کر دیجیے اور نیوٹاؤن پوسٹ آفس تین بجے کے اندر یہ فارم رجسٹری کردیجیے۔''

میں وہاں سے سیدھا موٹرسائیکل رکشہ پر صدر آیا۔ جلدی جلدی تصویر کھنچوائی، تصویر ایسی تھی کہ اس کو میری تصویر کہنا زبردستی ہوگی۔ بہر نوع ٹھیک ڈھائی بجے نیوٹاؤن پہنچ کر میں نے عرضی پوسٹ کردی۔

عرضی دینے کے ٹھیک پندرھویں دن معلم کا آدمی میرے پاس مبارکباد دینے آیا کہ آپ کا اور آپ کے گھر کا نام قرعہ اندازی میں آگیا ہے۔

میں نے خدا کا شکر ادا کیا۔ لیکن ابھی محض ڈاک کے لیے دو ہزار روپیوں کا مسئلہ تھا۔ آسرا تھا تو انھیں کے کرم کا۔ لہٰذا خاموش بیٹھا رہا۔ کوئی بیس دن کے بعد ایک دوسرے صاحب کا ٹیلی فون دفتر میں آیا:

''بہزاد صاحب! میرے پاس تشریف لا کر اپنی امانت لے جائیے۔'' تفصیل انھوں نے بتائی نہ تھی لہٰذا میں فرصت نکال کر دو دن کے بعد ان کے پاس پہنچا انھوں نے ایک لفافہ نکال کر دیا اور کہا، '' ایک ہزار کے نوٹ ہیں۔ دو صاحبان کی طرف سے جو اپنا نام ظاہر کرنا نہیں چاہتے، یہ آپ کے حج کے لیے ہیں۔'' میں نے ان کا شکریہ ادا کرنا چاہا تو انھوں نے کہا۔

''مولانا! یہ جن کا کام ہے مجھے انھیں سے اس کا صلہ ملنے دیجیے۔''

میں خاموش چل دیا۔ گھر میں آنے کے بعد جب میں نے اپنی رفیقہ حیات کو وہ پیکٹ دیا تو انھوں نے کہا:

''یہ کہاں سے آئے؟'' میں نے ان سے تفصیل کہی تو وہ بولیں:

''میاں! آپ مجھ سے تو اس قسم کی باتیں کیجیے نہیں۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ دینے والے کا نام تک آپ کو معلوم نہیں۔'' جب میں نے قسم کھائی تو ان کو اعتبار ہوا اور آنکھوں میں شکرانہ کے آنسو آگئے۔ دن گزرتے گئے۔ میری علالت کسی صورت جانے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ یکایک پھر انھیں صاحب کا ٹیلی فون آیا کہ آئیے۔ میں گیا۔ پھر ایک ہزار روپیوں کا ایک پیکٹ مجھے دو نامعلوم حضرات کی جانب سے دیا گیا۔ اب ڈیک کا کرایہ پورا ہوچکا تھا لیکن میں کافی علیل تھا اور مجھے خوف تھا کہ میں ڈیک میں سفر نہ کرسکوں گا۔ لہٰذا میں نے نماز کے بعد معروضہ کیا۔ ''اے سرکارؐ! غلام علیل ہے۔ سیکنڈ کلاس سے کم میں حاضری دشوار معلوم ہو رہی تھی۔'' غلام کا کام آقا کے حضور میں معروضہ تھا سو کرلیا۔ اس کے تیسرے ہی دن میرے کرم فرما ڈاکٹر انور وارثی ایک صاحب کو میرے پاس میرے گھر لے کر آئے وہ صاحب خود بھی عازم حج تھے مجھے پانچ سو بیس روپے دے کر بولے۔ ''میں چاہتا ہوں کہ آپ حج کے سلسلے میں اپنے اخراجات میں یہ رقم بھی شامل کرلیں۔''

میں نے لے لیے۔ ان صاحب سے میرا تعارف اس سے قبل نہیں تھا۔ خدا ان کو خوش رکھے۔ اس کے ایک ہفتے کے بعد ہی پھر میرے پاس انھیں صاحب کا ٹیلی فون آیا جن کی معرفت مسلسل روپے مل رہے تھے انھوں نے مجھے یاد فرما کر پھر پانچ سو روپے کا ایک پیکٹ دیا اور کہا۔ ''بہزاد صاحب! شاید سیکنڈ کا انتظام ہو رہا ہے۔'' میں نے عرض کیا۔ ''جی ہاں، ان کے کرم سے آج پورا ہوگیا۔''

اب مجھے اوپر کے اخراجات کے لیے روپے کی حاجت تھی۔ سامان خریدنا تھا۔ میرے بڑے لڑکے انور بہزاد نیوز ریڈر ریڈیو پاکستان کراچی نے مجھے چار سو روپیہ کا ایک چیک زبردستی دے دیا اور یہ کہہ کر دیا کہ۔

''اگر آپ انکار کریں گے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ آپ مجھے ثواب سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔''

میں نے چیک لے لیا۔ اب معاملہ پورا تھا۔ سامان کی خریداری اور دیگر مصارف میں یہ رقم کام آنا شروع ہوگئی۔ ایک دن حاجی کیمپ میں ٹریولر چیک بنوانے کی غرض سے گیا۔ اس دن مجھے پھر ایک پیکٹ ملا جس میں دو سو کی رقم تھی۔ میں حیران تھا کہ یہ دو سو روپے مجھے کیوں ملے ہیں۔ میرے پاس اخراجات کے لیے پوری رقم موجود ہے۔ چوتھے دن جس وقت میں جہاز کا ٹکٹ خریدنے کے لیے کھڑکی پر گیا اور میں نے پچھلے سال کے مطابق رقم نکال کر بکنگ کلرک کو دی تو اس نے کہا۔ ''بہزاد صاحب! اس جہاز کے سیکنڈ کلاس کا کرایہ اور جہازوں سے زیادہ ہے۔ لہٰذا ابھی دو ٹکٹوں کے لیے ایک سو چالیس روپیہ اور چاہیے ہیں۔'' اب مجھے وہ دو سو کی رقم نکالنا پڑی۔ کریم کے کرم بے پایاں کا حال اس وقت معلوم ہوا۔

ایمپائر آرول میں دو نشستوں کا کیبن نمبر 23 ڈی میرے نام الاٹ ہوگیا۔ 4 جون کو جہاز روانہ ہونے والا تھا لہٰذا 4 جون 1958 کو روانہ ہوکر اللہ کے افضال و کرم سے حج و زیارت روضہ سرکار دو عالمﷺ سے سرفراز ہوکر یہ کہتا ہوا واپس آگیا۔

بہزاد حزیں صرف مری ایک دعا ہے

یا رب مرا ہر سال ہو سامانِ مدینہ

یہ تھی وہ چشم کشا روداد جو ''کرم بالائے کرم '' کے معجزہ پر یقین کا سامان بن گئی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں