احمد ہمیش رخصت ہوئے…
البتہ نوبل پرائز کی وقعت ضرور مشتبہ ہو گئی۔
1۔ تم نے کہا تھا کہ کہانی مجھے لکھتی ہے اور اب میں کہہ رہی ہوں کہ تاریخ تمہیں لکھے گی۔
2۔ ایک جھگڑالو قلمکار جسے میں نے ہمیشہ ہر ملاقات میں مخلص اور مہذب محسوس کیا۔
3۔ دلچسپ ملاقات۔ یادگار باتیں۔ تند و تیز جملے۔ کیا میں بھول سکتی ہوں؟
آہ ! احمد ہمیش ہم سے رخصت ہوئے بے شمار قابل احترام لمحات اور مناظر جانے والے کے مقام اور ادبی تخلیقات کی یادوں کے ساتھ میرے سامنے موجود ہیں۔ 19 مارچ 2001ء میں انھوں نے مجھے اپنی کتاب ''کہانی مجھے لکھتی ہے'' پڑھنے کے لیے دی۔ ''تشکیل'' میں انھوں نے میری تخلیقات کو جگہ دے کر اس وقت حوصلہ افزائی فرمائی جب میں ادبی دنیا میں صرف چند قدم کا فاصلہ طے کر پائی تھی۔ 19-03-2001 کو ہی ان سے میری پہلی ملاقات ہوئی۔ 1963ء سے اپنی کہانیوں کا آغاز کرنے والا ہمیش میرے سامنے تھا۔
درمیانہ قد، تھکا ہوا چہرہ، خشک اور الجھے ہوئے بال قدرے سفید، ململ کا کرتہ، چیک دار دھوتی، ناظم آباد کے علاقے میں سیڑھیاں چڑھ کر چھوٹا سا کمرہ۔ ہمارے معاشرے میں رہنے والے ادیبوں اور شاعروں کی حالت کے مطابق فرنیچر، کمرے کو ''تشکیل'' کے دفتر کا نام بھی دیا جا سکتا تھا۔جس وقت میں سیڑھیاں چڑھ رہی تھی ہمیش کے زہر میں بجھے نشتر ایک ہولناک تصویر میرے ذہن میں کھینچ رہے تھے۔ کون سے جملے تھے، تبصرے تھے، رائے تھی، ہمیش نے کہا تھا بے خوف اور پُر اعتماد انداز سے:
''پروین شاکر کو احمد ندیم قاسمی نے مشروط گراؤنڈ پر آگے بڑھایا۔''
''آج کے قلم کاروں کو میں قلم کار ماننے سے انکار کرتا ہوں''۔
''کشور ناہید نے مجھے مردانہ گالی دی۔ اس لیے میں نے انھیں عورت ماننے سے انکار کر دیا''۔
''عورت اپنی خاص فطری کیفیت میں ہو تو اس سے بہتر کوئی نہیں لکھ سکتا''۔
''اکادمی ادبیات انجمن ترقی اردو ''اردو ڈکشنری بورڈ'' جیسے ادارے گدھ ہیں جو ادارے کی بوٹیاں نوچ کر کھا رہے ہیں''۔میں دیر تک اپنے سامنے بیٹھے ہوئے ہمیش کے اندر اس احمد ہمیش کو تلاش کرتی رہی جس کے بارے میں، میں نے بہت کچھ سن رکھا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ میں تھوڑا ڈر بھی رہی تھی۔ میں نے بہت کچھ سن رکھا تھا جھگڑالو سا وہ احمد ہمیش جو عورت کے بارے میں بلا تامل سفاک رائے دیتا ہے۔ تیز و ترش جملہ بول کر لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ نظر انداز کیے جانے والے بچے کی طرح جو کہ گھر والوں کی توجہ کے لیے قیمتی شے زمین پر پھینک کر توڑ دیتا ہے۔ اور سب کی نگاہیں آواز کے ساتھ اس کی جانب اٹھ جاتی ہیں معلوم نہیں ایسا کیوں ہوتا ہے۔ شہرت، تسکین، توجہ، محرومی، احمد ہمیش کا تعلق اسی خاندان سے تھا جہاں مرد کی حاکمیت رہی۔ ماں جبریت کا شکار رہ کر مر گئی ان کا نقطہ نظر یکسر تبدیل ہو گیا۔ گھر کی حاکمیت اپنی اہلیہ کے سپرد کر کے وہ مکمل طور پر باہر کی جنگ میں مصروف ہو گئے۔ ان کا شکار اہل قلم تھے۔ میں نے گفتگو کے دوران اس جنگی انسان کو مکمل طور پر باہر لانے کی بھرپور کوشش کی مگر اندر کا احمد ہمیش لمحہ بھر کے لیے بھی باہر نہ آ سکا۔ کبھی میں اس کوشش میں کامیاب بھی ہوئی تو وہ اچانک غائب ہو گیا۔ باہر کے احمد ہمیش اور اندر کے احمد ہمیش کو سمجھنے کے لیے یہ چھوٹی سی ملاقات ناکافی تھی۔ ممکن ہے لوگوں کی رائے درست ہو مگر میرے سامنے جو تصویر تھی وہ قدرے مختلف تھی۔ ذمے دار شوہر محبت کرنے والا باپ۔
ہمیش نے یکم جولائی کی ایک طوفانی رات اترپردیش میں جنم لیا۔ سوتیلی ماں کے روایتی سلوک کی وجہ سے پاکستان ہجرت کی۔ احمد ہمیش نے اپنے آپ کو اردو نثری نظم کا بانی قرار دیا ان کی پہلی نظم 1962ء میں ماہنامہ ''نصرت'' لاہور میں شایع ہوئی۔ ان کی شہرت کا سبب دراصل سہ ماہی تشکیل نہیں بلکہ ''مکھی'' ہے۔ ہمیش نے 1963ء سے کہانیاں لکھنے کا آغاز کیا۔ 35 سال کے دوران لکھی گئی کہانیوں کا مجموعہ ''کہانی مجھے لکھتی ہے'' 98ء میں منظر عام پر آیا۔
دوران گفتگو انھوں نے کہا ادب میں میری جنگ ادبی بددیانتی کے خلاف ہے۔ جو کہ ہمعصروں اور نئے لکھنے والوں کے خلاف ہوتے ہیں۔ میں نے تشکیل میں نئے لکھنے والوں کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ خواہ وہ احمد ندیم قاسمی ہوں، وزیر آغا یا گوپی چند نارنگ ان کو میں ہدف اس لیے بناتا ہوں کہ یہ نئے لکھنے والوں کے راستے روکتے ہیں۔ یہ احترام چاہتے ہیں گویا انھیں تبرک سمجھا جائے''۔ملاقات کے دوران بے شمار قلمکاروں کے بارے میں اپنے خاص انداز میں انھوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔ مگر ان میں سے اکثر حیات نہیں اور اب ان کا تذکرہ کرنا مجھے مناسب نہیں لگ رہا۔ گویا پرسکون پانی کی سطح پر ہمیش کنکر پھینکتے رہے اور میں بنتے ہوئے دائروں کو دیکھتی رہی۔ پانی کی سطح پھر پرسکون ہو چکی ہے۔ نقارہ جنگ خاموش ہے۔میں صرف ان باتوں کا ذکر کرنا چاہوں گی جن کا تعلق آج بھی ہمارے سماجی اور ادبی رشتے سے ہے۔ ''مکھی'' کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ مکھی علامت تھی میرے چاروں طرف غلاظت، کثافت کی جو کہ ہر شعبے اور رشتے میں بکھری ہوئی ہے۔جب میں نے کہانی کا ذکر کیا تو انھوں نے کہا کہ اردو کا مستقبل خطرے میں پڑا ہے کہانی تو بعد میں آتی ہے ابھی تو زبان کی فکر دامن گیر ہے۔ لکھنے والے کی قوت کسی بھی زبان کو طاقتور بناتی ہے۔ مثلاً منٹو طاقت ور لکھنے والا تھا۔ جس کی وجہ سے اردو کو طاقت ملی۔ زبان کو لکھنے والے طاقت بخشتے ہیں۔ احمد ہمیش نے کہا تھا کہ قلم کار ختم ہو چکے ہیں۔ آج کے قلم کاروں کو میں قلمکار ماننے سے انکار کرتا ہوں۔
ہمیش نے اپنے ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ:
''میری تحریریں کسی دعوت نامے، ایوارڈ یا ڈاکٹریٹ کی جعلی ڈگری میرا مطلب ہے کہ اعزازی ڈگری کی محتاج نہیں ہیں آپ کو معلوم ہے کہ بعض ایسے ادیبوں، شاعروں کو ادب کا نوبل پرائز نہیں دیا گیا جن کی روشن تحریریں نسل در نسل ہمیشہ ذہنوں کو منور کرتی رہیں گی اس نا انصافی کے نتیجے میں ایسے شہرہ آفاق لافانی ادیبوں، شاعروں کی قدر و قیمت یا قد و قامت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ البتہ نوبل پرائز کی وقعت ضرور مشتبہ ہو گئی۔
مجھے ہمیش کے یہ الفاظ یاد آ رہے ہیں ''مقام اور مستقبل تو انسانی معاشروں کی باتیں ہیں فی زمانہ تو ''موبوکریسی'' کا چلن ہے۔ یہ موب (Mob) ہی آدم خور ہے۔ جو ہر فرد کو ہڑپ کر لیتا ہے میری تخلیقات اور ساری ادبی کاوشیں ایک انسانی معاشرے کے قیام کی جنگجویانہ جدوجہد سے عبارت ہیں تا کہ فرد غیر انسانی معاشرے کی گرفت سے نجات حاصل کر سکے۔ فی الحال تو جئے جانے کے جان لیوا اور مستقل عذاب جھیل رہا ہوں اور یہی میرا حال مستقبل اور مقام ہے''۔
جیے جانے کے مستقل عذاب سے ہمیش کو نجات مل گئی۔ جنگجو ادیب و شاعر رخصت ہوا۔
ہمیش کی 1959ء میں لاہور میں قیام کے دوران لکھی گئی ایک مختصر نظر ''جھونکا'' میں معذرت کے ساتھ چھوٹی سی ترمیم مضمون کے اختتام پر پیش کر رہی ہوں:
وہ کون تھا' کہاں ملا
مجھے تو کچھ پتہ نہیں
مگر وہ جب چلا گیا
تو دور تک خیال میں
ہوا کا تیز شور تھا!