آرٹیکل 370 اور کشمیری کی فریاد

بھارتی حکومت نے جس انداز میں یہ فیصلہ کیا ہے، اس سے بھارت نواز کشمیریوں کے بھی سیاسی احساسات مجروح ہوئے ہیں


آرٹیکل 370 ختم کرنے کے بھارتی اقدام نے کشمیریوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

نریندر مودی گجرات کے قصاب کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کے سرکردہ قائدین میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ بائیں بازو کے بھارتی دانشور اور عوام ان کی کامیابی کو ملک میں انتہاپسندانہ سوچ میں اضافہ قرار دیتے ہیں۔ وہ متعدد بار اسلام اور پاکستان دشمنی کے سہارے لوک سبھا اور راجیا سبھا کے ممبر منتخب ہوئے۔ انہوں نے اپنی انتخابی مہم اور پارٹی منشور کے تحت ملک بھر میں نسلی منافرت کو فروغ دیا۔

بھارتی پارلیمنٹ میں پیش کردہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ چھ سال کے دوران ملک میں مذہبی بنیادوں پرتشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس عرصے میں 40 کے قریب مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ سب سے اہم بات مسلمانوں کے خلاف تشدد کے 66 فیصد واقعات ان ریاستوں میں ہوئے جہاں بی جے پی برسراقتدار تھی۔ جب ووٹ ہی نفرتوں کی بنیاد پر لیے جائیں تو ملک میں نفرتیں ہی فروغ پائیں گی۔

بی جے پی قیادت نے اپنے انتخابی منشور پر عمل درآمد کرتے ہوئے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو عملاً ختم کردیا۔ گزشتہ بلاگ میں ان آرٹیکلز کے حوالے سے تقفصیلاً لکھا تھا اور ان کے خاتمے کے تباہ کن اثرات بھی بیان کیے تھے۔

یہ بلاگ پڑھئے: آرٹیکل 35 اے اور بھارتی سازش

مودی قیادت نے ان آرٹیکلز کے خاتمے کے ساتھ ہی حریت کانفرنس کے رہنماؤں اور بھارت نواز کشمیری سیاستدانوں تک کو پابند سلاسل کردیا ہے۔ ان اقدامات سے وادی میں موجود مسلمان اور دیگر قومیتوں کے افراد شدید اضطراب کا شکار ہیں۔ بحیثیت کشمیری مجھے بھارتی اقدام نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اپنے جذبات و احساسات کو بیان کرنے کےلیے الفاظ تلاش کرنا میرے لیے مشکل ہے۔ بھارتی اقدام کے بعد پاکستانی عوام اور دیگر سنجیدہ تجزیہ کار اس پر کئی سوالات اٹھا رہے ہیں۔

 

کیا بھارتی پارلیمنٹ آرٹیکل کے خاتمے کا اختیار رکھتی ہے؟


مہاراجہ ہری سنگھ نے جن شرائط پر کشمیر کا الحاق بھارت سے کیا تھا، ان میں سے ایک شرط ریاست کی آزادانہ حیثیت تھی۔ ریاستی اسمبلی دفاع اور امور خارجہ کے علاوہ تمام معاملات میں آزاد تھی۔ ریاست کا پرچم اور آئین تھا۔ کسی بھی آئینی ترمیم سے قبل بھارت کو ریاستی اسمبلی سے وہ آئین پاس کرانا ضروری تھا لیکن مودی سرکار نے انتہائی عجلت میں فیصلہ کرتے ہوئے ریاستی اسمبلی کی اجازت کے بغیر آرٹیکلز 370 اور 35 اے کو ختم کردیا۔ یہ اقدام بھارتی اور ریاست کشمیر کے آئین سے متصادم ہے۔ واضح رہے کہ بھارت نے 1956 میں ریاست کی قانون ساز اسمبلی کو ختم کرکے ریاست میں تباہی کی بنیاد رکھی تھی۔

 

کیا اس آرٹیکل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے؟


آرٹیکل 35 اے کے خاتمے کےلیے ایک درخواست بی جے پی کی حمایت یافتہ، ایک این جی او نے دائر کی تھی جس پر تیزی سے سماعت جاری تھی۔ گزشتہ دنوں وادی میں بھارتی فوجی دستوں کی تعیناتی کے بعد عام خیال تھا کہ سپریم کورٹ اس پر فیصلہ دے گی، لیکن یہ عمل پارلیمنٹ کے ذریعے کیا گیا اور عملی طور پر سپریم کورٹ کا کردار ختم کردیا گیا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق ان تمام معاملات کے باوجود اس شق کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا لیکن اس کا کوئی فائدہ وادی کے عوام کو نہیں ہوگا۔

 

آرٹیکل کے خاتمے کے سیاسی اور معاشی اثرات


تازہ بھارتی اقدامات کا براہ راست انڈین حکومت کو نقصان ہوگا۔ حکومت نے بھارت نواز سیاستدانوں کو قید کرکے ان کے بیانیے کو مٹی میں دفن کردیا ہے جبکہ ان اقدامات سے دو قومی نظریہ ایک بار پھر زندہ ہوا ہے۔ وہ کشمیری جو بھارت کے ساتھ رہنے پر مصر تھے (ان میں ہندو مسلم اور دیگر مذاہب کے افراد بھی شامل ہیں) اس اقدام سے نالاں ہیں۔ بھارتی حکومت نے جس انداز میں یہ فیصلہ کیا ہے، اس سے بھارت نواز کشمیریوں کے سیاسی احساسات مجروح ہوئے ہیں۔ دوسری جانب آرٹیکل کے خاتمے سے وادی میں غیر یقینی صورتحال ہے جو ریاست کی معاشی سرگرمیوں کو تباہ کر رہی ہے۔ بھارتی اقدامات سے قبل سیاحوں کی کثیر تعداد ریاست میں موجود تھی، جسے فوری نکل جانے کے احکامات دیئے گئے۔ اسی طرح وادی کے معاملات کو ہندو مسلم قومیتوں میں تقسیم کرنے کےلیے امرناتھ یاترا کو سیاسی بنایا گیا اور یاتریوں کو خطرناک حالات کا بہانہ بنا کر ریاست سےواپس جانے پر مجبور کیا گیا۔ کشمیری قالین اور شالوں کی صںعت کی برآمدات سے بھارتی حکومت خطیر زر مبادلہ حاصل کرتی تھی، جو ان حالات کے باعث ختم ہورہی ہے۔

معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق اس وقت بھارتی معیشت کی کشتی ہچکولے کھا رہی ہے، مودی سرکار کشمیر کے بارے میں آئینی ترامیم جیسے اقدامات کرکے اپنی معیشت کی تباہی سے لوگوں کی نظریں ہٹانا چاہ رہی ہے۔ اس وقت شہریوں کو ہندو مسلم مباحث اور دیگر معاملات میں الجھایا جا رہا ہے، تاکہ بی جے پی سرکار کی معاشی ناکامیوں پر پردہ ڈالا جاسکے۔

 

مقبوضہ وادی کی تازہ صورتحال


بھارت کے اقدامات سے قبل ہی وادی افواہوں کی زد میں تھی۔ شہریوں نے اے ٹی ایمز سے بڑے پیمانے پر کیش نکلوایا، پٹرول اور راشن ذخیرہ کیا۔ مودی سرکار نے ریاست میں غیر معینہ مدت کےلیے کرفیو لگا دیا ہے۔ تادم تحریر وادی میں بھارتی فوجیوں کی تعداد 8 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ مقبوضہ کشمیر پولیس میں فرائض سرانجام دینے والے پولیس افسران اور اہلکاروں کو مسلح کردیا گیا ہے۔ موبائل فون، ٹی وی، لینڈ لائن اور انٹرنیٹ مکمل طور پر بند ہیں۔ مواصلاتی نظام کی بندش کے باعث وادی عملی طور پر دیگر دنیا سے کٹ چکی ہے۔ بھارت کی دیگر ریاستوں میں تعلیم اور روزگار کےلیے مقیم کشمیری اپنوں سے رابطہ نہ ہونے کے باعث خاصے پریشان ہیں۔ وادی میں صرف متمول خاندان کے افراد باہمی رابطہ کر رہے ہیں۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی یونین لیڈر اور پی ایچ ڈی اسکالر شہلا رشید کے مطابق، گزشتہ دو دنوں سے کشمیری طلبا کا اپنوں سے رابطہ نہیں ہورہا جبکہ عید قریب آنے کے باعث طلبا کو گھروں کو لوٹنا ہے لیکن موجودہ حالات میں ان کےلیے گھروں کو جانا ممکن نظر نہیں آرہا۔

گزشتہ دنوں سری نگر کے علاقے آرام باغ میں بھارتی فورسز نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا بے دریغ استعمال کیا، جس کے باعث 10 کے قریب کشمیری نوجوان زخمی ہوگئے، جنہیں شیر کشمیر انسٹی ٹیویٹ آف میڈیکل سائنسز میں منتقل کیا گیا۔ اسپتال میں ڈاکٹروں مطابق تین افراد کی حالت تشویشناک تھی۔

 

پاکستان اب کیا کرسکتا ہے؟


آئینی ماہرین کے مطابق بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کرکے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماری ہے۔ ہندوستان نے کشمیر سے متعلق آئین کی اس دفعہ کے خاتمے کا اعلان کیا ہے جس کے تحت ریاست کا مشروط الحاق ہوا تھا۔ اب بھارت اپنے اٹوٹ انگ کے نعرے سے خود ہی مکر گیا ہے، جس کے بعد کشمیر کی آزادانہ حیثیت ہے، جو 15 اگست 1947 سے قبل تھی۔ حکومت پاکستان کو بھارت سے اپنے سفارتی تعلقات ختم کرکے سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرنا چاہیے۔ اقوام عالم کو بھارتی سازشوں سے باخبر کرتے ہوئے بھارت کا چہرہ بے نقاب کرنا چاہیے۔ حکومت پاکستان اس وقت مسئلہ کشمیر کو بہترین سفارتی انداز میں اجاگر کر پائی تو کشمیریوں کو ان کا بنیادی حق اور حق خود ارادیت مل سکتا ہے۔ اس وقت حکومت پاکستان پر منحصر ہے کہ وہ کشمیر کی آزادی کےلیے کتنا مؤثر کردار ادا کرسکتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں