سیاسی ڈرامے بازیاں

ان سیاسی ڈرامے بازوں کی اپنی اولاد یورپ میں پل رہی ہے، وہاں کی وفاداری ان کے لیے زیادہ اہم ہوتی ہے


محمد عارف میمن August 07, 2019
افسوس کہ ہماری سیاست میں اخلاقیات کے بجائے سیاسی ڈرامے بازیوں کا زیادہ عمل دخل ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

طالب علمی کے زمانے میں ہر 14 اگست کی آمد سے قبل ہی اس کی بھرپور تیاریاں عروج پر پہنچ جایا کرتی تھیں۔ تمام طلبا ہر وقت کچھ نیا کرنے کی جستجو میں لگے رہتے تھے۔ جشن آزادی سے قبل ہی طلبا قومی پرچم کے لباس زیب تن کیے اسکول جانا شرو ع کردیتے، جن کے سینے پر چاند تارا کا بیج بھی ہوا کرتا تھا۔ یکم اگست سے ہی ہماری بھرپور کوشش ہوتی تھی کہ آرمی سلوگن پیش کیا جائے کہ کس طرح ہمارے جوانوں نے وطن عزیز کےلئے قربانیاں دیں اور دے رہے ہیں۔

ہمارے قابل محترم اساتذہ بھی ہمارے ساتھ لمحہ بہ لمحہ ہماری رہنمائی کےلئے ساتھ ہوا کرتے تھے۔ کوئی میجر عزیز بھٹی شہید کا رول پلے کرنے کی تیاری کررہا ہوتا تو کوئی راشد منہاس شہید کے کردار میں خود کو ڈھالنے کی مشق میں مصروف نظر آتا۔ اسکاؤٹ پیریڈ کے دوران بھی ہمیں جنگی ماحول جیسے کردار ادا کرائے جاتے اور انہی پر ہمیں ٹریننگ دی جاتی۔ یہ تمام باتیں سرکاری اسکول کی ہیں، جہاں سے ہم نے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔

ہمارے اساتذہ ہمیں ہر وقت ایک ہی چیز باور کرایا کرتے تھے کہ بڑے ہوکر فوج میں جانا تاکہ جس ملک نے تمہیں پہچان دی ہے تم اس کےلئے اپنا آپ قربان کردو۔ اساتذہ کی باتیں اور پی ٹی وی پر چلنے والے فوجی کرداروں پر مشتمل ڈراموں، جن میں سرفہرست 'الفا، براوو، چارلی'، 'دھواں' اور پاک فوج کے شہداؤں کے نام سے منسوب ڈرامے دیکھ کر ہمارا جذبہ وطن عزیز اور خاص کر پاک فوج کےلئے انتہا کو چھو جاتا تھا۔ تاہم آج سرکاری اسکولوں کا تو حال ہی مت پوچھیے، رہی سہی کسر پرائیوٹ اسکولوں نے پوری کردی ہے۔ جہاں پاک فوج سے متعلق تو دور، وطن عزیز کےلئے قربان ہونے کی بات بھی نہیں کی جاتی۔

گزشتہ جشن آزادی پر ایک اسکول کی تقریب میں جانا ہوا، جہاں ڈانس پارٹی کے سوا بچوں کو کچھ نہیں سکھایا گیا۔ ایک دو نیشنل تھیم پر صرف ٹیبلو پیش کیا گیا، جب کہ اسکاؤٹ پیریڈ تو اب تمام اسکولوں سے بالکل ہی ختم ہوچکا ہے۔

چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں حاصل بزنجو کا میڈیا کے سامنے آئی ایس آئی کو برا بھلا کہنا جہاں ایک طرف انتہائی ناگوار گزرا، وہیں میڈیا پر اسے مزید پیچیدہ اور توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے فرمایا تھا کہ پاک فوج ہماری دفاع کی آخری لکیر ہے۔ انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے قیام کے بعد جس تیزی اور بھرپور کارکردگی سے اس نے پوری دنیا میں اپنا سکہ جمایا، وہیں ہمیشہ سے اسے ملک کے اندر ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ دنیا آئی ایس آئی کی تعریف کرتے نہیں تھکتی۔ اور ہم اپنے ہی ہوکر نشیمن پر بجلی گرانے سے باز نہیں آتے۔ ہمارے بچوں کے دماغ میں جہاں پاک فوج کےلئے زہر ڈالا جارہا ہے، وہیں آئی ایس آئی سے بھی نفرت کرنے پر اکسایا جارہا ہے۔ ہم اپنے دفاع کو خود اپنے ہاتھوں سے کمزور کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے حکمران ہیں، جنہوں نے اپنے سیاسی روزگار کےلئے ہر برے کام میں ملوث ہونے کا بھرپور ثبوت دیا، لیکن الزام ہمیشہ پاک فوج پر لگایا۔ مانتا ہوں پاک آرمی کوئی فرشتوں کی جماعت نہیں اور نہ ہی اس میں سارے فرشتے بھرتی کیے گئے ہیں۔ وقت پڑنے پر آسمانی فرشتوں کی جماعت ہمیشہ ان پر اپنا سایہ بناکر چلتی ہے۔ ہماری فوج کو برا کس نے بنایا؟ کس نے انہیں سیاست میں لانے کی سوچ کو پروان چڑھایا؟ کس نے آئی ایس آئی کا سہارا لے کر حکومت کے مزے لوٹے؟ آئی ایس آئی کے سامنے اپنے ضمیر کو کس نے فروخت کیا؟ آج یہ لوگ آئی ایس آئی کو برا بھلا کس منہ سے کہہ رہے ہیں جن کی پارٹی کے قائدین کسی دور میں ان ہی کی گود میں بیٹھ کر اپنے دشمنوں کو ڈرا دھمکا کر اپنا مقصد پورا کرتے تھے۔

کسی ایک کے گناہ کی سزا تو پورے گھر والوں کو بھی نہیں دی جاتی، مگر یہاں تو بساط ہی الٹی چلتی آرہی ہے۔ کسی جنرل نے اگر ان کا ساتھ نہیں دیا تو پوری فوج کو بدنام کردو۔ کسی آئی ایس آئی افسر نے ان کو لفٹ نہیں کرائی تو پورے ادارے کو بدنام کردو۔ موجودہ صورت حال میں صرف یہ ہی نظر آتا ہے کہ تمام کام فوج کے ذمے ڈال کر خود بری ہوجاؤ۔ اگر کچھ دیر کےلئے مان لیا جائے کہ پس پردہ فوج ہی ملک کو چلارہی ہے تو پھر آپ لوگ کیوں عوام کو بے وقوف بنانے پر تلے ہوئے ہو۔ آپ اپنی سیاسی ڈرامے بازیوں سے جہاں عوام کو لوٹنے میں مصروف ہو، وہیں سارا ملبہ فوج پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دے رہے ہو؟

ہمارے سیاست دانوں سے ہماری نسلیں سیکھتی ہیں اور جو کچھ آج کل ہمارے حکمران ٹی وی اور اخبارات میں بیانات دے رہے ہیں، اس سے ہماری آنے والی نسلیں جو سیکھ رہی ہیں وہ پاکستان کے مستقل کےلئے انتہائی خطرناک ثابت ہونے والا ہے۔ ہم اپنی دفاع کی آخری لکیر کو پار کرنے کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔ ہم پاکستان کو مضبوط بنانے کے بجائے کمزور کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اور یہ سب دشمن کی ایما پر کیا جارہا ہے۔

بھلا ایک سبزی فروش، نان بائی، گل فروش اور ٹھیلے والا ملک کو کمزور کرنے کی صلاحیت کیسے رکھ سکتا ہے؟ اول تو اس کے پاس وسائل نہیں اور دوسری اہم بات حکمرانوں نے انہیں اس قابل بھی نہیں چھوڑا کہ وہ دو وقت کی روٹی کے چکر سے آزاد ہوسکیں۔ انہیں تو صرف مفلوج بناکر رکھ دیا ہے۔ لیکن اگر اسی سبزی فروش، نان بائی، گل فروش اور ٹھیلے والے کے دل میں آئی ایس آئی اور پاک فوج کے خلاف زہر بھر دیا جائے تو اس کی آنے والی نسل بھی اس سے نفرت کرنے لگے گی۔ اکثر باپ کی نفرت کو بیٹا ہی پروان چڑھاتا نظرآیا ہے، اور یہ سب کچھ اس وقت ملک میں ہورہا ہے۔

ان سیاسی ڈرامے بازوں کی اپنی اولاد یورپ میں پل رہی ہے اور وہیں سے پڑھائی مکمل کرنے کے بعد باپ کی پکی نوکری انہیں تھالی میں رکھ کر پیش کی جاتی ہے۔ جب یہ لوگ باہر سے پڑھ لکھ کر آئیں گے تو وہاں کی وفاداری ان کے لیے زیادہ اہم ہوتی ہے۔ ایسے میں آپ ان سے کس طرح خیر کی توقع کرسکتے ہیں۔ ایک دن انہیں سپاہی کا کردار ادا کرنے کا کہا جائے تو ان کی ساری اکڑ ختم ہوجائے۔

ہمارا ایک، ایک سپاہی ملک وقوم کےلئے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر سرحدوں کی حفاظت میں دن رات مصروف ہے، اور ہم راتوں کو سکون سے ٹی وی پر بیٹھ کر ان کی برائیاں کرنے میں زمین و آسمان ایک کردیتے ہیں۔ ہمارے سیاسی ڈرامے باز یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جنگیں فوج ہی لڑتی ہیں اور اگر فوج کمزور ہوگی تو کیا وہ خاک آپ کی حفاظت کرے گی؟ ان سیاسی ڈرامے بازوں کو اگر ذرا سی بھی شرم ہو تو وہ فوری اپنی سیکیورٹی پر مامور جانثاروں کو واپس اپنی اپنی پوزیشن پر جانے کا آرڈر دے دیں۔ لیکن یہ لو گ ایسا نہیں کریں گے، کیوں کہ یہ لوگ مرنے سے بھی بہت ڈرتے ہیں، انہیں اپنی جان بھی بہت عزیز ہے۔

سیاسی ڈرامے بازوں کےلئے صرف اتنا ہی کہوں گا کہ نسلوں کو برباد کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا اور نہ ہی آئی ایس آئی کو برا بھلا کہنے سے کچھ ہوگا۔ پاکستان تاقیامت قائم رہنے کےلئے وجود میں آیا ہے، لیکن اتنا ضرور ہے کہ تم قیامت تک جی نہیں سکو گے، بلکہ تاریخ کے صفحات پر عبرت کا نشان بن کر رہو گے۔ اس لیے گزارش ہے کہ پاکستان سے جھوٹی محبت کا بھرم رکھنے کےلئے پاک فوج اور آئی ایس آئی کو گندا کرنے سے پرہیز کیجئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں پچھتاوے کا موقع بھی نہ مل سکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں