شام پر عالمی برادری تذبذب کا شکار

افغان جنگ نے امریکا کا بھرکس نکال دیا ہے اور اب وہ اپنا بھرم قائم رکھنے کے لیے شام کو دھمکیاں لگا رہا ہے.


[email protected]

بارہ برس قبل جب امریکا افغانستان پر چڑھ دوڑا تب اس وقت بھی امریکی معیشت کا برا حال تھا اور اس کے داخلی معاملات بھی خصوصی توجہ کے طالب تھے مثلاً وسیع پیمانے پر بے روزگاری، منشیات، جرائم پیشہ عناصر، عدم مساوات ... لیکن امریکا نے یہ مسائل حل کرنے کے ضمن میں اپنی نا اہلی کو اپنے اس (بظاہر پر اعتماد) موقف میں بدل دیا کہ ان سنگین مسائل کو میزائلوں اور بندوقوں کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے لیکن امریکا اور اس کے اتحادیوں کا یہ موقف در حقیقت خود اپنی ہی اقوام کے لیے باطن میں ایک دھوکا تھا اور تصادم و جنگ کی حکمت عملی نے بالخصوص امریکا کو تباہی اور اس کی معیشت کو بربادی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ماہرین کا ایک طبقہ امریکا کی برباد معاشی صورتحال کے پیش نظر اس امر پر متفق ہے کہ امریکا کی جانب سے شام پر حملے کی دھمکیاں درحقیقت گیدڑ بھبکیاں ہیں اور شام امریکا کے لیے تر نوالہ نہیں بلکہ لوہے کے چنے ثابت ہو گا۔ ویسے بھی حقیقی صورتحال یہ ہے کہ افغان جنگ نے امریکا کا بھرکس نکال دیا ہے اور اب وہ اپنا بھرم قائم رکھنے کے لیے شام کو دھمکیاں لگا رہا ہے لیکن شام پر حملے کی جرأت اب اس کے بس کی بات نہیں رہی...!

گزشتہ دنوں 9/11 کے بارہ برس مکمل ہونے پر سانحہ نائن الیون کی تقریبات پر خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر باراک اوباما نے امریکی عوام کو یہ یقین دہانی کروائی کہ شام پر زمینی حملہ نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی ان کے خلاف افغانستان کی طرز پر کوئی لمبے عرصے تک کارروائی ہو گی۔ امریکی صدر نے اپنے خطاب میں اس حقیقت کا اعتراف و اظہار کیا کہ امریکی قوم جنگوں سے تنگ آ چکی ہے۔ شام کے خلاف کسی کارروائی میں محدود پیمانے پر فضائی حملے کیے جائینگے جس کا مقصد شامی صدر بشارالاسد کو کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے روکنا ہے۔ ممکنہ حملے کے بعد شام کے مسئلے کے سیاسی حل کے لیے کوششیں دوگنا کی جائیں گی اور امریکا، فرانس، برطانیہ، چین اور روس کے ساتھ ملکر شام کو کیمیائی ہتھیار تلف کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق کام کریگا، شام کے کیمیائی ہتھیار امریکا اور ساری دنیا کے لیے خطرہ ہیں۔ ہم ایسی دنیا قبول نہیں کر سکتے جہاں خواتین بچوں اور معصوم شہریوں کو کیمیائی ہتھیاروں کا نشانہ بنایا جاتا ہو۔ انھوں نے کہا کہ امریکا اپنی سلامتی کے پیش نظر شامی بحران سے نمٹنے کے لیے کوئی بھی فیصلہ اپنے بہترین مفادات کو سامنے رکھ کر کرے گا۔

جب کہ شام پر حملے کے حوالے سے امریکا تا حال اقوام متحدہ کی چھتری سے محروم ہے اور سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل اراکین شام پر عالمی مداخلت کے حوالے سے منقسم ہیں۔ امریکا، برطانیہ اور فرانس ایک جانب تو روس اور چین دوسری جانب ہیں۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں چیپٹر سیون اقوام عالم کو یہ اختیار دیتا ہے کہ اگر کسی ملک میں انسانیت کا قتل عام کیا جائے اور شہریوں کے خلاف مہلک ہتھیار استعمال کیے جائیں تو عالمی طاقتیں اس ملک میں بین الاقوامی قوانین کے تحت مداخلت کر سکتی ہیں، لیکن روس اس امریکی الزام کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ شام کی حکومت نے باغیوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال نہیں کیے ہیں اور اس الزام کے کوئی ٹھوس ثبوت بھی موجود نہیں ہیں۔

امریکا کا کہنا یہ ہے کہ شام میں حکومتی فورسز کی جانب سے اپنے ہی عوام کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کے ٹھوس شواہد اس نے ہلاک یا زخمی ہونے والوں کے خون کے نمونوں کے تجزیے سے حاصل کیے ہیں جو کہ ناقابل تردید ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا کہنا ہے کہ اگر شام کے خلاف فوجی کارروائی نہ ہوئی تو ایران سمجھے گا کہ امریکا کمزور ہو گیا ہے۔ حالانکہ شام میں معصوم انسانوں کے خلاف استعمال ہونے والے کیمیائی ہتھیار کی پر زور مذمت خود ایران کے صدر حسن روحانی نے بھی کی ہے اور تازہ ترین رپورٹ میں جو کہ شام کے حوالے سے انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ نے پیش کی ہے اس میں واضح کہا گیا ہے کہ شام میں تمام فریق جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب ہیں، رپورٹ میں کہا گیا کہ بڑے پیمانے پر تشدد اور جنسی استحصال کے واقعات پیش آ رہے ہیں جب کہ شامی فورسز پر کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام اب تک ثابت نہیں ہو سکا ہے، شام کے باغی اور غیر ملکی جنگجو جنگی جرائم میں ملوث ہیں۔

بہرحال اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ امریکی قوم جنگوں سے تنگ آ چکی ہے، اس بات کا اقرار و اظہار خود امریکی صدر تو کر ہی چکے ہیں نیز شام پر امریکی حملے کے حوالے سے امریکا میں منعقدہ ایک حالیہ جائزے میں بھی بذات خود امریکی عوام نے شام میں امریکی مداخلت کی سب سے زیادہ مخالفت کی ہے۔ جائزے کے مطابق 56 فیصد امریکی کسی بھی ایسی کارروائی کے مخالف ہیں جب کہ صرف 19 فیصد امریکی شام میں امریکی مداخلت کے حامی ہیں اور 25 فیصد کا موقف ہے کہ انھیں نہیں معلوم کہ امریکا کو شام کے معاملے میں کیا طرزعمل اپنانا چاہیے! اس کے علاوہ ایک اور سروے میں جس میں کیمیائی حملوں کو جواز بنا کر امریکی عوام کی رائے معلوم کی گئی تو صرف دو فیصد امریکیوں نے امریکی موقف کی حمایت کی جب کہ 48 فیصد نے مخالفت کی اور دیگر 24 فیصد نے لاعلمی کا اظہار کیا جب کہ امریکا میں ایک اور جائزے سے معلوم ہوا کہ شام کے مسائل کا امریکا سے کوئی تعلق نہیں۔

علاوہ ازیں برطانیہ میں اسی طرح کے جائزے سے سامنے آیا کہ 58 فیصد برطانوی اس بیان سے متفق ہیں، 29 فیصد برطانویوں نے حمایت کی جب کہ 49 فیصد نے مخالفت کی اور دیگر 21 فیصد برطانویوں نے لا علمی کا اظہار کیا۔شام کی صورتحال پر امریکا اور روس آمنے سامنے ہیں اور دونوں کے جنگی بیڑے خلیج فارس پہنچ چکے ہیں اور مزید پہنچ رہے ہیں، چین نے بھی روس کے موقف کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور ایران کی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل حسن فیروز آبادی نے متنبہ کیا ہے کہ اگر امریکا اور روس کے اتحادیوں کی جانب سے کوئی بھی ممکنہ حملہ ہوا تو اس کا نتیجہ اسرائیل کے لیے تباہی کی صورت میں نکلے گا اور شام کے خلاف کوئی بھی فوجی اقدام صیہونیوں (اسرائیل) کو جہنم میں کھینچ لے جائے گا۔

مشرق وسطیٰ میں کوئی بھی نئی جنگ اس خطے کے لیے عظیم نقصان کا موجب ثابت ہو گی جس کے اثرات محض مسلم برادری تک ہی محدود نہیں رہیں گے بلکہ امریکا، برطانیہ، فرانس اور ان کے دیگر اتحادی بھی شدید متاثر ہونگے لہٰذا اس تمام صورتحال اور حقائق کے پیش نظر شام پر حملے کے حوالے سے عالمی برادری تذبذب اور امریکا و اتحادی مخمصے میں گرفتار ہیں، ریپبلکن میڈیا کھلم کھلا اس بات کا اظہار کر رہا ہے کہ اگر مسلم دنیا آپس میں لڑ رہی ہے، باہم دست و گریباں اور ایک دوسرے کو مارنے میں مصروف ہیں تو امریکا کو لڑائی میں کودنے کی بالکل ضرورت نہیں بعض امریکی اہل دانش و اہل فکر و نظر شام کے بحران کے ضمن میں امریکا کو مسئلہ شام کا سفارتی حل ڈھونڈھنے کی ترغیب دیتے بھی نظر آتے ہیں، امریکی تھنک ٹینک اور اہل علم اس بات سے خوب واقف ہیں کہ اگر امریکا نے شام پر حملے کی غلطی کی تو بلا شبہ امریکا اپنے فنا کی ایسی عظیم ہولناک نئی جنگ میں کود پڑے گا جو تیسری عالمی جنگ میں تبدیل ہو جائے گی اور یہ تیسری عالمی جنگ آخری صلیبی جنگ ثابت ہو گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔