مدد چاہتی ہے یہ حوّا کی بیٹی

غربت، بے چارگی ، احساسِ ذلّت ، رسوائی یا مجرموں کی طاقت کی آگ کا ایندھن بن کر کوئی آواز کیے بغیرجل کر خاک ہوجاتی ہے


Amjad Islam Amjad September 18, 2013
[email protected]

کچھ واقعات اور موضوعات ایسے ہوتے ہیں جن پر لکھنا ضروری تو ہوتا ہے مگر بعض اوقات دماغ اور قلم دونوں ساتھ دینے سے انکاری ہوجاتے ہیں کچھ ایسی ہی صورتِ حال اس وقت پانچ سالہ معصوم بچی سنبل سے ہونے والی رُوح فرسا اور اندوہناک واردات کے ضمن میں درپیش ہے جس نے ہر صاحب دل کے ضمیر کو جھنجھوڑ اور تڑپا کر رکھ دیا ہے کہ اس طرح کے واقعات تو شاید جنگل کے معاشرے میں بھی اس سفّاکی اور بے دردی سے رونما نہ ہوتے ہوں اس پر مستزاد ہمارے میڈیا میں اُچھالی جانے والی وہ تجزیاتی رپورٹیںہیں جو مسئلے کی حقیقت اور وجوہات کو واضح کرنے کے بجائے ایک ایسی سنسنی خیزی کو ہوا دے رہی ہیں جس کا منطقی انجام دھیان کا وہی سرد خانہ ہوگا جس میں اس سے پہلے بھی کئی حشر خیز واقعات کو ایک بے نام فراموشی کی نیند سلایا جاچکا ہے۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ کا از خود نوٹس اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے پُر زور بیانات اپنی جگہ بہت اہم اور بروقت سہی لیکن اصل بات اس واقعے کے ذمے دار مجرموں کی شناخت اور ان وجوہات کا تعین ہے جو اس سانحے کا مٔوجب بنیں اور دیکھا جائے تو اپنی تمام تر اہمیت کے باوجود یہ کوئی انوکھی یا نئی واردات نہیں کہ چھوٹی عمر کی کمزور ، معصوم ، نہّتی اور مظلوم بچیوں کو ہَوس اور جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کی یہ کہانی ہر روز دہرائی جاتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کسی نہ کسی وجہ سے اس نوع کی دس میں سے نو خبریں میڈیا یا پولیس میں رپورٹ نہیں ہو پاتیں اور غربت، بے چارگی ، احساسِ ذلّت ، رسوائی یا مجرموں کی طاقت کی آگ کا ایندھن بن کر کوئی آواز کیے بغیرجل کر خاک ہوجاتی ہے۔

مرد کے عورت پر اس جنسی تشدّد کی کہانی بہت پرانی سہی مگر نابالغ اور بہت چھوٹی بچیوں کے ساتھ اس فعلِ قبیح کے ارتکاب میں جو اضافہ گزشتہ چند برسوں سے دیکھنے میں آرہا ہے اس کی مثال شاید تاریخ کے کسی بھی دور میں مشکل سے ہی مل سکے گی ۔ عام طور پر اس میں سنِ بلوغت کو تازہ تازہ پہنچنے والے آوارہ اور بُری صحبت کا شکار لڑکے ملوّث پائے جاتے تھے لیکن حالیہ وارداتوں میں بہت سے بڑی عمر کے شادی شدہ اور بچوں والے جنسی درندے بھی اس میں مبتلا پائے گئے ہیں۔ ماہرین کے تجزیے کے مطابق اس کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن ان سب کا انجام ایک ایسی بے قابو شہوت انگیزی پر ہوتا ہے جس میں جنسی غلبے سے مغلوب ہوکر درندہ صفت لوگ معصوم بچیوں کو اس لیے بھی ہَوس کا نشانہ بناتے ہیں کہ وہ نہ تو اُن کی نیت اور ارادے کو صحیح طرح سے سمجھ سکتی ہیں اورنہ ہی اپنا دفاع کرنے کی پوزیشن میں ہوتی ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اکثر یہ بد کردار اور وحشی لوگ اپنی ہوس پوری کرنے کے بعد شناخت کے ڈر سے متعلقہ معصوم بچی کو قتل بھی کر دیتے ہیں یہ کیسی خوفناک اور لرزا دینے والی بات ہے کہ اکثر بچ جانے والی بچیاں اور اُن کے والدین زندگی بھر قتل ہونے کے اس عمل سے گزرتے رہتے ہیں اور اکثر یہ فریاد کرتے بھی پائے جاتے ہیں کہ اس روز روز کی موت سے ایک بار کی موت کہیں بہتر تھی۔

اس مسئلے پر فلسفے ، معاشی دبائو، سماجی تربیت ، مذہب اور انسان کے اندر موجود حیوانیت کے حوالے سے بہت کچھ لکھا اور کہا گیا ہے ۔ بعض لوگ اس کی ذمے داری ، فحش ادب ، گندی فلموں اور میڈیا میں پیش کی جانے والی شہوانی تحریکات پر بھی ڈالتے ہیں اور کچھ کے خیال میں اس کی وجہ قانون کے خوف کا نہ ہونا اور غربت یا کسی اور وجہ سے جنسی جذبات کے نارمل ، قانونی اور باقاعدہ وسائلِ اظہار کی کمی یا عدم موجودگی بھی ہو سکتی ہے کہ ایسے واقعات زیادہ تر غریب ، گنجان آباد اور رسم و رواج زدہ آبادیوں میں ظہور پذیر ہوتے ہیں مثال کے طور پر ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بھی اس طرح کے واقعات کی تعداد بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے حالانکہ وہاں فریقین کی رضامندی سے قائم ہونے والے ناجائز جنسی تعلقات اب روزمرہ کی بات بنتے جارہے ہیں۔

وطنِ عزیز میں اگرچہ اس طرح کے مجرموں پر گرفت کرنے کے لیے انگریزی قوانین اور حدود آرڈیننس دونوں موجود ہیں لیکن انھیں آدھا تیتراور آدھا بٹیر بنا دیا گیا ہے جس کا عملی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ گناہ گار مرد تو اکثر جھکائی دے کر نکل جاتے ہیں مگر اس ظلم کی شکار عورتیں اور بچیاں ایک طرح سے زندہ درگور ہوجاتی ہیں کہ ہمارے علماء حضرات نے نہ تو اس مسئلے کو اس کے مکمل تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی اجتہاد کی اُس نعمت سے کام لیا ہے جو رب کریم اور اُس کے پیارے ، منصف مزاج اور غریبوں کے دوست نبی پاکؐ نے ہماری قوم کو خاص طور پر عطا کی ہے۔

جوعلماء حضرات اس طرح کے حادثات کی شکار بچیوں خواتین اور ان کے اہلِ خانہ کو چار شرعی اور چشم دید گواہان کی عدم موجودگی کے باعث خاموش رہنے اور اس واردات پر پردہ ڈالنے کا مشورہ دیتے ہیں اُن کا حکم اور مشورہ سر آنکھوں پر لیکن ہمارے ایک دوست کا سوال ہے کہ اگر خدانخواستہ اس طرح کا کوئی حادثہ اُن کی کسی بچی کے ساتھ پیش آجائے تو کیا پھر بھی وہ اُسے اور اپنے اہلِ خانہ کو یہی مشورہ دیں گے؟

اس سے پہلے کہ یہ خوفناک واقعہ بھی اُس وقت تک ایک بُھولی بسری یاد کی شکل اختیار کرلے جب تک حوّا کی کوئی اور بیٹی اس ظلم کا شکار نہ بن جائے ۔ آئیے ایک بار سب لوگ اپنے اپنے دلوں پر ہاتھ رکھ کر اور دماغوں کی کھڑکیاں کھول کر اِس پر غور کریں اور اس فیصلے میں علماء حضرات اور ان مظلوم خواتین اور بچیوں کی آہوں اور کراہوں کو بھی شامل کریں کہ یہ کسی ایک کا نہیں ہم سب کا اجتماعی مسئلہ ہے۔ عاطف حسین عاطف کی عمر کا مجھے اندازہ نہیں کہ میں اُسے عزیزم ، برادرم یا محترم کس القاب سے مخاطب کروں البتہ جو نظم مجھے اس نے بذریعہ ایس ایم ایس بھجوائی ہے وہ اپنا تعارف اور حوالہ آپ ہے اور میں اسے آپ تک پہنچانا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ یقینا میری طرح آپ بھی اس کی بازگشت اپنی روح میں محسوس کریں گے ۔

نظم کا عنوان ہے ۔ چار گواہ

اے میرے دنیاوی منصف

میں ہوں سنبل

میرے پاس گواہی میں بس ننھے مُنے

سے ہاتھوں کے کچے چھوٹے ناخن ہیں جو

میں نے اُس انسان نما خنزیر کی بانہوں

میں گاڑے تھے

چیخی تھی، چلاّئی تھی میں

ایک گواہ بس وہ چیخیں کہ جو اَب

تک دیواروں میں گونج رہی ہیں

مجھ کو خواب میں دہلاتی ہیں

سوتے سوتے ڈرتی ہُوں میں

.........

ایک گواہی میری آنکھیں

جن میں میرے خواب تھے پہلے

اب توبس اک وحشت ہے جو

میں نے آنکھوں سے دیکھی ہے

اور پھر آنکھوں میں بھرلی ہے

.........

ایک گواہی وہ کلمہ ہے ، پہلا کلمہ

کل ہی سیکھ کے گھر آئی تھی

کل ہی تو سیکھا تھا میں نے

سب ہی یہ کہتے تھے مجھ سے

پہلے کلمے جیسی ہُوں میں

اے میرے دنیاوی منصف

پہلے کلمے جیسی تھی میں!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں