سیاسی استحکام اور معاشی ترقی
ملک میں سیاسی حالات اس قابل نہیں کہ یہاں سرمایہ کاری کی جاسکے
ملک کے ابتر ہوتے ہوئے معاشی حالات کی وجہ سے ہر ذی شعور پاکستانی پریشانی کا شکار ہوتا جا رہا ہے اور ان عوامل پر زیادہ غوروفکرکر رہا ہے کہ آخر ملک کے معاشی حالات دن بہ دن خراب کیوں ہوتے جا رہے ہیں؟ ان امور کا جب گہرا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ معیشت اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔کسی بھی ریاست کی سلامتی ،استحکام اور باوقار ہونے کے لیے معیشت کا مستحکم ہونا لازمی امر ہے، بالکل اسی طرح معیشت کے استحکام کے لیے ریاست میں سیاسی استحکام کا ہونا بھی لازمی امر ہے۔
سیاسی عدم استحکام کے بطن سے مستحکم معیشت کو جنم نہیں دیا جاسکتا جسکی ایک تازہ اور واضح مثال یہی ہے کہ 2017 میں نواز شریف کو جیسے ہی عدالتی احکامات پر اقتدار سے معزول کیا گیا، تیز رفتار ترقی میں رکاوٹیں حائل ہونا شروع ہوگئیں، بڑھتی ہوئی اسٹاک مارکیٹ نیچے آنے لگی ، زر مبادلہ کے ذخائر گھٹنے لگے ، ترقی کی شرح میں کمی آنے لگی ، مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہونے لگا ، ڈالرکی قدر میںاضافہ اور پاکستانی کرنسی کی قدر میں کمی آنے لگی، پی ایس ڈی پی میں ہونے والا اضافہ کمی کا شکار ہوگیا اور اس طرح کے تمام رجحانات سے جو حقیقت واضح ہوئی وہ یہ تھی کہ جس طرح کسی بھی ریاست کی معاشی ترقی کے لیے اُس ریاست میں امن و امان ، جدید انفرا اسٹرکچر ، توانائی کی وافر مقدار اور سرمایہ کاری دوست ماحول کا ہونا ضروری ہوتا ہے اسی طرح ریاست میں سیاسی استحکام اور اس کے تسلسل کا ہونا بھی بیحد ضروری ہوتا ہے۔آج ملک کو جن چیلنجزکا سامنا ہے اس کی ایک بڑی وجہ ملک میں غیر یقینی سیاسی حالات بھی ہیں۔
ملک اور بیرون ملک پاکستان کی جو تصویر پیش کی جا رہی ہے اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں سیاسی حالات اس قابل نہیں کہ یہاں سرمایہ کاری کی جاسکے اور یہ تاثر حکومت کی پالیسیوں سے روز بروز زیادہ پختہ ہوتا جا رہا ہے۔ ملک میں کرپشن کے خلاف آپریشن کے نام پر اس وقت ملک کی حزبِ اختلاف کی بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت کی گرفتاری کے بعد اُبھرنیوالا یہ تاثر اس وقت مزید گہرا ہوگیا جب ایک اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کوگرفتار کرلیا گیا ۔
ایسے اقدامات کسی طور معاشی استحکام کا سبب نہیں بن سکتے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت کو اپنی ایک سال کی کارکردگی سے کچھ سبق سیکھنا چاہیے تھاکہ ایسے کیا اقدامات اُٹھائے جائیں جسکے نتیجے میں ایسی معاشی سرگرمیوں کا آغاز ہو سکے جس سے ٹیکس نیٹ میں اضافہ ہو، نئے افراد ٹیکس دینا شروع کریں ، ریاست کی آمدنی بڑھے، پہلے سے ٹیکس ادا کرنیوالوں پر ریاست کے اخراجات کا بوجھ نہ بڑھایا جائے اور ساتھ ہی ساتھ روزگارکے نئے مواقعے پیدا ہوں تاکہ بیروزگاری کی اذیت سے بھی نجات حاصل کی جاسکے اور غربت میں بھی کمی آسکے لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان دوریاں بڑھتی جا رہی ہیں۔سیاسی پولرائزیشن کی وجہ سے اب ملک بھر میں اپوزیشن کی احتجاجی سیاست کا آغاز ہوچکا ہے جسکا یقینی نتیجہ مزید معاشی سرگرمیوں کے محدود ہونے کی شکل ہی میں نکلے گا۔
حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کی اب تمام تر ذمے داری اس پر عائد ہوتی ہے۔اب غربت ، مہنگائی اور بیروزگاری میں ہونیوالے اضافے، امن وامان کی خرابی، توانائی کے بحران ، انفراسٹرکچر کی عدم دستیابی اور عالمی سطح پر اگر کوئی دباؤ یا ناکامی ہوتی ہے ، تو اس کی ذمے دار حکومت ہوگی نہ کہ اپوزیشن کی جماعتیں۔تحریک انصاف کی حکومت کی یہ بڑی خوش قسمتی ہے کہ اب تک اُسے ملک کی مقتدر قوتوں کی مکمل حمایت حاصل ہے اور دوسری جانب اب بھی عوام کو کچھ نہ کچھ اُمید ہے کہ شاید سب ٹھیک ہوجائے گالیکن یہ آس زیادہ برقرار نہیں رہ سکے گی کیونکہ عوام محض نعروں سے نہیں بہل سکتے انھیں بہرحال کچھ نہ کچھ توکارکردگی بھی دکھانا ہی ہوگی اور کارکردگی دکھانے کے لیے حکومت کو ریاست میں سیاسی استحکام پیدا کرنا ہو گا۔ کرپٹ عناصرکی سرکوبی ضرورکی جائے لیکن اس میں غیر جانبداری کو برقرار رکھا جائے تاکہ احتساب کا عمل شکوک کا شکار نہ ہو اور پوری اپوزیشن کو جیل میں ڈال کر یا دیوار سے لگا کر ریاست میں سیاسی استحکام پیدا کرنے کے تاثرکو زائل کرنا ہوگا۔
حکومت کو ایسے دورس اقدامات کرنے ہونگے جس سے ریاست میں سیاسی جماعتوں کے مابین اور بالخصوص حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پیدا ہونے والی دوریوں اور تلخیوں کو ختم کرکے ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہو، تاکہ معاشی ترقی کے ایک نکاتی ایجنڈے پر بیٹھا جا سکے اس کام میں تاخیر ناقابل تلافی ہو گی جس طرح ماضی کی ذمے داری ماضی کے حکمرانوں یعنی آج کی اپوزیشن جماعتوں پر عائد کرکے ان سے حساب طلب کیا جا رہا ہے، اسی کلچر کے مطابق مستقبل میں آج کے حالات کا حساب آج کے حکمرانوں سے طلب کیا جائے گایقینا یہ سوال کیا جائے گا کہ ترقی کی شرح میں کمی کیوں واقع ہوئی، غربت کیوں بڑھی،مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ کیوں ہوا، ترقیاتی پروجیکٹ روکنے کے باوجود ملکی قرضوں میں بے پناہ اضافہ کیوں ہوا، قومی بجٹ میں تعلیم ، صحت اور دیگر مدوں میں کٹوتی کیوںکی گئی جب کہ حکومت قومی محصولات میں اضافہ کا دعوی اور اعلان کرتی رہی، شرح سود میں مسلسل اضافہ کیوں کیا جاتا رہا؟یہ اور اس طرح کے کئی مزید سوالات کا موجودہ حکومت کو مستقبل قریب میں سامنا کرنا ہوگا۔
پاکستان کے با شعور عوام آج کی اپوزیشن جماعتوں کے اس طرزِ عمل کی پذیرائی کرتے ہیں کہ انھوں نے 25جولائی 2018کے انتخابات کو دھاندلی زدہ ضرور قرار دیا لیکن تحریک انصاف کی حکومت کو کسی رکاوٹ کے بغیر ایک سال کام کرنے اور کارکردگی دکھانے کا پورا موقع بھی فراہم کیا تاکہ اپوزیشن پر یہ الزام نہ لگایا جاسکے کہ انھوں نے حکومت کو کام کرنے کا وقت ہی نہیں دیا۔ اب الیکشن کے ایک سال مکمل ہونے پر 25جولائی 2019 سے اپوزیشن نے پورے ملک میں جلسوں کے انعقاد کے ساتھ اپنی احتجاجی تحریک کا آغاز کردیا ہے ۔
اب حکومت کا امتحان ہے کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ اپنے کہے کے مطابق برتاؤ کریگی یااپنی جانب سے اپوزیشن کو احتجاج کے لیے کنٹینر سمیت تمام سہولیات اور سپورٹ کی پیشکش کا وعدہ بھی کئی وعدوں کی طرح وفا نہیں ہو پائیگا۔ بہرحال آج پاکستان کو جن نا گفتہ بہ حالات کا سامنا ہے اس سے نکلنے کی ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذمے داری کا احساس کرتے ہوئے اپوزیشن کے الزامات کو دور کرے ، سیاسی انتقام کا خاتمہ کرے۔ ملک میں سیاسی جماعتوں کے مابین پیدا شدہ دوریوں اور تلخیوں کو ختم کرے ، ملک میں مثبت سیاسی کلچرکے فروغ اور سیاسی استحکام پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کرے، سیاسی قیادت کو رہا کرے تاکہ ملک میں سیاسی مکالمہ کا آغاز ہوسکے اور ملک میں حقیقی جمہوریت کے نفاذ کی کوئی امید پیدا ہوسکے کیونکہ اسی میں معاشی ترقی اور معاشی استحکام کا راز بھی پوشیدہ ہے بصورتِ دیگر مزید تلخیاں ، مزید مشکلات ، مزید دشواریاں ملک کوگہرے بحران سے دوچارکردیں گی۔