آگ ہی آگ
دنیا کی تاریخ کوئی ایک واقعہ بھی ایسا پیش کرنے سے قاصر ہے جس میں اخلاقی اور انسانی صفات حسنہ ۔۔۔
KARACHI:
دنیا کی تاریخ کوئی ایک واقعہ بھی ایسا پیش کرنے سے قاصر ہے جس میں اخلاقی اور انسانی صفات حسنہ کو ابھارنے کے لیے غلامی کا ماحول یا غلامی کی ہوا سازگار ثابت ہوئی ہو۔ برصغیر پاک و ہند میں سیکڑوں سالہ دور غلامی نے ہمارے اخلاق و کردار کو ایسا مسخ کرکے رکھ دیا ہے کہ بہادری، سچائی، ہمدردی، خودداری اور خود اعتمادی کی کوئی ایک خوبی بھی ہم میں باقی نہیں رہی۔
پاکستان وجود میں آنے کے 65 سال بعد بھی بربادی اور پامالی کے نقشوں میں اضافہ ہوتا رہا اور کسی ایک پر بھی خط تنسیخ نہ کھنچ سکا۔ اعلیٰ صفات انسانی تاریخ میں خودداری اور خود اعتمادی کے جذبے کو اولیت کا درجہ حاصل ہے۔ جس ملک، جس قوم اور جس فرد میں یہ جذبہ بدرجہ اتم پیدا ہوجاتا ہے پھر زمانہ کتنا ہی ''اس کے خلاف یا ناموافق ہو'' اسے سر آنکھوں پر جگہ دی جاتی ہے۔ جن قوموں نے اس راز کو پالیا ہے ساری دنیا ان کا احترام کرتی ہے اور وہی قومیں مہذب کہلاتی ہیں۔ لیکن خدا محفوظ رکھے ایسے حکمرانوں اور سیاستدانوں سے جن کی سرگرمیوں سے کوئی ملک ایک وسیع و عریض یتیم خانے میں تبدیل ہوجائے۔ جیساکہ ان دنوں پاکستان میں اناج سے لے کر پرانے کپڑے، جوتے، دودھ،آٹا، گھی، سبزیاں، دالیں غرض کہ ضروریات زندگی کی ہر شے کے لیے ہم دوسروں کے دست نگر ہوگئے ہیں۔ نتیجہ کار ساری دنیا میں ہماری جگ ہنسائی ہورہی ہے۔ لیکن اپنا گھر اگر چھوٹا بھی ہو تو بہرصورت اس میں رہنا ہی پڑتا ہے یہی مثال ملک پر بھی صادق آتی ہے۔
دو سال پہلے کا ذکر ہے فریئر روڈ کراچی ڈاکخانے کے بالمقابل ایک عمارت تلے سیکڑوں گداگروں اور بہت غریب مفلوک الحال لوگوں کا اژدھام تھا۔ عورتوں کی باتوں، بچوں کی چیخ و پکار، بوڑھوں کے کھانسنے کراہنے کی آوازوں سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ کچھ بیمار نظر آنے والے زمین پر بیٹھے اونگھ رہے تھے۔ مفلوک ڈھیلوں پر آنکھیں بند کیے پڑے تھے۔ ایک طرف نوجوان گداگر سگریٹ پیتے اور سستے قسم کے گٹکوں کو کھاکر ٹوٹوں اور پنیوں کے ڈھیر لگا رہے تھے جب کہ دوسری طرف فٹ پاتھ کے کنارے کھڑی کاروں کی ایک قطار سے بہت سے خوش پوش اور خوش وضع افراد اتر کر عمارت کے مختلف حصوں میں جارہے تھے اور جاتے جاتے مجمع پر ایک اچٹتی سی نظر بھی ڈالتے جاتے تھے۔
مجھے اس دن ایسا محسوس ہوا جیسے قدرت نے اپنی خدائی دو حصوں میں تقسیم کر رکھی ہو۔ جس کے ایک کنارے پر وہ خوشحال و خوش لباس لوگ کھڑے تھے جو اپنے انداز و اطوار سے، چہرے بشرے سے ہر طرح کی فکر معاش سے اور غم دوراں سے آزاد دکھائی دیتے تھے۔ جب کہ دوسرے کنارے پر انسان نما حیوانوں کا یہ غول بیابانی تھا جن کی قسمتوں پر ابھی تک نحوست وادبار کی چھاپ لگی ہوئی تھی۔ غربت اور مفلوک الحالی ان کے چہروں اور لاغر اجسام سے مترشح تھی۔
میں نے ایک شخص سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ آج یہاں کچھ کپڑے اور غذائی اشیا کے پیکٹ تقسیم کیے جائیں گے لہٰذا شہر اور گردونواح کے گداگروں کی آبادی امڈ کر یہاں آگئی ہے اور پچھلے تین دنوں سے پڑاؤ ڈالے ہوئے ہے۔ اسی اثنا میں عمارت سے وہی خوش پوش لوگ باہر نکل آئے اور ان کا عمارت سے باہر نکلنا تھا کہ گداگروں اور غربت سے مارے لوگوں کے مجمع پر سناٹا چھاگیا۔ جیسے کسی نے جادو کی چھڑی گھمادی ہو۔
کچھ دیر کے بعد ان خوش وضع لوگوں کی نگرانی میں غذائی پیکٹس کی تقسیم کا کام اس انداز سے شروع ہوا کہ مجمع سے کافی فاصلہ ہونے کے باوجود اس کے تعفن سے بچنے کے لیے ان خوش پوش لوگوں کو ناک اور منہ پر رومال رکھنے پڑے۔ مجمع تھا کہ بے قابو ہورہا تھا یا شاید بے تحاشہ اور کبھی نہ ختم ہونے والی غربت تھی جو بس میں نہیں آرہی تھی۔ لہٰذا غذائی ڈبے بجائے تقسیم کے مجمع کی طرف پھینکنے پڑے لیکن ماجرا یہ تھا کہ ایک ڈبہ پھینکا جاتا تھا اور اسے لپکنے کے لیے سیکڑوں ہاتھ ہوتے تھے چنانچہ غذا تقسیم کیا ہونی تھی بکھر زیادہ گئی۔ اس لمحے مجھے قائد اعظمؒ کا ایک فرمان یاد آگیا۔''میں پاکستان کو خوش حالی اور قوم کو خوداعتمادی کے اعتبار سے اس سطح پر لانا چاہتا ہوں کہ ساری دنیا میں اس کی مثال نہ ملے''۔ لیکن یہ منظر۔۔۔۔! کیا یہ قائد اعظمؒ کے اس خواب کی تعبیر تھا؟
پچھلے دنوں میں کراچی میں اپنے ایک دوست کے یہاں افطار ڈنر پر مدعو تھا۔ میرے یہ دوست ڈیفنس D.H.A میں رہائش پذیر ہیں اور اندرون سندھ کے ایک معروف زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب میں ان کی وسیع و عریض کوٹھی پر پہنچا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ گھریلو ملازمین کی تعداد اہل خانہ سے کہیں زیادہ تھی۔ جن میں اکثریت نوجوان ملازمین کی تھی جب کہ ضعیف اور بوڑھے بھی دکھائی دے رہے تھے۔ شاندار آراستہ وپیراستہ کمروں اور زرق برق قیمتی لباس زیب تن کیے مہمانوں کے درمیان سے جب پھٹے پرانے، شکن آلودہ کپڑے پہنے وہ ملازمین آتے جاتے تو میرا دل انھیں دیکھ کر ایک نامعلوم بوجھ تلے دب جاتا کیونکہ ان کے چہروں پر بلا کا حزن وملال نظر آتا تھا گویا دنیا کی ساری مایوسیاں سمٹ کر ان کے چہروں پر آگئی ہوں۔
بہرحال جیسے تیسے تقریب ختم ہوئی تو میں میزبان دوست کا شکریہ ادا کرنے ان تک پہنچا اور رخصت کی اجازت چاہی۔ جو انھوں نے بڑی خوش دلی سے مجھے مرحمت فرمائی اور ذرا خندہ پیشانی سے مجھے رخصت کرتے ہوئے مختصراً ملکی مسائل، بالخصوص بدامنی اور تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کا ذکر بھی کیا۔ جواباً میں نے ہنستے ہوئے ان سے کہا کہ آپ تو اس معاملے میں بڑے خوش قسمت ہیں۔ ماشاء اللہ ملازمین کی بھی ایک پوری فوج ظفر موج آپ نے جمع کی ہوئی ہے۔ میرے اس لطیف سے طنز پر میزبان دوست نے بڑے فخریہ انداز میں بتایا کہ بات یہ ہے راؤ صاحب! ہمارے یہاں خدمت گار خاندانوں کا سلسلہ نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔ مثلاً جن نوکروں کو آپ دیکھ رہے ہیں یہ آج سے نہیں ہیں بلکہ ان کے خاندانوں کو ہمارے خاندان سے وابستہ ہوئے کئی نسلیں بیت گئی ہیں۔
ہم انھیں بچپن سے اس طرح سدھاتے ہیں کہ مالک سے وفاداری کو یہ اپنا دین وایمان سمجھتے ہیں۔ کام میں تساہل برتنا یا انکار کرنا ان کو آتا ہی نہیں ہے۔ ان میں سے ایک نوکر کراچی کے 10 نوکروں کے برابر کام کرتا ہے۔ ہمارے بنگلوں کی سجاوٹ، چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال اور ہر ایک مالک کی ضروریات کو پورا کرنا، سب کچھ ان ہی کو کرنا پڑتا ہے۔ میں نے تعجب سے سوال کیا کہ اس کا معاوضہ تو آپ کو انھیں کافی دینا پڑتا ہوگا۔ کیونکہ آج کل تو معمولی سے کام کے لیے بھی ملازم رکھو تو وہ پانچ سے آٹھ ہزار میں پڑتا ہے۔
میرے سوال پر میزبان دوست نے بہت حیران کن نگاہوں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا کہ ''معاوضہ'' کیسا معاوضہ؟ یہ تو ہماری رعایا ہیں۔ ان کی عورتیں، بچیاں ہمارے گھروں کے اندر اور مرد ہماری زمینوں اور اوطاقوں پر کام کرتے ہیں۔ جس کے عوض ہم انھیں دو وقت کا کھانا اور ششماہی پر، نیز عید، بقر عید پر ایک ٹھنڈا اور گرم جوڑا دے دیتے ہیں۔ یہ جواب دے کر انھوں نے فاتحانہ انداز میں مجھ سے الوداعی مصافحہ کیا اور اپنے بنگلے میں لوٹ گئے۔ اور میں اپنے آبائی شہر نواب شاہ۔ لیکن گزرے ہوئے دونوں واقعات کا اثر آج بھی مجھ پر ایسے موجود ہے کہ جیسے یہ آج ہی کی بات ہے۔ اور میں سوچ رہا ہوں، مسلسل سوچ رہا ہوں۔
میرے ذہن میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ، علامہ اقبالؒ اور قائد ملت لیاقت علی خانؒ کے فرمائے ہوئے وہ بہت سے فرمودات آرہے ہیں، تقاریر آرہی ہیں جو اب تقسیم کی تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ مجھے اپنی عمر میں بعداز شعور وہ ساری عسکری اور جمہوری حکومتیں یاد آرہی ہیں جن کے متعارف کردہ نت نئے نظام، بنیادی جمہوریتیں، پابند جمہوریتیں، مکمل جمہوریتیں ملک کی 65 سالہ عمر میں رائج ہوتی رہیں اور سوچنے کا یہ سلسلہ جاری ہے، ہنوز جاری ہے۔ بدترین غربت اور غلامی کی زنجیروں میں بری طرح سے جکڑے ہوئے کروڑوں لوگوں کے لیے، غربت سے نڈھال اپنے بچوں سمیت خودکشی کرتے ہوئے والدین کے لیے میں سوچ رہا ہوں کہ اس کا حل کیا ہے؟ کہاں ہے؟ اب کون سا نظام ملک میں رائج ہو؟ نیا مسیحا کس صوبے اور کس قوم سے آئے گا؟ دفعتاً محسن بھوپالی مرحوم کا ایک قطعہ یاد آگیا:
اس عہد کی صدا ہوں اگر سن سکے تو سن
میرا پیام سارے چمن کا پیام ہے
جب تک گلوں سے چہروں پہ دہشت کی گرد ہے
اے قوم تجھ پہ جشن بہاراں حرام ہے