حج خوش نصیبی کی معراج

’’ اور لوگوں پر واجب ہے کہ محض اﷲ کے لیے خانۂ کعبہ کا حج کریں، جنہیں وہاں تک پہنچنے کی استطاعت (قدرت) ہو۔‘‘


’’ اور لوگوں پر واجب ہے کہ محض اﷲ کے لیے خانۂ کعبہ کا حج کریں، جنہیں وہاں تک پہنچنے کی استطاعت (قدرت) ہو۔‘‘فوٹو: فائل

ارشادِ باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: '' اور لوگوں پر واجب ہے کہ محض اللہ کے لیے خانۂ کعبہ کا حج کریں، جنہیں وہاں تک پہنچنے کی استطاعت (قدرت) ہو۔''

فریضۂ حج کو ترک نہ کرنے کی تاکید اس تنبیہ کے ساتھ کی گئی ہے: '' اور جس نے باوجود استطاعت حج نہ کیا، تو یاد رکھو کہ اللہ سارے جہانوں سے بے پروا ہے۔''

حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ نے بہ وقتِ شہادت اپنی وصیّت میں فرمایا: ''اپنے پروردگار کے گھر کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو، تمہارے جیتے جی وہ تم سے خالی نہ ہونے پائے، کیوں کہ اگر وہ خالی چھوڑ دیا گیا تو پھر (عذاب سے) مہلت نہ پاؤ گے۔''

ابنِ ابی العوجاء اپنے ہم نظریہ لوگوں کے ساتھ حضرت امام جعفر صادقؓ کے پاس آکر بیٹھ گیا، اور کہنے لگا: ''یاابا عبداللہ ؓ! مجلسیں امانت ہوا کرتی ہیں، اور مجالس میں جس کو بھی کوئی سوال درپیش ہوتا ہے وہ پیش کرتا ہے۔ کیا مجھے بات کرنے کی اجازت ہے؟''

حضرتؓ نے اسے سوال کرنے کی اجازت دی اور فرمایا: ''جو چاہو پوچھو۔''

ابن ابی العوجاء نے کہا: '' کب تک آپ لوگ اِن کنکریوں کو روندتے پھریں گے، اِس پتھر کو پناہ گاہ سمجھتے رہیں گے اور اِس گھر کی عبادت کرتے رہیں گے جسے اینٹ اور گارے سے اُٹھایا گیا ہے۔ کب تک اِس کے گرد بھاگ جانے والے اُونٹ کی مانند دوڑتے پھریں گے؟ چناں چہ جو شخص بھی اِس بارے میں ذرا سا غور و فکر کرتا ہے یا اندازہ لگاتا ہے تو اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ ایک ایسا فعل ہے جس کی بنیاد کسی صاحبِ حکمت اور صاحبِ نظر نے نہیں رکھی۔ آپؓ ہی مجھے بتائیں کہ یہ سب کچھ کیا ہے؟ کیوں کہ آپؓ ہی اِس امر کے سرخیل اور سردار ہیں اور آپؓ کے والد اِس کی بنیاد اور اِس کے ناظم ہیں۔''

یہ سُن کر امامؓ نے فرمایا: '' جسے اللہ گم راہ کردے اور جس کے دل کو اندھا کردے وہ نہ حق کو اچھا سمجھتا ہے اور نہ ہی خوش گوار، بل کہ شیطان اس کا سرپرست بن جاتا ہے، اسے ہلاکت کے گھاٹ اُتار دیتا ہے، اور پھر اسے باہر نہیں نکالتا۔ حالاں کہ یہ وہ گھر ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق سے عبادت طلب کی ہے تاکہ اِس طرح ان کی آزمائش کرے کہ کون وہاں آکر اس کی اطاعت کرتا ہے۔ اسی لیے خداوندِ عالم نے انہیں اِس گھر کی تعظیم اور زیارت کی تاکید فرمائی ہے، اسے انبیاء ؑ کا مقام اور نماز گزاروں کا قبلہ قرار دیا ہے، یہ گھر اُس کی رضا کا ایک حصّہ ہے اور اُس کی مغفرت کا ایک راستہ، کمال کی بنیادوں پر اُستوار ہے اور عظمت و جلال کا محلِ اجتماع ہے۔'' (بحار۔ جلد 99، صفحہ 29)

حضرت امام جعفر صادقؓ فرماتے ہیں : حج کا فلسفہ یہ ہے کہ خداوندِ عالم کی بارگاہ میں وفد کی صورت میں پہنچا جاتا ہے اور وہاں سے زیادہ سے زیادہ کی طلب کی جاتی ہے۔ وہاں پہنچنے والا گناہوں سے باہر آجاتا ہے، اپنے گزشتہ گناہوں سے توبہ کرتا ہے اور آئندہ کے لیے نئے اعمال بجا لاتا ہے۔ وہاں مال کو نکالا جاتا ہے، بدنوں کو تھکایا جاتا ہے اور خواہشات و لذّات سے کنارہ کشی کی جاتی ہے۔ یہاں مشرق و مغرب کے رہنے والوں، خشکی و تری کے رہنے والوں اور حاجیوں اور غیر حاجیوں کے لیے بہت سے فوائد و مفادات ہیں۔ کوئی تاجر ہوتا ہے، کوئی مال لے کر آتا ہے، کوئی بیچ رہا ہوتا ہے، کوئی خرید رہا ہوتا ہے، کوئی تحریر کرنے والا ہوتا ہے، کوئی فقیر و مسکین ہوتا ہے۔ اِس طرح ان کے ارد گرد رہنے والوں کی ضروریات پوری ہوتی ہیں، جن کا وہاں پہ اجتماع ممکن ہوتا ہے۔ پس وہ اپنے مفادات اور منافع وہاں دیکھ لیتے ہیں۔'' (بحار)

نہج البلاغہ کے خطبۂ قاصعہ میں ہماری اس طرح راہ نمائی کی گئی: '' تم دیکھتے نہیں کہ اللہ سبحانہٗ نے آدم ؑ سے لے کر اِس جہان کے آخر تک کے اگلے پچھلوں کو ایسے پتھروں سے آزمایا ہے کہ جو نہ تو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی فائدہ۔ نہ سُن سکتے ہیں، نہ دیکھ سکتے ہیں۔ اُس نے ان پتھروں ہی کو اپنا محترم گھر بنایا ہے جسے لوگوں کے لیے قیام کا ذریعہ ٹھہرایا ہے۔ پھر یہ کہ اسے زمین کے رقبوں سے ایک سنگلاخ رقبہ اور دنیا میں بلندی پر واقع ہونے والی آبادیوں میں سے ایک مٹی والے مقام اور گھاٹیوں میں سے ایک تنگ اطراف والی گھاٹی میں قرار دیا، کُھرّے اور کھردرے پہاڑوں، نرم ریتیلے میدانوں، کم آب چشموں اور متفرق دیہاتوں کے درمیان جہاں اُونٹ، گھوڑا اور گائے، بکری نشو و نما نہیں پاسکتے۔

پھر بھی اُس نے آدمؑ اور اُن کی اولاد کو حکم دیا کہ اپنے رُخ اِس کی طرف موڑیں۔ چناں چہ وہ ان کے سفروں سے فائدہ اٹھانے کا مرکز اور پالانوں کے اُترنے کا مرکز بن گیا کہ دُور اُفتادہ بے آب و گیاہ بیابانوں، دُور دراز گھاٹیوں کی نشیبی راہوں اور (زمین سے) کٹے ہوئے دریاؤں کے جزیروں سے نفوسِ انسانی ادھر متوجّہ ہوتے ہیں، یہاں تک کہ وہ پوری فرماں برداری سے اپنے کندھوں کو ہلاتے ہوئے اِس کے گرد لبّیک اللھم لبّیک کی آوازیں بلند کرتے ہیں، اور پھر اپنے پیروں سے دوڑ لگاتے ہیں اِس حالت میں کہ ان کے بال بکھرے ہوئے اور بدن خاک میں اٹے ہوتے ہیں۔

انہوں نے اپنا لباس پشت پر ڈال لیا ہوتا ہے اور بالوں کو بڑھا کر اپنے کو بدصورت بنا لیا ہوتا ہے۔ یہ بڑی ابتلاء، کڑی آزمائش، کھلم کھلا امتحان اور پوری پوری جانچ ہے، اللہ نے اسے اپنی رحمت کا ذریعہ اور جنت تک پہنچنے کا وسیلہ قرار دیا ہے۔ اگر خداوند عالم یہ چاہتا کہ وہ اپنا محترم گھر اور بلند پایہ عبادت گاہیں ایسی جگہ پر بنائے جس کے گرد باغ و چمن کی قطاریں اور بہتی ہوئی نہریں ہوں، زمین نرم و ہم وار ہوکہ (جس میں) درختوں کے جھنڈ، اور (ان میں ) جھکے ہوئے پھلوں کے خوشے ہوں، جہاں عمارتوں کا جال بچھا ہوا اور آبادیوں کا سلسلہ ملا ہوا ہو، جہاں سرخی مائل گیہوں کے پودے، سرسبز مرغ زار چمن درکنار سبزہ زار، پانی میں شرابور میدان، لہلہاتے ہوئے کھیت اور آباد گزر گاہیں ہوں تو البتہ وہ جزا اور ثواب کو اسی اندازے سے کم کردیتا کہ جس اندازے سے ابتلاء و آزمائش میں کمی واقع ہوئی ہوتی۔ اگر وہ بنیاد کہ جس پر اِس گھر کی تعمیر ہوئی ہے اور وہ پتھر جس پر اس کی عمارت اُٹھائی گئی ہے، سبز زمرد و سرخ یاقوت کے ہوتے اور (ان میں) نور و ضیاء (کی تابانی) ہوتی، تو یہ چیز سینوں میں شک و شبہات کے ٹکراؤ کو کم کردیتی، دلوں سے شیطان کی دوڑ دھوپ ( کا اثر) مٹا دیتی اور لوگوں سے شکوک کے خلجان دُور کردیتی۔

لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو گونا گوں سختیوں سے آزماتا ہے اور ان سے ایسی عبادت کا خواہاں ہے، جو طرح طرح کی مشقتوں سے بجا لائی گئی ہو۔ انہیں قسم قسم کی ناگواریوں سے جانچتا ہے، تاکہ ان کے دلوں سے تمکنت و غرور کو نکال باہر کرے اور ان کے نفوس میں عجز و فروتنی کو جگہ دے۔ پھر یہ کہ اس ابتلا و آزمائش (کی راہ) سے اپنے فضل و امتنان کے کھلے ہوئے دروازوں تک (انہیں) پہنچائے، اور اسے اپنی معافی و بخشش کا آسان وسیلہ و ذریعہ قرار دے۔'' (نہج البلاغہ۔ خطبہ192، خطبۂ قاصعہ)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں