بیٹی۔۔۔

’’اپنی چلانے‘‘ والی نہیں، ’’اپنا آپ‘‘ منوانے والی بنو


سائرہ فاروق July 23, 2019
’’اپنی چلانے‘‘ والی نہیں، ’’اپنا آپ‘‘ منوانے والی بنو۔ فوٹو: فائل

PESHAWAR: عورت جسمانی لحاظ ہی سے نہیں بلکہ اپنی طبیعت، مزاج، عادات، رویوں، جذبات کے اظہار میں بھی مرد سے بہت مختلف ہے، لیکن یہ تفاوت اور اختلاف عورت کے کم تر، کم زور یا کم عقل اور کسی بھی طرح اس کے پست ہونے میں شمار نہیں ہوتا بلکہ بحیثیت انسان عورت اور مرد خوبیوں اور صلا حیتوں کے مالک اوریکساں بنیادی حقوق رکھتے ہیں، مگر ان کے فرائض اور ذمہ داریاں مختلف ہیں۔

اسے یوں سمجھیے کہ جس طرح مرد ایک الگ انداز سے کسی میدان اپنی ذمہ داریاں انجام دیتا اور اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے، اسی طرح عورت کے وظائف الگ ہیں۔ وہ بچہ جننے سے لے کر اس کی مکمل نگہداشت جیسی فطری ذمہ داری کے ساتھ امورِ خانہ داری میں نہایت ذمہ دار فرد کی حیثیت سے متحرک نظر آتی ہے۔

سماجی معاہدے کے تحت جب مرد عورت جب شادی کے بندھن میں بندھتے ہیں تو ان میں سے کوئی بھی کسی بھی طرح دوسرے سے برتر اور اس کا مالک و مختار نہیں بن جاتا بلکہ وہ ایک دوسرے کے دست و بازو، محرم، ہم درد و غم گسار اور رفیق کہلاتے ہیں۔ لہٰذا بیٹا ہو یا بیٹی زندگی کے نئے سفر کے آغاز پر ان کی راہ نمائی کریں اور اس بندھن کی خوب صورتی اور گھر بنائے اور بسائے رکھنے کے حوالے سے اہم باتیں ضرور بتائیں۔

یہ والدین کا فرض بھی ہے اور ایک طرح سے ان کی سماجی ذمہ داری بھی۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ ہمارے سماج میں جب لڑکی اپنے گھر سے رخصت ہوتی ہے اور نئے رشتے ناتوں کے ساتھ نیا ماحول اور ایک مرد جو شوہر کی حیثیت سے اس کی زندگی میں داخل ہوتا ہے تو اس تبدیلی کو قبول کرنے میں مشکل تو بہرحال پیش آتی ہے۔

یہ تبدیلیاں اور رشتے ناتے کسی لڑکی کے دل و دماغ اور مزاج کا حصہ بننے کے بجائے، اس کے مزاج اور بعض عادات سے متصادم ہونے لگیں تو ماحول تلخ ہونے لگتا ہے اور جب یہ تصادم بدترین حالت اختیار کر لیتا ہے تو سب کچھ برباد ہو سکتا ہے۔ یوں کم فہمی اور ضد میں ایک دوسرے کے جذبات کو روندنے کی مشق جاری رکھنے اور ایک دوسرے کو شکست دینے یا نیچا دکھانے کو زندگی کا مشن بنا لیا جائے تو یہ عائلی زندگی کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے۔

آپ اپنی عائلی زندگی میں الگ تھلگ نہیں رہ سکتے بلکہ دونوں لائف پارٹنروں کو مل کر یہ سفر طے کرنا پڑتا ہے، کیوں کہ اس رشتے میں اپنی خواہشات کی ایک الگ کشتی میں سوار ہو کر آگے بڑھنا اور منزل تک پہنچنے کی آرزو دیوانے کے خواب کے سوا کچھ نہیں!

مزاج کا تضاد غلط نہیں، بس ایک دوسرے کے مزاج کا احترام واجب ہے ورنہ وہ اپنے رشتے میں اپنا وقار کھو بیٹھیں گے۔

ضروری نہیں کہ جیسا ماحول یا لب و لہجہ والد اور آپ کے بھائیوں کا رہا ہو ویسا ہی خاوند کا بھی ہو، سو ہر وقت کا تقابلی جائزہ فضول اور زندگی اجیرن کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ عورت ہر وقت اپنے مزاج کے گھوڑے پر سوار مرد کی انا کا مقابلہ نہیں کرسکتی کیوں کہ فطری طور پر انا، مردانگی اور رعب جہاں مرد کے مزاج کا خاصہ ہیں، وہیں عورت کے اندر نزاکت، حیا اور معصومیت مرد کو نہ صرف مائل کرتی ہے بلکہ انہی سے وہ اپنا آپ منواتی بھی ہے۔

مرد کے مقابلے میں عورت کی فطری نزاکت کا مطلب یہی ہے کہ وہ مرد سے مرد بن کر پیش نہ آئے، کیوں کہ ایک نیام میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں۔ عائلی زندگی میں اپنے رشتے کو بچانے کے لیے سمجھوتا دونوں میں سے کسی ایک کو نہیں بلکہ دونوں کو کرنا پڑتا ہے، تبھی یہ کشتی کنارے لگتی ہے۔ دونوں فریق اگر ضد میں آجائیں تو پھر ضد کا مقابلہ ضد سے نہیں ہو سکتا اور اس صورت میں تو بالکل بھی نہیں ہوسکتا جب آپ صاحبِ اولاد ہوں لہذا والدین کو بھی بیٹے اور بیٹی کی تربیت میں اس اصول کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔

بیٹی کی تربیت میں معاملہ فہمی کی خصوصی 'ڈگری' کو بھی شامل کرنا چاہیے تاکہ شوہر کی ذرا ذرا سی ناپسندیدہ بات پر غصے سے آگ بگولہ ہو کر اور لڑ جھگڑ کر میکے نہ چلی آئے۔ بلکہ اپنے نجی معاملات کو خود سلجھانے کی کوشش کرے۔ ایسے ہی ہر وقت بیٹی کے معاملات میں 'چوہدری' بن جانے سے آپ اپنی اولاد کو ہر قسم کے نتیجے سے بے خوف اور آزاد کردیتے ہیں، جہاں صلح صفائی سے بات بن سکتی ہے وہاں اپنے میکے کی مضبوط سپورٹ کی وجہ سے وہ اپنے شوہر اور سسرال والوں کو دباؤ میں رکھنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔

لیکن ایسا کرتے ہوئے لڑکی بھول جاتی ہے کہ ہر وقت مرد کو چیلنج دینا یا شوہر کی نرم مزاجی اور کسی بھی جھگڑے، ناراضی کے بعد منانے میں پہل کرنے کی عادت پر یہ سمجھنا کہ وہ اس کے دباؤ میں ہے اور اس طرح وہ اپنی ہر بات منوا سکتی ہے انتہائی غلط ہے۔ کیوں کہ معمولی باتوں پر بار بار زچ ہوتا مرد طلاق کا وہ ہتھیار غیر ارادی طور پر استعمال کر جاتا ہے جس میں نقصان صرف ان دونوں کا ہی نہیں ہوتا بلکہ اولاد بھی اس کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔

باہمی کشمکش اور تنازعات کی بڑھتی وجہ صبرو قناعت کا فقدان، دوسروں کی خوش حالی اور حیثیت سے اپنا موازنہ کرنا بھی ہے۔ قدرت نے تمام انسانوں کو جسمانی ساخت، خوب صورتی، بدصورتی، طاقت، کم زوری، صلاحیتوں، قابلیتوں میں یکساں پیدا نہیں کیا، ان میں فرق اور امتیاز کی وجہ سے انسانی تمدن کی عمارت قائم ہے اور یہی وجہ انسان میں اپنے حالات بہتر بنانے کا محرک بنتی ہے۔ اگر یہ فطری امتیاز اور فرق ختم ہوجائے تو تمدن کا ارتقا تھم جائے گا۔

معمولی اور مرضی کے خلاف ہونے والی عام باتوں پر بھی عدم برداشت کا مظاہرہ، ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوجانا، ایک دوسرے کی عیب جوئی اور خامیوں، کم زوریوں پر درگزر کرنے کے بجائے انگشت نمائی کرنا عائلی زندگی میں زہر گھول دیتا ہے جو آہستہ آہستہ اس رشتے میں دراڑیں ڈال کر اسے اندرونی طور پر کم زور بنا دیتا ہے اور یہاں وہ موڑ آتا ہے جب دو افراد کسی بے رحم موقع کا شکار بن کر ایک دوسرے کو ہمیشہ کے لیے خدا حافظ کہہ دیتے ہیں۔

مخالف جنس ہونے کی وجہ سے جہاں دونوں کی صفات و خصوصیات میں تفاوت اور تنوع ہونا فطری امر ہے تو وہیں پر وظائفِ حیات اور ذمہ داریوں میں بھی رنگا رنگی لازمی ہے، اسی لیے شادی شدہ زندگی میں صبر و استقامت، استقلال، فروتنی و ضبطِ نفس اور سب سے بڑھ کر ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ اس لیے بیٹی کی تربیت میں اہمیت دینا چاہیے کہ اسے پرائے گھر جانا ہوتا ہے جہاں کا ماحول بہت مختلف ہوسکتا ہے۔ اگر آپ لڑکی کی تربیت لڑکے کی طرح کررہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس سے اس کی پہچان چھین رہے ہیں، بے جا ناز برداری اور مختلف مواقع پر لڑکی کے ہر ردعمل کو نہ صرف قبول کرنا بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کرنا مزاج میں ضد اور خود سری پیدا کرسکتی ہے۔

اس طرح لڑکی کسی بھی موقع پر اپنی رائے اور ردعمل دینے کو اپنا حق سمجھتے ہوئے دوسروں سے اسے قبول کرنے پر بھی اصرار کرے گی۔ اس کے اظہارِ رائے کو اہمیت ضرور دیں اور اس کی مرضی و پسند کے حق کو تسلیم کریں مگر حتمی اور فیصلہ کُن رویہ اور ہٹ دھرمی کی حد تک اس کی خود مختاری میں تمیز کیجیے اور اسے روکیے، کیوں کہ بیٹی کے بعد اسے بیوی اور پھر ایک بہترین ماں کا بھی رول ادا کرنا ہے اور سماج میں اس کے یہی روپ قابلِ قبول اور پائیدار تعلق کے لیے ضروری ہیں۔ اسے یہ سمجھانا ہوگا کہ عورت ہونے کا مطلب معمولی یا کم تر ہونا نہیں بلکہ اس روپ میں وہ اپنے وظائف اور ذمہ داریاں نمٹانے کے ساتھ حدود اور دائرۂ کار میں رہتے ہوئے کسی بھی خاندان کے لیے اہم اور اپنے گھر میں بااثر بھی ہوتی ہے۔

عورت ذات یا لڑکی کو لڑکی جیسی ہی تربیت دیں اور جب بیٹی کو رخصت کریں تو اس کا مطلب مکمل رخصتی ہونا چاہیے۔ یعنی اسے اپنے گھر(سسرال) کی تمام ذمہ داریوں کو مکمل طور پر اور خوشی سے نبھانے کی تلقین کریں اور کسی بھی موقع پر ضرورت سے زیادہ اس کی حمایت، یا سسرال کے معاملات میں بے جا مداخلت نہ کریں۔ جن بچیوں کے مزاج کی تیزی، ترشی آپ نے اپنے گھر میں نظر انداز کردی ہے ضروری نہیں کہ سسرال والے بھی اسے نظر انداز کر دیں۔

یاد رکھیے کے بد مزاج مرد ہو یا عورت دونوں ہی ایک دوسرے کے دل سے اتر جاتے ہیں۔ مرد کو تو ہمارا یہ پدر سری سماج پھر بھی قبول کرلیتا ہے، لیکن بد مزاج لڑکی کو نہ تو سسرال زیادہ عرصہ قبول کرتا ہے اور نہ ہی سامان باندھ کر میکے آجانے کے بعد اس کی پہلے جیسی اہمیت اور حیثیت رہتی ہے۔ بھائیوں کی شادیاں ہو جائیں یا والدین کا سایہ سَر پر نہ ہو تو یہی میکہ پرایا ہوجاتا ہے اور جب تک یہ بات آپ کو سمجھ آتی ہے، اس وقت تک دیر ہوچکی ہوتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں