دائروں کے درمیان
اِس بات کا ایک قدرے مختلف رُوپ ’’خود کوزہ، خود کوزہ گر، خود گل کوزہ‘‘ کی شکل میں بھی دیکھا جا سکتا ہے
شیخ امام بخش ناسخؔ کا ایک بہت پُر لطف اور معنی خیز شعر کچھ اس طرح سے ہے کہ
ہِر پِھر کے دائرے میں ہی رکھتا ہوں میں قدم
آئی کہاں سے گردشِ پَرکار، پائوں میں
اِس بات کا ایک قدرے مختلف رُوپ ''خود کوزہ، خود کوزہ گر، خود گل کوزہ'' کی شکل میں بھی دیکھا جا سکتا ہے یعنی یہ معاملہ دنیا داری اور تصوفّ دونوں میں نہ صرف موجود ہے بلکہ کم و بیش ایک سا منظر بھی پیش کر رہا ہے۔ سرکاری عہدوں کے درمیان بھی کبھی کبھار ایسی صُورت پیدا ہو جاتی ہے کہ سوال اور جواب دونوں ایک ہی شخص کے گرد چکرانے لگتے ہیں ۔ بعض اوقات یہ اتفاق بہت مضحکہ خیز رنگ بھی اختیار کر لیتا ہے ۔ مثلاََ جب پچاس کی دہائی میں ایک بار ایوب خان مرحوم پاکستانی افواج کے سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ کابینہ میں وزیرِ دفاع بھی بن گئے تو سیکریٹری دفاع کا اُن کے ساتھ ایک عجیب و غریب اور لطیفہ نما سا رشتہ بن گیا کہ وہ عہدے کے لحاظ سے کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان کے افسر تھے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ وزیرِ دفاع ایوب خان کے ماتحت بھی تھے۔
احمد شاہ بخاری المعروف بہ پطرس بخاری نے بھی اس سے ملتا جلتا ایک واقعہ اپنے حوالے سے بیان کیا ہے کہ جب وہ گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل تھے تو ان کی اس وقت کے انگریز ڈائریکٹر ایجوکیشن سے بحث چلتی رہتی تھی کہ انھیں اپنے کالج کے لیے کن کن سہولیات کی ضرورت ہے جو انھیں مہیا نہیں کی جا رہی ہیں، اتفاق سے انھی دنوں ڈائریکٹر ایجوکیشن دو مہینے کی چھٹی پر چلا گیا اور سرکار نے اس عہدے کا اضافی چارج بھی پطرس صاحب کو دے دیا اب ہوتا یوں تھا کہ پطرس پرنسپل کی سیٹ سے اپنی شاندار انگریزی میں ڈائریکٹر ایجوکیشن سے کچھ چیزوں کا تقاضا کرتے تھے اور پھر ڈائریکٹر ایجوکیشن کے دفتر میں بیٹھ کر مزید شاندار انگریزی میں پرنسپل گورنمنٹ کالج کو جواب دیتے تھے کہ ان کے مطالبات کیوں پورے نہیں کیے جا سکتے۔
اسی طرح ایک صاحب نے کسی ہوٹل میں کمرہ لیا تو جو صاحب استقبالیہ کائونٹر پر تھے آگے چل کر وہی باورچی، ویٹر، الیکٹریشن اور صفائی کرنے والے نکلے۔ اس نے جھنجلا کر پوچھا کہ اس ہوٹل کا مالک کون ہے تو صفائی کرنے والے نے جھاڑن ہاتھ سے رکھتے ہوئے مسکر ا کر کہا:
''وہ بھی میں ہی ہوں''
دیکھا گیا ہے کہ بعض اوقات فلموں میں ایک ہی شخص بہت سے شعبے سنبھال لیتا ہے اور یوں وہ کہیں مالک بن جاتاہے اور کہیں ملازم۔ مثال کے طور پر فلم اسٹار رنگیلا کا نام لیا جا سکتا ہے جو اپنی کچھ فلموں کا بیک وقت پروڈیوسر بھی تھا، ڈائریکٹر، میوزک ڈائریکٹر، سنگر، ہیرو اور تقسیم کار بھی ( اور شائد ان کے علاوہ کچھ اور بھی)۔
اپنے گزشتہ دورِ حکومت میں میاں شہبا ز شریف نے وزارتِ اعلیٰ کے ساتھ ساتھ کئی اور وزارتوں کا چارج بھی سنبھال رکھا تھا جس پر اگرچہ بہت لے دے ہوئی مگر بوجوہ اُس طرح کی عجیب و غریب صورتِ حال پیدا نہ ہوئی جس کا ایک منظر اُن کے برادرِ کلاں میاں محمد نواز شریف کے پاس موجود بہت سے عہدوں کی وجہ سے ممکن ہو گیا ہے۔ آیئے پہلے اس منظر کو دیکھتے ہیں ۔ اس کے بعد اگر تبصرے کی ضرورت اور گنجائش ہوئی تو اُس پر بھی بات کریں گے یہ تصوراتی خبر یا رپورٹ کچھ اس طرح سے ہے اس کا مجوزّہ عنوان ہے:
''مصروف حکومت''۔
''آج وزیر اعظم کے دفتر میں خارجہ اور دفاعی پالیسیز کے بارے میں ایک اہم میٹنگ کا انعقاد ہوا۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اجلاس کی صدارت کی۔ وزیر خارجہ نواز شریف نے وزیر اعظم نواز شریف کو اُن خطرات اور مسائل سے آگاہ کیا جو خارجہ پالیسی کے حوالے سے ملک کو درپیش ہیں۔ وزیرِ دفاع نواز شریف نے وزیر اعظم نواز شریف کو بتایا کہ ملک کے دفاع کو کس طرح مضبوط سے مضبوط تر بنایا جا سکتا ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف نے وزیر خارجہ نواز شریف اور وزیر دفاع نواز شریف کو ہدایت دی کہ وہ اس صورتِ حال کو چیئر مین نیشنل سیکیورٹی کو نسل میاں نواز شریف کے علم میں لائیں۔ وزیر اعظم نواز شریف، وزیرِ خارجہ نواز شریف اور وزیر دفاع نواز شریف نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ اس ضمن میں تمام سیاسی پارٹیوں کو اعتماد میں لیا جائے گا اور اس حوالے سے وزیر اعظم نواز شریف، وزیر خارجہ نوازشریف اور وزیر دفاع نواز شریف بہت جلد مسلم لیگ ن کے سربراہ نوازشریف سے ان کی رہائش گاہ واقع رائے ونڈ میں ملاقات کریں گے جو اس کے بعد باقی سیاسی پارٹیوں سے رابطہ کریں گے۔
وزیر اعظم نواز شریف بہت جلد مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف کو دی جانے والی اس بریفنگ کے لیے رائے ونڈ جائیں گے اس بریفنگ میں وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ وزیر خارجہ نواز شریف اور وزیر دفاع نواز شریف بھی شامل ہوں گے''
بظاہر یہ سار ا منظر کسی مزاحیہ سین جیسا لگتا ہے جس میں بات کا بتنگڑ بنا کر مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن کیا یہ واقعی ایک المیہ نہیں کہ تقریباََ ساڑھے تین سو ارکان کے ایوان میں (ایک سو سینیٹرز اس کے علاوہ ہیں) ہمیں کلیدی عہدوں کے لیے بھی ایسے افراد نہیں ملتے جن کی صلاحیتوں پر بھر پور اعتماد کیا جا سکے؟ بے معنی اور فضول قسم کی سیاسی رشوت نما وزارتوں کو ختم کرنا اور ان کی تعداد کو کم کرنا یقینا ایک مستحسن اور خوش آیند بات ہے مگر یہ تصوّر کہ اس اتنے بڑے ایوان میں پندرہ بیس لوگ بھی ایسے نہیں ہیں جو کاروبارِ حکومت چلانے کی صلاحیت اور توفیق رکھتے ہوں۔ یقینا بہت پریشان کن ہے۔ کیا وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اس بات سے اتفاق کریں گے کہ بلند پرواز کے لیے بوجھ کا کم ہونا ایک مثبت اور تخلیقی عمل کا ایسا استعارہ ہے جس کے سارے دروازے روشنی اور حکمت کی طرف کُھلتے ہیں۔