اربنائزیشن اور ہماری قومی ذمے داری پہلا حصہ

کراچی میں سرکاری اور غیر سرکاری املاک پر شہری اور بلدیاتی اداروں کی سرپرستی میں تجاوزات کا شور و غوغا ہے۔


قمر عباس نقوی July 10, 2019

کوئی دس برس کا عرصہ گزرا کہ راقم ا لسطورکا اپنے پڑوسی ملک بھارت جہاں ہمارے اسلاف کے تانے بانے ملتے ہیں کے شہروں دہلی، ممبئی اور ہمارے جد امجد حضرت سید شرف الدین شاہ ولایت قدس سرہ کی سرزمین ''امروہہ'' جانے کا اتفاق ہوا ۔ اس وقت کے مطابق ممبئی اور دہلی کی مجموعی آبادی ہمارے کراچی سے دگنی ہو گی۔ یوں کہیے کہ گویا انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا۔ غربت اور پسماندگی کا تناسب ہم سے کہیں زیادہ تھا۔

وہاں بھی ہم نے عام آدمی کو معاشرتی، سماجی، اقتصادی مسائل کا شکار دیکھا۔ ان سب باتوں کے باوجود ہمیں حیرت ہوئی کہ وہاں عوام میں نظم و ضبط اور قانون کی پاسداری بدرجہ اتم موجود تھی۔ بلاشبہ یہ دونوں شہر زمان ومکاں کے لحاظ سے اپنی ایک الگ حیثیت اور شناخت رکھتے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ جو ہماری سمجھ میں آئی کہ وہاں انگریزوں کا تیارکردہ اربنائزیشن کا مربوط نظام تھا جب کہ پاکستان کے حصے میں زیادہ تر زرعی زمینیں، پہاڑ ، دریا ، سمندر، تاریخی مقامات کے علاوہ کہیں کہیں گنی چنی برطانوی سامراج کی تعمیرات ورثہ میں ملیں۔

یاد رہے! وہ طبقہ جو برطانوی سامراج کا وفا شعار درباری تھا، ان کو پاکستان میں زمینیں تحفتہً عطا کر کے چوہدری اور وڈیرے کے منصب پر فائزکیا گیا اور یہی طبقہ ہر دور میں پاکستان کے اقتدار اور اشرافیہ میں شامل رہا۔ یہی اشرافی ٹولا ملک میں اربنائزیشن کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اربنائزیشن کیا ہے؟ پسماندہ طبقات کو جدید شہری سہولیات فراہم کرنا ہے جب کہ آبادی کا بہاؤ دیہاتوں کی سمت ہونے سے عوام الناس میں جہد بقا جاری ہے مگر افسوس کہ حالات اس ڈگر پر آتے ہوئے نظر آ رہے ہیں جیسے قبائلی نظام رائج ہو رہا ہو اور اربنائزیشن کی بجائے ڈی اربنائزیشن کے دورکا آغاز ہو چکا ہو۔ کسی بھی مہذب قوم کا معیار زندگی دیکھنا ہو تو وہاں کے ٹریفک اور تعمیرات کا نظام دیکھ لیں اور کسی حد تک ہم نے بھی دیکھا۔

بمبئی شہر کراچی ہی کی طرز کا قدیمی سمندری ساحلی شہر ہے لیکن وہاں ٹریفک جام اور ناجائز تجاوزات یا مصروف ترین سڑکوں کے اطراف پتھارے یا بھکاری اور ٹرانسپورٹ مافیا کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس شہر میں ریاست کی طرف سے دی گئی ٹرانسپورٹشن کی بنیادی سہولیا ت قابل دید اور قابل ستائش ہیں۔ ممبئی شہر میں شہریوں کی کثیر تعداد کا آمد و رفت کا زیادہ تر انحصار لوکل ٹرین پر تھا جو ہر 5منٹ کے وقفے سے آپ کو بآسانی مل جاتی ہے۔ ہمارا بھی اس لوکل ٹرین میں سفرکا اتفاق ہوا جس کا ہم نے بھی خوب لطف اٹھایا۔

آج کل کراچی میں سرکاری اور غیر سرکاری املاک پر شہری اور بلدیاتی اداروں کی سرپرستی میں تجاوزات کا شور و غوغا ہے۔ چائنا کٹنگ کی نئی اصطلاح منظر عام پر آئی ہے جس پر ہمارے اعلیٰ قانونی مشینری حر کت میں آ گئی ہیں۔ ادھر پوری دنیا میں گرمی کی روز بروزشدت میں اضافے کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی کا چرچا ہے۔ دن بدن آبادی میں اضافے سے جنگلات اور زرعی دیہات شہروں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ ''اربنائزیشن '' کے تصورکو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے جب کہ ملک کی مستند منظور شدہ انجینئرنگ یونیورسٹیز میں اربنائزیشن ٹیکنالوجی کے طور پر درس و تدریس کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ شجرکاری ، درخت اور عوام کی تفریح طبع کے لیے کشادہ پارک اورکھیلوں کے لیے وسیع میدانوں کا شدید فقدان ہے۔

شہر کے ماسٹر پلان میں پارکوں اورکھیل کے میدانوں کے لیے مختص جگہوں پر ان اداروں میں چھپی ہوئی کر پٹ کالی بھیڑوں کی ایما پر مساجد ، اسکول اور تجارتی مراکز قائم کر دیے گئے ہیں۔ وطن عزیزکا عروس البلاد ، منی پاکستان ، عالمی بحری بندرگاہ ، کبھی کا روشنیوں کا شہر اور فخر پاکستان ''کراچی'' وہ عالمی معیارکا شہر ہے جو ملک کے خزانہ کو مجموعی آمدنی کا ستر فیصد ریونیو فراہم کرتا ہے۔ قابل ملال ہے یہ امر کہ اس شہر کا کمایا ہوا خطیر سرمایہ اس شہرکی ترقی پر خرچ ہونے کی بجائے کرپٹ سیاستدان اور اعلیٰ اشرافیہ کی عیش و عشرت کی نذر ہو جاتا ہے جو سرا سر زیادتی اور ناانصافی کے مترادف ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی میں اس وقت 30 لاکھ موٹر سائیکلیں اور پانچ لاکھ سے زائد کاریں سڑکوں پر رواں دواں ہیں۔ ہماری ترقی کی معراج دیکھیں کہ ہم بلٹ ٹرین کی بجائے دھواں چھوڑتی ہوئی منی بسوں اور ہزاروں کی تعداد میں سال خوردہ چنگچی رکشاؤں کے طفیل اپنے ٹرانسپورٹ کی ضروریات پوری کرنے پر مجبور ہیں۔ اب تو ہماری سندھ حکومت سے یہی التجا ہوگی کہ لاہورکی طرز پرکراچی میں بھی چنگچی گدھا گاڑی جلد از جلد شروع کی جائے تاکہ ما حولیاتی آلودگی پر قابو پایا جا سکے۔

گزرے وقت میں ممبئی کی طرز پرکراچی میں بھی عوام کی آسان آمدورفت کے لیے اندرون شہر میں ٹرام چلا کرتی تھی اور شہرکے ملحقہ علاقوں کو لوکل ٹرین اورکراچی سرکلر ریلوے سے عوام سستا، آرام دہ سفر سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے، جو بلا شبہ اربنائزیشن کا اصل حسن تھا۔ سڑکوں پر اتنا ٹریفک نہیں ہوا کرتا تھا جتنا کہ آج ہے۔ کیونکہ مقامی لوگ بآسانی ، بروقت ، سستا اور محفوظ سفر ان ہی لوکل ٹرینز اور سرکلر ٹرینز سے کیا کرتے تھے۔ لوکل ٹرین کی مین لائن پر چلنے والی ٹرین کو مقامی ٹرین کہتے ہیں اور اندرون شہر کے مختلف رہائشی علاقوں تک رسائی سنگل لائن پر مشتمل سرکلر ٹرین سے کی جاتی تھی۔ ماضی قریب میں شہر میں کچھ ایئرکنڈیشنڈ گرین لائنز بسیں چلی تھی جوکامیا ب بھی رہیں۔

ہماری بدقسمتی کہیے یا ہمارے نا م نہاد سیاسی رہنما یا ہمارے ملک کی مخصوص کرپٹ بیوروکریسی (افسر شاہی) اور ہمارے شہری اداروں کی نالائقی اور بے حسی کہیے کہ ٹرانسپورٹیشن کا یہ آسان سا سسٹم یکایک بند ہو گیا اور وہ ساری مہنگی ترین امپورٹڈ بسیں بغیر پرزوں کے ا ینٹوں کے سہارے ورکشاپ کی زینت بن گئیں۔ قبضہ سچا دعوی جھوٹا کے مصداق 19 سال سے التوا میں پڑا ہوا ریلوے ٹریک کے دونوں اطراف کی پڑی خالی زمینوں پر کرپشن زدہ شہری اداروں نے موقع سے فائد ہ اٹھاتے ہوئے ان خالی زمینوںکو قانونی قرار دے کر ان زمینوں کو فروخت کر کے لوگوں کو بسایا ۔ یہ ٹریک 43.2 کلومیٹرز طویل اور 24 اسٹیشنز پر مشتمل ہے۔

ٹریک کے کئی مقامات پرکراسنگ کے لیے اضافی ریلوے ٹریکس بھی بچھائے گئے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے اس پورے ٹریکس پر 28 پھاٹک آتے ہیں۔ان پھاٹکوں کے بند ہونے کی صورت میں گاڑیوں کی لمبی لمبی قطارلگ جانے کا بھی اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے ۔ حکومت سندھ کی جانب سے سرکلر ریلوے کی بحالی کے سلسلہ میں کوئی واضح پیش قدمی محسوس تو نہیں ہو رہی۔ حالانکہ وزیراعلیٰ سندھ نے ایک سالہ وزیراعظم خاقان عباسی کے دور میں چین کا دورہ کیا اور سرکلر ریلوے کے منصوبہ کو سی پیک میں شامل کرتے ہوئے چین سے سرمایہ کاری کی درخواست کی تھی جو چینی حکومت نے غیر مشروط قبول کر لی۔

پروجیکٹ کی تاخیر پر سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ پروجیکٹ شروع کرنے کے لیے وفاق چینی کمپنی کو سوورن گارنٹی دینے میں حیل و حجت سے کام لے رہا ہے، کیونکہ وفاقی حکومت صرف کراچی سٹی سے لانڈھی کوریڈور تک لوکل ٹرین چلانے میں دلچسپی لے رہی ہے۔ ادھر سپریم کورٹ اور وفاق نے برسوں سے تعمیر شدہ پختہ مکانات کی انہدام کی کارروائی تو بہت تیز رفتاری سے کر دی مگر متاثرین کے پرزور احتجاجی مہم کے باوجود متبادل جگہ فراہم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ قابل غور ہے یہ امرکہ ان رہا ئشیوں کو بجلی، گیس اور پانی کی تمام یوٹیلیٹی سہولیات بھی حاصل تھیں۔

یہ بات توجہ طلب ہے کہ کراچی سرکلرکا آپریشن بند ہونے کے باوجود کچھ عرصہ تک کراچی سٹی سے براہ راست لانڈھی کوریڈور پر لوکل ٹرین وقفہ وقفہ سے تو چلتی رہی مگر اس کو بھی نظر لگ گئی اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے اس کا آپریشن بھی بند ہوگیا جس کی بنیادی وجہ شہر میں ٹرانسپورٹ مافیہ کا قبضہ اور اجارہ داری بتائی جاتی ہے۔کراچی میں تیزی سے ٹریفک کے ابھرتے ہوئے عوامی مسائل اور سی پیک کے اقتصادی منصوبہ پر تیزی سے عمل درآمد پر سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری کی دو رکنی بینچ نے جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سیکریٹری ریلوے کو فوری نوٹس جاری کرتے ہوئے حکم جاری کیا کہ 19سال کے طویل عرصے سے بند کراچی سرکلر ریلوے (KCR)کی سروس ایک ماہ میں بحال کیا جائے اور ساتھ ہی وفاق ، سندھ حکومت ، میئرکراچی کو ہدایات جاری کیں کہ کراچی سرکلر کے متاثرین کو متبادل جگہ فراہم کرنے میں موثر اقدامات کریں۔

شروع میں تو بلدیات کے وزیر موصوف سیاسی بیان بازی کرتے ہوئے یہ فرما رہے تھے کہ میں اپنے عہدہ سے استعفی دے دوں گا، مگر کسی کو بے گھر نہیں ہونے دوں گا ، لیکن پھر بھلا ہو جسٹس گلزار کا کہ ان کی ڈانٹ ڈپٹ نے تمام سرکاری مشینری کو اس پر عمل کرنے پر مجبورکر دیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں