کراچی کا پامال حسن
اس شہر کے رہنے اور بسنے والے لوگ آج بھی صرف محنت اور ملکی ترقی کے لیے دن اور رات کوشاں رہتے ہیں۔
پہلے کراچی میں کاروباری لوگ جوق در جوق آیا کرتے تھے، جو ایک منظم سازش کے تحت کم سے کم ہوتے چلے گئے جس سے نہ صرف کاروباری نقصان ہوا بلکہ وہ رونقیں دبئی کی زینت بنتی چلی گئیں جو اصل میں کراچی کا خاصہ تھیں۔کراچی ہمارے ملک کا ایک ایسا شہر ہے جو پاکستان کو دنیا میں معاشی لحاظ سے اور بندرگاہ کے حوالے سے نمایاں کرتا ہے۔ اس شہر کے رہنے اور بسنے والے لوگ آج بھی صرف محنت اور ملکی ترقی کے لیے دن اور رات کوشاں رہتے ہیں۔
کراچی میں بجلی نہیں کہ رات کو چین سے سو سکیں، پینے کا پانی نہیں، سیوریج کا نظام اپنے سسٹم سے آؤٹ لیکن یہاں رہنے والے روزگارکے لیے کسی میرا تھن ریس کی طرح معلوم ہوتے ہیں۔ صبح کے نمودار ہوتے ہی سیکڑوں کلومیٹر پر محیط آبادی کے درمیان اس کی سڑکیں موٹرگاڑیوں کی آواز اور مسافروں کی آمدورفت سے ملک کی اقتصادی و معاشی کفالت اور ٹیکس کی ادائیگی میں حصہ داری کرنا شروع کردیتی ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی کی عوام جو صبح 6 سے 7:30 بجے تک یعنی ڈیڑھ گھنٹے میں تقریباً 16لاکھ افراد مرد و خواتین اپنے روزگار کے لیے نکل چکے ہوتے ہیں جب کہ دوسری شفٹ ان لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جو 7:30 سے 9:00 بجے کے درمیان جانے والے ہوتے ہیں اور ان میں بیشتر وہ لوگ ہوتے ہیں جنکے پاس اپنی کوئی سواری نہیں۔
موٹرسائیکل ہو تو ہو ورنہ ٹوٹی پھوٹی گنتی میں بے انتہا کم بسیں جن میں معصوم عوام اپنے کام پہ جاتے ہوئے اس کے علاوہ گرتی پڑتی چنگچیاں ان کا مقدر ہوتی ہیں اور پھر کاروباری افراد تیسری شفٹ کے ہوتے ہیں جو صرف بازار میں کام کرنے والے ہیں ان میں بیشتر وہ ہوتے ہیں جو بسوں میں لٹکے یا چھتوں میں بیٹھے نظر آتے ہیں اور چوتھا نمبر ان لوگوں کا ہے جو خریدار بن کر بازاروں کی رونق بڑھاتے ہیں لیکن ان کی تعداد اب گھٹ رہی ہے پھر بھی ان نامساعد حالات کے ساتھ ساتھ اس شہر کراچی کے کروڑوں افراد پورے ملک کی معیشت میں جو اپنا حصہ بذریعہ ٹیکس بلواسطہ اور بلاواسطہ روز ادا کررہے ہوتے ہیں جو تقریباً ایک دن میں اربوں روپے ہوجاتا ہے۔
اب میں قارئین کی توجہ اس جانب لانا چاہتی ہوں جہاں چند ماہ پہلے ایک سماعت کے دوران ہماری سپریم کورٹ نے عدالتی حکم جاری کیا اور پھر اس کو فوری طور پر نافذ کرنے کے لیے عمل درآمد بھی شروع کروایا گیا یعنی ناجائز تجاوزات کے خلاف کارروائی اور میئر کراچی کے حکم پر عمل کروانے کا پابند کیاگیا یعنی کراچی کے شہریوں کے ووٹ سے منتخب نمایندہ ہی اپنے شہریوں کی تجاوزات کو مسمار کرے۔ اب یہاں ایک بات جو توجہ طلب ہے کہ یہ منہدم کیے جانے والے کوارٹرز ہاؤسنگ اینڈورکس کی زمین پر تقریباً 70 سال سے آباد ہیں جب کہ یہ آبادیاں مارشل لاء آرڈر ریگولیشن نمبر110 اور 1978ء میں آرڈر نمبر 183 میں بطور کچی آبادی نوٹیفائیڈ ہوکر گزٹ پاکستان میں شایع ہوچکا ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ صرف کراچی میں تقریباً 575 کچی آبادیوں کو مالکانہ حقوق دیے جاچکے ہیں جن میں 80سے زیادہ آبادیاں وفاقی وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس کی زمین پر قائم ہیں جو لیز بھی ہیں لیکن پاکستان کوارٹرز، مارٹن کوارٹرز ، جہانگیر روڈ اور کلیٹن روڈ سمیت لاتعداد نوٹیفائیڈ آبادیوں کو اب منہدم کیاجارہا ہے۔ کیا کراچی کے علاوہ پاکستان کے کسی اور شہر میں ایسی آبادیوں کو خالی یا منہدم کروایاگیا؟
اگر نہیں تو یہ امتیازی ظالمانہ سلوک صرف کراچی کے خلاف ایسے علاقوں میں کیوں کیا جارہا ہے جہاں کثیر تعداد میں پاکستان بنانے والوں کی نسلیں رہتی چلی آرہی ہیں جب کہ یہ بات روز روشن کی طرح سب پہ واضح ہے کہ کسی بھی قسم کا قانونی یا غیر قانونی کام کرنا ہو تو علاقہ پولیس کی حمایت اور چند سرکاری اداروں کی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں اب جس طرح کا تذلیل آمیز رویہ عوام کے ساتھ ان محکموں کے اہلکاروں کا ہوتا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں جب کہ یہ ہی ادارے ناجائز تعمیرات میں پیش پیش اور قابضین کے ہمنوا ہوتے ہیں اور اس سے زیادہ رفتار جائز تعمیرات کو نیست و نابود کرنے میں یہ پھرتی دکھاتے ہیں جس کی واضح مثال حالیہ دنوں میں ہی ریلوے کی زمینیں خالی کرواتے ہوئے دیکھنے میں آئی۔
قانون کے مطابق ریل کی پٹڑی سے تقریباً 46 فٹ دائیں اور بائیں جگہ خالی درکار ہوتی ہے لیکن کراچی کی 10 بستیوں میں بلڈوزر اس طرح سے چلائے گئے کہ پٹڑی کے ارد گرد کی آبادی جو انہدام کے زمرے میں نہیں آتی تھی ان تک کو برق رفتاری سے اکھاڑ پھینکا۔ ایک ظلم یہ بھی ہے کہ کراچی کے شہری اداروں پر صوبائی حکومت نے بغیر کسی آراء یا کمشنر کی مرضی کے بغیر کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی بنادیاگیا ۔ یاد رہے کہ (کالعدم) سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی ایک کثیر المنزلہ پاکستان کا سب سے پہلا پارکنگ پلازہ تعمیر کررہی تھی لیکن اس کی اجازت نہیں دی گئی ۔
کراچی کی موجودہ صورت حال پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو شہر میں ناجائز تعمیرات کے ذمے دار وہ غیر مقامی باشندے ہیں جن کی وجہ سے اس شہر کے حسن کو پامال کیاگیا ۔ مثلاً بعض علاقوں میں سب سے پہلے ریتی اور اینٹوں کے تھلے بنائے گئے جس کے لیے کھلی زمین کا انتخاب پہلی ترجیح ہوتا ہے۔ اس کے لیے مقامی پولیس کی بھرپور تائید بھی حاصل کی جاتی ہے پھر قرب و جوار میں پلاٹ کاٹنے کا عمل شروع کیاجاتا ہے جس میں لینڈ ریوینو کے کارندے اور لینڈ گریبر کی ملی بھگت سے سب سے پہلے چند دکانیں اور ہوٹل بنائے جاتے ہیں اس کے بعد اس کام میں ٹرانسپوٹروں کو شامل کیا جاتا ہے کیونکہ ٹرانسپوٹ ایک اہم مسئلہ ہوتی ہے وہ اس کمی کو پورا کردیتے ہیں۔
گزرنے والی پانی کی لائن کو توڑ کر پانی کے کنکشن بھی لے لیے جاتے ہیں۔ قریب یا دورسے گزرنے والے بجلی کے تاروں سے کنڈے ڈال کر بجلی بھی فراہم کردی جاتی ہے یوں وہ علاقہ ایک آبادی کی شکل اختیار کرتا چلا جاتا ہے اور اگر گیس لائن قریب نہ ہو تو گیس سلینڈر کی دکان کھلوائی جاتی ہے تاکہ رہنے والوں کو مزید آسانی مہیا ہوسکے اور مزید لوگ آکر آباد ہوں۔ ورکشاب، پنکچر شاب، ہیئر سلون اور کلینک بھی کھلوائے جاتے ہیں تاکہ لوگوں کو تمام سہولتیں مل سکیں۔
کراچی کے جن مضافاتی علاقوں سے یہ ابتدائی کام شروع ہوا تو ان میں سب سے پہلے ابراہیم حیدری، منگوپیر، اتحاد ٹاؤن ،کٹی پہاڑی ، بنارس، فقیر کالونی، قائد آباد سے ملحق آبادیاں، شیرشاہ، ہاکس بے، ماڑی پور، میمن گوٹھ ، شاہ لطیف ٹاؤن، نادرن بائی پاس کے گردونواح کا ایریا، سائٹ ایریا سے منسلک علاقے، لیاری ندی کے کنارے، سہراب گوٹھ کا علاقہ، سرجانی ٹاؤن، گلشن اقبال سے متصل ایریا اور گلستان جوہر میں موجود غیر قانونی آبادیوں کے علاوہ سپرہائی وے پر موجود غیر قانونی بازار اور مارکیٹس ، بن قاسم کا علاقہ جہاں اب بڑی بڑی کالونیوں کے علاوہ ورکشاپ بھی قائم ہوچکے ہیں جب کہ ان آبادیوں کو جو کھلم کھلا غیر قانونی ہیں کسی کو گرانے یا منہدم کرنے کی نیت سے ہاتھ تک نہیں لگایا گیا۔ اس کے برعکس تقسیم برصغیر کے بعد کراچی میں بسنے والے مہاجروں نے باقاعدہ قانونی طور پر اور شہری قوانین کو اپناتے ہوئے مشترکہ رہائشی آبادیاں تشکیل دیں جو کوآپریٹوسوسائٹیز کے نام سے جانی جاتی ہیں اور جو ٹاؤن پلاننگ کے ماہرین کے مشورے اور مروجہ قواعد کو مدنظر رکھ کر بنائی گئی تھیں لیکن بدقسمتی ہے ۔
ان کے نام کے ساتھ برصغیر کے علاقوں کے کچھ نام منسلک تھے اس وجہ سے ان کو نہ تو ترقی دی گئی اور نہ ہی بنیادی سہولتیں ان علاقوں تک پہنچانے کی کوشش کی گئی جب کہ اس کے برعکس ان سوسائٹیز کے ارد گرد اور ان کے اندر بھی قبضے کروائے گئے بعد ازاں صوبائی حکومتوں نے گوٹھ آباد کے نام سے ان کچی آبادیوں کو نہ صرف لیز دی بلکہ گیس، بجلی اور پانی جیسی بنیادی سہولتوں کو حکومتی رعایت کے ساتھ فراہم بھی کیا اور اداروں کا ترقیاتی بجٹ بھی ان ہی علاقوں پر خرچ کیاگیا جب کہ شہری علاقے جو پراپرٹی ٹیکس ، انکم ٹیکس اور بلدیاتی ٹیکس باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں ان کو نظر انداز کیاگیا ۔
نئے اور پرانے تمام گوٹھوں سے ہٹ کر چند سیکٹر جہاں اردو بولنے والے مہاجر تقریباً آدھی صدی سے رہائش پذیر ہیں وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ انہدام کے فیصلے کے ریڈار پر صرف وہ ہی کیوں جن کی داد رسی بھی کہیں نہیں ہورہی ،لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی یکجہتی اور ملکی سالمیت ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے اور ان کو قائم رکھنے کے لیے معیشت کو مضبوط تر کرنا ہوگا جس کی بنیادی ضرورت شہر کا نظم و نسق بین الاقوامی معیار پہ لانے کے لیے اس کو پامالی سے بچانا ہوگا۔