ٹیکس کا نظام اور عوام
پاکستان گزشتہ دس برس سے ٹیکس کے بجائے قرض پر چلایا جا رہا ہے۔
KARACHI:
بائیس کروڑ عوام میں انکم ٹیکس دینے والے صرف بارہ لاکھ ہیں،اس میں بھی پانچ لاکھ سرکاری ملازم ہیں، اس ملک کوگزشتہ دس سالوں میں بیرونی قرضوں سے چلایا گیا، دس سال میں چوبیس ہزار ارب کا قرضہ اس ملک میں لیا گیا اس میں سے ملک میں کتنا خرچ ہوا یہ کہیں نظر نہیں آتا، نہ کوئی بڑا ڈیم بنا اور نہ ہی کوئلے سے کوئی پلانٹ لگایا گیا۔
البتہ 2013سے 2018تک بجلی کے پلانٹ میں اضافہ ضرور ہوا، مگر اس کے نظام تقسیم میں بہت نقائص تھے ، بجلی کی چوری بہت زیادہ تھی، اس پر توجہ نہ دی گئی، جنرل پرویز مشرف دور اقتدار کے پہلے تین برس میں پارلیمنٹ معطل تھی اور اس کی وجہ سے خزانے پر بوجھ کم ہوا اور سرکاری آمدنی میں اضافہ ہو لیکن پھر امریکا میں نائن الیون کا واقعہ ہوا، اس زمانے میں پاکستان کو بہت امداد ملی ، جنرل پرویز مشرف جن کی حکومت کا دور قدرے بہتر تھا ، انھوں نے کراچی جیسے شہر میں بجلی کی پیداوار میں اس رسد کے مطابق اضافہ نہیں کیا نہ ہی کوئی پاور پلانٹ لگایا اس طرح ملک میں انرجی بحران پیدا ہوتا چلا گیا اور مقامی صنعتکار اپنی صنعتیں بند کرنے پر مجبور ہوگئے۔
بے روزگاری بڑھی جو آج تک بڑھتی جا رہی ہے، ملکی ضروریات مقامی صنعتکاری کے بجائے بیرونی ممالک خاص طور پر چائنا سے پوری کی جانے لگی اور نتیجہ یہ نکلا کہ درآمدات بڑھ گئیں اور برآمدات کم ہوتی چلی گئی۔
پاکستان گزشتہ دس برس سے ٹیکس کے بجائے قرض پر چلایا جا رہا ہے اور ملک کی قومی آمدنی اور بیرونی قرضہ سب ملا کر آمدنی کا 65 فیصد قرضہ کے سود میں جانے لگا، کسی حکومت نے پاکستان میں انکم ٹیکس کے نیٹ ورک میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔ کم سے کم 2کروڑ لوگوں سے انکم ٹیکس لیا جاتا توآج ملک ایشیا میں معاشی طور پر مستحکم اور سب سے مضبوط ہوتا۔
اب جو حکومت آئی ہے اس نے انکم ٹیکس کا آغازکیا ہے مگر یہ آغاز اتنا بے ہنگم اور خوفناک طریقے سے کیا ہے کہ ملک کا ہر طبقہ خوفزدہ ہے، چاہے صنعتکار ہوں یا تاجر، حتیٰ کہ ایک چھوٹی سی دکان چلانے والا بھی پریشان ہے خاص طور پر فائلر اور نان فائلرکے نظام نے لوگوں کو بے چین کردیا ہے۔ ایف بی آر نے لوگوں کو خوفزدہ کردیا ہے، خاص طور پر یہ سوچے سمجھے بغیرکہ بائیس کروڑ عوام کسی نہ کسی شکل میں ٹیکس دیتے آ رہے ہیں، جس میں بجلی ،گیس ، موبائل فون، پٹرول، ڈیزل، مٹی کا تیل ، سی این جی ، سفری ٹکٹس، بینک میں ود ہولڈنگ ٹیکس ،کتابوں پر، ٹوتھ پیسٹ، صابن، ہوٹل کے کھانوں پر،گاڑیوں کے ٹیکس، ہوٹل میںقیام وطعام کا ٹیکس، یہ ٹیکس تو سب ہی ادا کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ سیلز ٹیکس اتنا ٹیکس دینے والوں پر مزید انکم ٹیکس کا بوجھ ڈالنا سراسر ظلم ہے، اس طرح ملک ترقی نہیں کر ے گا۔ اب حال یہ ہے جو جائیداد کرائے پر دی جاتی ہے، اس پر بھی ٹیکس وصولی شامل ہو رہی ہے، حالانکہ اس میں کم سے کم یہ خیال کرنا تھا بعض خاندان جو ملک میں تیس فیصد بنتے ہیں، ان کے گھرکے اخراجات اس ہی کرائے سے پورے ہوتے ہیں، جو انھوں نے کرائے پر دی ہوتی ہے۔ اس میں اس بات کو شامل کیا جائے کہ کرایہ پر دی گئی جائیداد میں اگر ایک سے زیادہ ہے تو ایک پر ٹیکس لگادیں،اس ہی طرح جس گھر میں 1300سی سی تک ایک سے زیادہ گاڑیاں ہیںتو ان پر ٹیکس لگائیں اور خاص طور پر یہ نظام لایا جائے کہ جو مکان 120گز سے بڑا ہے اس پر بجلی، پانی،گیس ، ٹیلی فون کا ٹیکس زیادہ لیا جائے اور وہ بھی رقبہ کی نوعیت پر۔
اس وقت حال یہ ہے کہ تمام یوٹیلیٹی ٹیکس کا تناسب سارے رقبہ پر ایک جیسا ہے جب کہ یہ ٹیکس 250گز سے 500گز اور 500گز سے 1000گز اور 1000گز سے 5000گزکے پلاٹ پر بنے ہوئے مکان پر ہو، اگر دو منزلہ ہے تو ڈبل ٹیکس ہو، اگر ایسے لوگوں کا چناؤ ہو جن کے مکانات 250سے لے کر 5000گز تک ہیں تو صرف کراچی شہر میں اربوں روپے مل سکتے ہیں مگر ٹیکس کی مقدار آٹے میں نمک کے برابر ہو تو پھر ہر کوئی خوشی سے ادا کرے گا اور وہ عوام جو 120گزکے مکانات یا 500 مربع فٹ کے فلیٹ میں رہتاہے۔
اس کے لییے تمام یوٹیلیٹی بلز میں ٹیکس کی 20فیصد کمی کی جائے، اس کے علاوہ جتنی دکانیں کم سے کم 20x20مربع فٹ کی ہیں ۔ان پر معمولی سا ٹیکس لگائیں جو ماہانہ 1500روپے سے زیادہ نہ ہوا اس طرح دکان کا جتنا بڑا سائز اتنا ہی ٹیکس بھی لگایا جائے۔اس وقت ایف بی آر کا خوف عوام میں بہت زیادہ ہے، اس لیے اس پر توجہ دی جائے اور سب سے پہلے ایسے دس لاکھ لوگ تلاش کریں جن کی ماہانہ آمدنی 50 لاکھ ہے، پھر دس لاکھ وہ تلاش کریں جن کی ماہانہ آمدنی چالیس لاکھ ہے اور ماہانہ تیس لاکھ آمدنی والے اور اس ہی طرح کم کرتے کرتے دس لاکھ ماہانہ آمدنی والے لوگوں کو تلاش کیا جائے۔
اس طرح کم از کم ایک کروڑ لوگ ایسے مل جائیں گے جن کی ماہانہ آمدنی 50لاکھ سے 5لاکھ ماہانہ ہے ان کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے اور انھیں پاکستان کا وی آئی پی شہر ی قرار دیا جائے انھیں ہوٹلوں ، ایئر لائنز ، ریلوے اور تمام ایسے اداروں میں جہاں عوام کا واسطہ ہے مثلا شناختی کارڈ کا دفتر یا پاسپورٹ کا دفتر ، پراپرٹی ٹیکس کے دفتر، پولیس کے دفتر ان کا وی آئی پی استقبال ہو، اس طرح انھیں بھی عزت ملے گی اور ملک کی آمدنی میں اضافہ ہوگا۔
پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں جو اربن کہلاتے ہیں خوبصورت پارک ،کھیل کے میدان، تفریح گاہیں بنائی جائیں جہاں مناسب قیمت کا ٹکٹ ہو، اس ٹکٹ سے جوآٓمدنی ہو وہ اسی پارک یا کھیل کے میدان تفریح گاہوں پر خرچ ہو اور اس میں دس فیصد حکومت وصول کرے، یہ ٹیکس صوبائی حکومت کا حق ہو اور اس کے ساتھ یہ ترغیب دیں کہ تمام صنعتکارکاروباری مراکز اپنا بجلی کا نظام خود وضع کریں چاہے وہ جنریٹر ہو یا سولر سسٹم اس کے لیے حکومت بغیرکسی ٹیکس کے جنریٹر اور سولر سسٹم کو درآمد کرنے کی اجازت دے اور اس نئے پاکستان میں سب سے پہلے صوبائی دارالخلافہ میں انفراسٹریکچر کو تیزکیا جائے اور ٹرانسپورٹ ، بجلی،گیس کی قلت دورکی جائے ، بلدیاتی نظام میں زیادہ سے زیادہ اختیار دیا جائے۔
اس نئے پاکستان میں طلباء طالبات کا خاص خیال رکھا جائے ، تمام نجی اسکولوں میں فیس زیادہ سے زیادہ دس ہزار ماہانہ ہو وہ بھی اسکول کے معیارکو دیکھ کرکی جائے ، فیس میں اضافہ پانچ فی صد سالانہ کیا جائے گرمیوں اور سردیوں کی چھٹیوں میں صرف ٹیوشن فیس لی جائے، راقم الحروف کو قارئین کے فیڈ بیک کا انتظار رہے گا۔