ایک سال گزر گیا پولیس سانحہ بلدیہ فیکٹری کے مجرموں کو بے نقاب نہ کر سکی

گزشتہ برس گارمنٹس فیکٹری میں آتشزدگی سے259 مزدور ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔


Arshad Baig September 10, 2013
پولیس افسر نے ذمے دار افسران کو بے گناہ قرار دیا،عدالت نے رپورٹ مسترد کردی۔ فوٹو : فائل

SAGI BALA: سائٹ میں واقع گارمنٹ فیکٹری میں آتشزدگی کے افسوس ناک سانحے کو ایک برس بیت گیا لیکن عدالت میں ذمے داروں کو بے نقاب کرنے میں پولیس تاحال ناکام ہے۔

سانحے کو ایک برس گزرنے کے باوجود اب تک واقعے میں ملوث ملزمان پر فرد جرم عائد نہیں ہوسکی، پولیس کی جانب سے ملزمان کو متعدد بار بچانے کی کوشش کی گئی لیکن عدالت کی اور سرکاری وکلا کی مداخلت نے پولیس کو غیرقانونی اقدام سے روکے رکھا، پولیس مفرور ملزم گرفتار کرنے میں ناکام رہی، 259 مزدوروں کے قتل میں نامزد تمام ملزمان ضمانت پر رہا ہوچکے ہیں،گزشتہ برس11ستمبر کی شام بلدیہ میں واقع علی انٹر پرائز گارمنٹس فیکٹری میں شام 6 بجے آگ لگ گئی تھی اس موقع پر فیکٹری مالکان،انتظامیہ اور دیگر اداروں کی غفلت سے خواتین سمیت259 مزدور زندہ جل کر ہلاک ہوگئے تھے۔



جبکہ سیکڑوں مزدور شدید زخمی ہوگئے تھے متعدد مزدورں نے اپنی جان بچانے کیلیے بالائی منزل سے چھلانک لگائی اور معذور ہوگئے، پولیس رپورٹ کے مطابق فیکٹری کے مالکان شاہد بھائیلہ ، ارشد بھائیلہ اور جنرل منیجر منصور موقع پر موجود تھے لیکن انھوں نے فوری طور پر فائر بریگیڈ کو طلب نہیں کیا اور نہ ہی گودام کے قریب پہلی منزل جانے والی سیڑھی کا آہنی دروازہ کھولا، پڑوسی پلاٹ کے مالک محمد حنیف نے فائربریگیڈ کو مطلع کیا مالکان اپنا سامان بچانے میں مصروف رہے اور مزدروں کو زندہ جلتے ہوئے بے سہارا چھوڑ کر فرار ہوگئے تھے۔

آگ بجھانے اور امدادی کاموں میں تاخیر سے 259 مزدور جل کر ہلاک ہوگئے درجنوں افراد شدید زخمی ہوئے جبکہ فیکٹری میں لگی آگ پر 2 روز بعد قابو پایا جاسکا تھا،کسی نے سانحے کی ذمے داری قبول نہیں کی تھانہ سائٹ بی کے ایس ایچ او نے ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرکے اپنی ذمے داری پوری کی ،سانحے کی تفتیش مختلف افسران کو دی گئی چالان کی منظوری سے قبل پراسیکیوٹر نے دفعہ 435/236 جو آگ لگانے سے متعلق تھی کو چالان سے نکال دیا لیکن عدالت نے پراسیکیوٹر کے ریمارکس مسترد کردیے تھے اور کہا تھا کہ یہ اختیار صرف سیشن جج کی عدالت کو ہے۔



پولیس کے تفتیشی افسر نے لیبر ڈائریکٹر ، ایم ڈی سائٹ ، سول ڈیفنس اور الیکٹریکل انسپکٹر کو بھی سانحے کا ذمے دار ٹھہرایا تھا لیکن دوسرے پولیس افسر نے انھیں دوران تفتیش بے گناہ قرار دیا جس پر عدالت نے پولیس رپورٹ مسترد کردی تھی اور زاہد قربان شیخ نے ڈائریکٹر لیبر ،ایم ڈی سائٹ رشید احمد، غلام اکبر ، ایڈیشنل ڈائریکٹر کنٹرولر سول ڈیفنس اور الیکٹرک انسپکٹر امجد کے خلاف فوری کارروائی اور مفرور ملزم شاہ رخ کی گرفتاری کا حکم دیا تھا۔

3 سے 4 ماہ تک تحقیقات ہوتی رہی عدالت پولیس کی ناقص تفتیش سے مطمئن نہ ہوئی پولیس نے فیکٹری کے مالکان عبدالعزیز ، ارشد بھائیلہ ، شاہد بھائیلہ ، منصور ، سیکیورٹی گارڈ فضل احمد،علی مراد کے خلاف چالان جمع کرایا اور ضمنی چالان میں دوبارہ قتل کی دفعہ کو خارج کرکے صرف قتل بالسبب کی دفعہ کو برقرار رکھا،اس موقع پر وکیل سرکار نے اعتراض داخل کیا اور عدالت کو تحریری طور پر آگاہ کیا کہ پولیس نے چالان جانچ پڑتال کرائے بغیر جمع کرایا ہے اور اپنی مرضی سے قتل کی دفعہ خارج کی ہے اس درخواست پر نوٹس جاری ہوئے بحث ہوئی جج کا تبادلہ ہوگیا۔



مقدمہ التوا کا شکار ہوتے ہوتے ایک برس گزرگیا تمام مرحومین کے لواحقین اپنے پیاروں کی پہلی برسی منارہے ہیں لیکن قاتل تاحال بے نقاب نہیں ہوسکے ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک برس بیت جانے کے باوجود ملزمان پر فرد جرم بھی عائد نہ ہوسکی جبکہ پولیس نے جوڈیشل پالیسی کی خلاف ورزی کی اور چالان 3 ماہ کی تاخیر سے جمع کرایا، چالان کے جمع ہونے کے بعد ہی ملزمان کو پراسیکیوشن کی جانب سے مقدمے کی نقول فراہم کی جانی چاہیے تھیں جو نہ ہوسکی عدالتی ذرائع کے مطابق 29 ستمبر کو مقدمے کی سماعت ہے اس موقع پر پراسیکیوشن مقدمے کی نقول فراہم کرے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں