فرق تلاش کیجیے
وہ بھی بین الاقوامی سود خوروں سے قرضے لیتے تھے،یہ بھی لے رہے ہیں ۔اور بقول شاعر قرض کی مئے پی بھی رہے ہیں
کھانے کے بعد ہوٹل کے کاونٹر پر ادائیگی کرتے ہوئے گاہک نے ہوٹل کے مالک سے پوچھا '' کیا آپ نے باورچی تبدیل کر دیا ہے '' ؟ سیٹھ کی بانچھیں کھل گئیں ، اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اس نے گاہک سے پوچھا '' جناب آپ کو کیسے معلوم ہوا ؟ کیا آپکو کھانے کا ذائقہ آج اچھا لگا ؟ یقیناً یہی بات ہوگی '' گاہک نے نفی میں سر ہلا کر جواب دیا '' سالن تو حسب سابق بد ذائقہ ہی تھا بلکہ پہلے سے بھی زیادہ بد ذائقہ تھا ، لیکن باورچی کی تبدیلی کا علم مجھے اس وجہ سے ہوا کہ روزانہ سالن میں سے کالے رنگ کے بال نکلا کرتے تھے ، جب کہ آج سفید بال برآمد ہوئے تو میں سمجھ گیا کہ ہوٹل کا باورچی تبدیل ہوچکا ہے '' نئی حکومت اور سابقہ حکومت کی کارکردگی میں بھی بالکل یہی '' بال برابر کا فرق '' موجود ہے ۔
وہ بھی بین الاقوامی سود خوروں سے قرضے لیتے تھے،یہ بھی لے رہے ہیں ۔اور بقول شاعر قرض کی مئے پی بھی رہے ہیں، لوڈ شیڈنگ جوں کی توں موجود ہے ۔کراچی میں اوسطاً درجن بھر افراد بدستور ٹارگٹ کلرزکا نشانہ بن رہے ہیں ۔ ڈالر کے مقابلے میں روپیہ اپنی قدر مسلسل کھو رہا ہے ۔ بلکہ ناقدری کی رفتار مزید تیز ہوگئی ہے ۔ بجلی اور تیل کی قیمتوں میں اضافے کی ریس بالکل پہلے کی طرح لگی ہوئی ہے ۔ رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان پر مزید ٹیکس کا بوجھ لاد دیا گیا ہے ۔
آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضہ لے کر قومی خزانے میں شامل کرنے کے بعد زرمبادلہ کے ذخائر بڑھنے پر پہلے شادیانے بجائے جاتے تھے اب بھونپو بجائے جارہے ہیں ۔ پہلے سرکلر ڈیٹ کی عدم ادائیگی کو بجلی کے بحران کا اصل سبب بتایا جاتا تھا ۔ موجود حکومت تقریباً پونے پانچ سو ارب کی ادائیگی کرچکی ، لیکن لوڈ شیڈنگ میں گھنٹہ دوگھنٹے اضافہ ہی ہوا ہے کمی بالکل نہیں آئی ۔ کراچی کے مسئلے پر پہلے بھی اعلیٰ احکام کی میٹنگز کے بعد سابق وزیر داخلہ پریس کو آگاہ کیا کرتے تھے ۔ اب بھی یہی ہو رہا ہے ۔ فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ سابق وزیر داخلہ ٹائی لگاتے تھے ، موجودہ وزیر نہیں لگاتے ہیں ۔ پچھلے دنوں وزیر اعظم صاحب اپنی کابینہ اور شہر کے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ کراچی میں ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے اور پھر یہ فیصلہ ہوا کہ رینجرز اور پولیس کراچی میں بلا امتیاز اور '' بلا تفریق '' آپریشن کر کے جرائم پیشہ عناصر اور ٹارگٹ کلرز کا قلع قمع کریںگی ۔
جب بھی اس قسم کا کوئی اعلان ہوتا ہے تو اس میں بلا امتیاز اور بلا تفریق کے الفاظ ضرور شامل کردیے جاتے ہیں اور یہی الفاظ ساری گڑبڑ کا راز فاش کردینے کے لیے کافی ہوتے ہیں ۔ یہ الفاظ چیخ چیخ کر اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ امتیاز بھی برتا جائے گا اور تفریق بھی نظر آئے گی ۔ حالانکہ سیدھی سی بات ہے قانون کے نفاذ کا مطلب اور اس کی تعریف یہی ہے کہ اس کا نفاذ بلا امتیاز اور بلا تفریق کیا جائے ۔ لیکن اس کا نفاذ کرنے والے اپنے سیاسی مفادات اور مصلحتوں کو کہاں لے جائیں ؟ انھیں لاشعوری طور پر یہ خیال دھلاتا رہتا ہے کہ عوام اس بارے میں شک و شبے کا شکار رہیں گے ، لہذا وہ قانون پر عملدر آمد کرنے کے اعلان کے ساتھ یہ کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ قانون کا نفاذ بلا امتیاز ہوگا ۔ حالانکہ صرف اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا جائے گا ۔
بالکل اسی طرح جیسے ہم انتخابات کے ساتھ ، آزادانہ ، منصفانہ ، غیر جانبدارانہ اور شفاف کے القاب و آداب لگانا ضروری خیال کرتے ہیں ۔ جب کہ انتخابات اگر آزادانہ ، غیر جانبدارانہ ، منصفانہ اور شفاف نہ ہوں تو پھر انتخابات کا فائدہ ؟ لیکن ہماری انتخابی تاریخ بتاتی ہے کہ انتخابات آزادانہ ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہوں یا نہ ہوں ، شفاف ضرور ہوتے رہے ہیں ۔ اتنے شفاف کہ عوام کو دھاندلی ہر مرتبہ بالکل صاف نظر آئی ۔ عوام کے کان پک گئے ہیں ان الفاظ کی گردان سنتے سنتے ۔ اب جب سے کراچی کے حالات خراب ہوئے ہیں ، کچھ اور جملے ایسے مزید ان بیانات میں شامل ہوچکے ہیں ، جن کے بارے میں عوام کو پیشگی معلوم ہوتا ہے کہ یہ ضرور حکمرانوں کے بیانات کا حصہ ہوں گے ۔
مثلاً کراچی ملکی آمدنی کا 70 فیصد ریونیو دینے والا شہر ہے ۔ کراچی پاکستان کی شہ رگ ہے ، کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے ، کراچی منی پاکستان ہے اور کراچی شہر کے خراب حالات کا اثر پورے ملک پر پڑتا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ جملہ تو اتنا مقبول ہوچکا ہے کہ عوام کو حفظ ہوجانے کے باوجود بھی سیاستدان اور حکمران عوام کو رٹوانے سے باز آنے کو تیار نہیں ہیں یعنی '' سب کو مل جل کر ، کراچی کے مسائل کا حل نکالنا ہوگا '' ۔ اس جملے کو اس طرح اور اتنی مرتبہ دہرایا جاچکا ہے ، جیسے کہ عوام حل نکالنے والوں کو اس عمل سے روکنے پر مجبور کردیتے ہوں ۔
کتنی دلچسپ بات ہے کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈرز جنھیں کراچی کے مسئلے کا حل نکالنا ہے ۔ علیحدہ علیحدہ یہی بیان دے کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں کہ '' سب کو مل جل کر اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ہوگا ۔'' ارے بھائی ، حل تلاش کرو نا ! کون روکتا ہے ؟ بلکہ بجائے بیان دینے کے مل جل کر حل نکال ہی لو ، جب مسئلہ حل ہوجائے گا تو سب کو نظر آجائے گا ، آپ کو بیان دینے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی کہ مسئلہ حل ہوچکا ہے ۔ بازاروں کی گہما گہمی اورکاروباری سرگرمیاں خود ہی اس کا عملی طور پر اعلان کردیں گی ۔
اب موجودہ حکومت وہی ایکشن ری پلے پھر چلا رہی ہے ۔ اورآخر میں فیصلہ یہی ہوا ہے کہ آپریشن رینجرز کرے گی اور پولیس اس کی معاونت کرے گی ۔ وہی پولیس جو سیاسی بھرتیوں سے اٹی پڑی ہے ۔ جب کراچی کی سب سے بڑی اسٹیک ہولڈر سیاسی جماعت ایم کیو ایم یہ کہہ رہی ہے اور اے این پی بھی اس کی ہم آواز ہے کہ آپریشن فوج کے ذریعے کروایا جائے جس کی آئین بھی اجازت دیتا ہے تو آخر اس میں مضائقہ کیا ہے ؟ خود وزیر اعظم صاحب کہہ رہے ہیں کہ عوام کو پولیس پر اعتماد نہیں رہا ہے ، لیکن رینجرز کی معاونت پھر بھی یہی پولیس کرے گی ؟ یعنی پھر اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے کی تیاری کی جا رہی ہے ۔ لہذا نتیجہ پہلے ہی سے نظر آتا ہے ۔
ذوالفقار چیمہ کو آئی جی سندھ لگانے اور موجودہ آئی جی کو ہٹانے کی خبر سرکاری ٹی وی سے نشر ہو جانے کے بعد پی ایم ہاؤس نے اعلان کردیا کہ ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے ۔ یہ ہے مل جل کر کراچی کا مسئلہ حل کرنے والوں کے اتفاق رائے کا شاہکار فیصلہ ۔ چیمہ صاحب کے گزشتہ کارناموں کو اگر ایک طرف رکھ دیں تو پچھلے دنوں پاسپورٹ آفس کے لیمینیشن پیپرز کا جو اسکینڈل منظر عام پر آیا تھا اس بگڑے ہوئے کام کو ذوالفقار چیمہ نے ہی درست کیا تھا ۔
اس معاملے میں اگر کرپشن کے بارے میں یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ نہیں ہوئی تو غفلت تو لازمی ہوئی تھی ۔ یہ غفلت کس نے برتی ؟ موجودہ حکومت نے اس کی نشاندہی کی اور نہ ہی ذمے داروں کے خلاف کارروائی کی گئی ۔ تاریخ کا یہ نپا تلا فارمولا ہے کہ جب تک احتساب نہیں ہوگا ، حالات درست ہو ہی نہیں سکتے ۔ ذوالفقار چیمہ میرٹ اور قانون کے مطابق کام کرتے ہیں ۔ لیکن انھیں آئی جی سندھ نہیں لگایا جارہا ہے ۔ لہذا سابقہ اور موجودہ حکومت میں کیا فرق رہا ؟ آپ بھی فرق تلاش کریں اور میں بھی کرتا ہوں ۔