کراچی ہم سب کا ہے
مرکزی کابینہ کی کراچی میں ہونے والی میٹنگز، وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے دورے، کراچی کے معاملات کو۔۔۔
مرکزی کابینہ کی کراچی میں ہونے والی میٹنگز، وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے دورے، کراچی کے معاملات کو صوبائی حکومت کے کنٹرول میں رکھنے اور رینجرز کو متحرک اور فعال کرنے کے حوالے سے حال ہی میں جو پیش رفت ہوئی ہے اس کے بعض حصوں سے جزوی اختلافِ رائے کی گنجائش سے قطع نظر یہ ایک بہت ضروری اور اہم قدم ہے جو اس انتہائی سنگین مسئلے کے حل کے لیے اُٹھایا گیا ہے۔ اس عمل میں کم و بیش تمام بڑی سیاسی پارٹیوں نے حصہ لیا ہے اور باہمی اتفاق رائے سے پہلی بار دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ایک باقاعدہ اور مؤثر نظر آنے والی پالیسی وضع کی گئی ہے، جس کے لیے حکومت اور اپوزیشن دونوں مبارکباد کی مستحق ہیں۔
میں نے اس صورتِ حال، اس کے تاریخی پس منظر اور اس کے حل کے لیے عوام کی اُمنگوں، دعائوں اور التجائوں کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے، سو میں تجزیوں اور اختلافی امور سے ہٹ کر اس سارے منظر کو ایک شاعر اور سوچنے والے عام پاکستانی کی نظر سے ہی دیکھوں گا۔ یہ پہلی نظم '' اب تم میرے نہیں رہے'' نوّے کی دہائی کے ابتدائی برسوں کے کراچی کی ایک تصویر ہے۔ ظاہر ہے یہ ایک خاص زاویئے اور تاثر کی حامل ہے لہذا اسے پورے کراچی کی معیاری(Standard) تصویر کہنا مناسب نہ ہوگا۔ لیکن ہمیں شاعر اور پیشہ ور تجزیہ کار کے فرق کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔
میں جس شہر میں رہتا ہوں
وہ کہتا ہے
''اب تم میرے نہیں رہے''
سانس جو اب تک میری ہَوا میں تم نے لیے ہیں
لوٹا دو
خواب جو میری مٹّی کی خوشبو میں جیئے ہیں
دفنا دو
میرے رزق کا لقمہ لقمہ
میر ے جَل کا ایک اِک گُھونٹ
میری فضا میں اُڑنے والے پنکھ پکھیرو
اور اُن کی خوش رنگ صدائیں
ان سب سے اب ہاتھ اُٹھائو اور سنو
تیز ہوا کی سائیں سائیں
میرے اُوپرتَنی ہوئی افلاک کی چادر
ابر کے سائے، چاند کی کرنیں، روشن تارے
نہیں تمہارے
میرے شہر اے میرے پیارے
اتنے کڑوے بول یہ تُو نے
کیسے سوچے! کیسے کہے!
''اب تم میرے نہیں رہے''
اس کے بعد جب شاعر نے ان کڑوے بولوں کے پس منظر کو سمجھنے کی کوشش کی تو یہ تصویر کراچی کے منظر سے نکل کر پورے پاکستان پر پھیلنا شروع ہو گئی اور اس کے ساتھ ساتھ چودہ اگست 1947ء میں شروع ہوکر نوّے کی دہائی میں داخل ہونے والا یہ ہجوم اور قافلے کی ملی جلی کیفیت کا حامل سفر اور اس کے اہلِ سفر یہ فریاد کرتے سنائی دیے کہ بخدا ہم لوگ ایسے نہیں تھے جیسے اس وقت دکھائی دے رہے ہیں۔ سو اِس نظم کا عنوان بھی ''ہم لوگ نہ تھے ایسے'' رکھا گیا ہے
ہیں جیسے نظر آتے...اے وقت گواہی دے...ہم لوگ نہ تھے ایسے ...یہ شہر نہ تھا ایسا ...یہ روگ نہ تھے ایسے...دیوار نہ تھے رستے ، زندان نہ تھی بستی...آزار نہ تھے رشتے، خلجان نہ تھی ہستی...یوں موت نہ تھی سستی...یہ آج جو صورت ہے، حالات نہ تھے ایسے...یوں غیر نہ تھے موسم دن رات نہ تھے ایسے...تفریق نہ تھی ایسی...سنجوگ نہ تھے ایسے...اے وقت گواہی دے ...ہم لوگ نہ تھے ایسے!
جو منظر اور جو لوگ گزشتہ کئی برسوں سے ہمارے اس پیارے شہر کی پہچان بن گئے ہیں اُس پر سب کو تشویش ہے۔ مقامی سطح پر کراچی میں قیامِ امن کی کاروائیوں کا طریقِ کار بھلے ہی ایم کیو ایم، اے این پی، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کا مسئلہ ہو لیکن عملی طور پر یہ پورے پاکستان کا یعنی ہم سب کا مسئلہ ہے کہ کراچی ایک سطح پر کراچی والوں کا ہونے کے باوجود ہم سب کا بھی ہے۔ سو آخر میں اس شہر کے حوالے سے جو آپ کا بھی ہے اور میرا بھی ایک دعائیہ نظم کہ انسان کی سب تدبیریں اپنی جگہ لیکن میرے عقیدے کے مطابق جب تک ان میں مالکِ کائنات کی طرف سے برکت اور قبولیت کا اشارہ اور حکم نہ ہو۔ چیزوں کی بنیاد میں بہتری پیدا نہیں ہوتی یہ دعائیہ نما مناجات اسی خیر و برکت کی تلاش میں ہے جس کا ایک روپ وہ اقدام ہیں جو اہلِ فکر و نظر اور اربابِ اختیار قومی درد اور دانش کے حوالے سے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نظم کا عنوان ہے ''یہ جو وقت ہے مرے شہر پر''
وہ جو وقت ہے مرے شہر پر کئی موسموں سے رُکا ہوا
اسے اِذن دے کہ سفر کرے
اسے حکم دے کہ یہ چل پڑے۔
مرے آسمان سے دُور ہو
کوئی چاند چہرا کشا کرے کوئی آفتاب ظہور ہو
کہ نواحِ چشم ِ خیال میں وہ جو خواب تھے وہ دُھواں ہوئے
وہ جو آگ تھی وہ نہیں رہی، جو یقین تھے وہ گُماں ہوئے
کوئی دُھند ہے جسے دیکھتے مری آنکھ برف سی ہو گئی
وہ عبارتِ سرِ لوحِ دل کسی ربط سے نہیں آشنا
کہ جو روشنی تھی کتاب میں وہی حرف حرف سی ہو گئی
مری آنکھ میں یہ جو رات ہے ،
مری عمر سی، اسے ٹال دے
مرے دشتِ ریگِ ملا ل کو کسی خوش خبر کا غزال دے
یہ فلک پہ جتنے نجوم ہیں ترے حکم کے ہیں یہ منتظر
وہ جو صبحِ نو کا نقیب ہو، میری سَمت اُس کو اُچھال دے