چلو نام بدلتے ہیں

نام میں کیا رکھا ہے! گلاب کو کوئی سا نام بھی دے دیں، وہ گلاب کا پھول ہی رہے گا، اس کی خوشبو اور رنگ روپ بدلے گا نہیں


آج کل سوشل میڈیا پر مریم نواز اور بلاول بھٹو کے نام پر تنقید کی جارہی ہے۔ (تصویر: انٹرنیٹ)

KABUL: مریم نواز اور بلاول بھٹو... بظاہر ان ناموں میں کچھ بھی مسئلہ نہیں۔ لیکن اگر ان کو مریم صفدر اور بلاول زرداری لکھا اور پڑھا جائے تو ایک تبدیلی نظر آئے گی۔ ایک عجیب سا احساس نمایاں ہوتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ نام تمہاری شناخت کےلیے ہیں۔ ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے کا نام سب سے مختلف ہو۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ نام کا بچے کی شخصیت پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ اس لیے نام رکھتے وقت خاص احتیاط کی جاتی ہے۔ لیکن بعض اوقات نام کی تبدیلی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ جس کی وجہ معروضی اور غیر معمولی حالات ہوسکتے ہیں۔ حضرت انسان کو چند نام اس کا معاشرہ بھی دیتا ہے۔ لیکن یہ نام ان کی ذات کا حصہ بن جاتے ہیں جبکہ ان کے اصل نام سے کوئی واقف تک نہیں ہوتا۔

نام کے حوالے سے خواتین خاصی متاثر رہی ہیں۔ شادی سے قبل انہیں والد کا نام اپنے نام کے ساتھ جوڑنا پڑتا ہے، جبکہ شادی کے بعد معاشرتی جبر کے باعث وہ اپنا نام تبدیل کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ اگر کوئی خاتون اپنے والد کا نام ساتھ رکھنے کی ضد کرے تو معاشرہ اس کی زندگی اجیرن بنا دیتا ہے۔ رہی بات مردوں کی، تو عورت کے نام کے ساتھ خود کو جوڑنا وہ اپنی مردانگی کے خلاف گردانتے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں میرا نام بدل دینا، ہر سیاست دان کا مشہور جملہ ہے۔ جو مائیک کے سامنے اور جلسوں میں بارہا سننے کو ملتا ہے۔ لیکن اس جملے کو شہرت اور دوام سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے دور حکومت میں ملتا ہے۔ جب انہوں نے چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا دعویٰ کیا اور ساتھ ہی دعویٰ پورا نہ کرنے پر قوم سےاپیل کی کہ وہ ان کا نام بدل کر رکھ دے۔

بات ہورہی تھی بلاول اور مریم کے ناموں کی۔ سوشل میڈیا پر بلاول کے نام کے ساتھ بھٹو اور مریم کے نام کے ساتھ نواز لگانے پر خاصی بحث گرم ہے۔ دونوں نوجوان سیاست دان ہیں۔ سیاست کے اس بازار میں انسان کو اپنی اقدار، روایات اور سماجی اخلاقیات سب کچھ داؤ پر لگانا پڑتا ہے، اور یہ مسائل صرف تیسری دنیا کے ممالک کے ہیں، ترقی یافتہ ممالک میں شہریوں کی زندگی اور دیگر مسائل پر سیاست ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں سیاست دانوں کی ذاتی زندگیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اصل مسائل کہیں دور رہ جاتے ہیں، جبکہ ہمارے سیاست دان اور ان کے پیروکار اپنے حریف سیاست دانوں کی کردارکشی پر اتر آتے ہیں۔ سیاسی کردار کشی کا آغاز جنرل ایوب خان کے دور میں آیا، جب محترمہ فاطمہ جناح کو غدار قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ اس کے بعد نواز شریف کی قیادت میں آئی جے آئی کے دور میں بے نظیر بھٹو کی کردار کشی کی گئی۔

اسی طرح وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں کی ذاتی زندگیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ سیاست میں نام کی تبدیلی کا آغاز نیا نہیں۔ اب سیاستدانوں کی ذاتی زندگیوں پر حملہ تحریک انصاف کے کارکنان کی جانب سے کیا جارہا ہے۔ ان کے حملوں سے نہ صرف سیاستدان بلکہ صحافی اور ان سے اختلاف رکھنے والا ہر سوشل میڈیا صارف بھی متاثر ہورہا ہے۔


تازہ مہم مریم نواز اور بلاول بھٹو کے حوالے سے شروع کی گئی ہے۔ اس مہم کے دوران ان کی ذاتی زندگی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان کے نام کو بنیاد بنا کر طرح طرح کی باتیں کی جارہی ہیں۔ میں حیران ہوں کہ بلاول اگر اپنی ماں کی جانب سے دی گئی پہچان کو اپنی ذات کا حصہ بنا رہے ہیں تو اس میں آخر کیا مسئلہ ہے اور اگر مریم نواز اپنے والد کے نام کو اپنی پہچان بنا رہی ہیں تو اس پر تنقید کیوں کی جارہی ہے؟

شیکسپیئر نے کہا تھا: نام میں کیا رکھا ہے! ایک گلاب کو کوئی سا نام بھی دے دیں، وہ گلاب کا پھول ہی رہے گا، اس کی خوشبو اور رنگ روپ بدلے گا نہیں۔

ایسے ہی نام بلاول زرداری ہو یا بلاول بھٹو، ہے تو وہ بے نظیر ہی کا بیٹا۔ جس کے اندر ماں جیسا جذبہ نہ سہی لیکن گھٹی میں قوم کا درد ضرور ہوگا۔ اس لیے بنت نواز شریف نے اپنی ماں اور باپ سے کچھ تو سیاسی سوجھ بوجھ ضرور حاصل کر رکھی ہوگی۔ اس لیےتمام باتیں، دعوے اور الزامات صرف باتیں ہیں۔

رہی بات مرد ہو یا عورت، اپنی شناخت قائم رکھنا ان کا بنیادی حق ہے۔ اب کوئی اپنے والد کے نام کو اپنے نام کا حصہ بنائے یا والدہ، اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ اسی طرح روایتی مردانہ معاشرے میں عورت کو جینے کا حق ضرور دیں، اسے اس بات پر پابند نہ کریں کہ وہ شوہر کے نام کا لاحقہ اپنے نام کے ساتھ لگائے۔ میرا نام میری مرضی کا نعرہ لگائیں اور اپنی پہچان کی خاطر بوسیدہ روایات کو توڑ دیں۔ یہ فیصلہ صرف اپنی ذات ہی کےلیے نافذ نہ کریں بلکہ دوسروں کو بھی اس کا پورا پورا حق دیں۔ اسی کے بعد اس گمنام دنیا میں آپ کی بہتر شناخت ہوگی۔

میری اور آپ کی طرح بلاول، مریم اور ہر سیاستدان کو بھی اپنی شناخت کا پورا حق حاصل ہے اور ہم ان سے کی شناخت نہیں چھین سکتے۔ بس ہمیں اپنے اطوار بدلنا ہوں گے اور اپنی اخلاقی اقدار کا ازسر نو جائزہ لینا ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں