جیون ساتھی…
کسی ہستی کو اپنانے کی خواہش دراصل احساس تنہائی کو مفلوج کرنے کی خواہش کے مترادف ہے۔
کسی ہستی کو اپنانے کی خواہش دراصل احساس تنہائی کو مفلوج کرنے کی خواہش کے مترادف ہے، یعنی احساس تنہائی سے چھٹکارا پانے کی آرزو جس نے انسان کو ایک ایسے تصور کی جانب مائل کیا جس کے ساتھ وہ روحانی اور جسمانی طور پر ہم آہنگ ہوسکتا ہے۔ لہٰذا پہلے پہل قائم کیے گئے تصور نے جو اپنی ابتدا میں شاید مبہم رہا ہوگا رفتہ رفتہ ایک خوبصورت خدوخال کا جامہ زیب تن کرنا شروع کردیا اور بالآخر وہ ایک محبوب ہستی کا روپ دھار گیا۔ جسے ہمسفر جانتے ہوئے ہم دو نام دے چکے ہیں، مرد اور عورت۔
جن کی محبت کا اولین ملاپ ناقابل بیان اور ناقابل تحریر حد تک خوبصورت رہا۔ احساس تنہائی تھا کہ یکسر جاتا رہا، خواہش مکمل ہوگئی۔ لیکن انسان واقف نہیں تھا کہ خواہش کی تکمیل خواہش کی موت ثابت ہوگی اور آہستہ آہستہ اس کی تلاشی گئی محبوب ہستی اس کشش سے محروم ہوتی چلی جائے گی۔ جس نے محبت کے اولین شعلوں کو ہوا دی تھی۔ آج میری تحریر کا موضوع ذرا سا مختلف ضرور ہے لیکن میں نے اپنی ایک ادنیٰ سی کوشش کے ذریعے ایک ناقابل فراموش انسانی مسئلے پر بحث کرنے کی سعی کی ہے۔ میں محبت کے کسی اذیت ناک انجام کو جس میں خوشی کی کوئی ایک ساعت بھی باقی نہ رہے ایک غلط ذہنی کروٹ کا نتیجہ قرار دیتا ہوں اور یہ سمجھتا ہوں کہ ''حصول'' سے پہلے محبت کے شب و روز اتنے مختصر ہوتے ہیں کہ وہ محبت میں کوئی تھکن یا بیزاری پیدا ہونے نہیں دیتے۔ ایسا مقام صرف اس وقت آتا ہے جب مرد و زن اپنی ازدواجی زندگی میں ایک جگہ رہ کر ایک دوسرے کے لیے کھلی کتاب کا درجہ اختیار کرلیں اور اس قدر یکساں عادات و اطوار اپنالیں کہ اکتاہٹ کے آثار پیدا ہونے لگیں۔
چنانچہ ایک ازدواجی تعلق کو مضبوط کرنے کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ فریقین میں اتنا گہرا اختلاف پیدا نہ ہوجائے کہ دونوں ایک چھت کے نیچے رہنے کی تمنا ہی چھوڑ دیں، وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ دونوں کے خیالات، میلانات اور زندگی سے متعلق نظریات میں یک رنگی بھی نہ آنے پائے کہ دونوں میں ایک دوسرے کے لیے کوئی نئی بات ہی باقی نہ رہ جائے۔ لہٰذا ایسے تمام لوگ جو یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ان کی محبوب ہستی یا شریک حیات ان کی اپنی جملہ خصوصیات کا ایک عکس ہو وہ محض خود پرستی کا شکار ہوتے ہیں اور ایسی کوشش کے نتیجے میں وہ زندگی کی خوشیوں سے محروم تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔
بلاشبہ عورت اور مرد کے مزاج، کردار اور نظریات میں ہلکا پھلکا سا اختلاف ہی انھیں ایک دوسرے کے لیے پرکشش بنانے میں محرک حقیقی ثابت ہوتا ہے اور کیونکہ اختلاف (خواہ وہ کسی قسم کا ہو) انسان میں احساس تنہائی کو جنم دیتا ہے اور احساس تنہائی ردعمل کے طور پر کسی دوسری ہستی کو اپنانے کی صورت میں نمودار ہوتا ہے، لہٰذا مرد و زن کے درمیان ایک خفیف سا اختلاف ان کی محبت کی شدت کو کبھی انحطاط پذیر نہیں ہونے دیتا اور وہ ہمیشہ خوشیوں سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں جب کہ اختلاف کی ایک ہلکی سی کیفیت اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر یہ نہ ہو تو اپنانے کی خواہش ہی کیونکر پیدا ہو۔
چنانچہ اگر ہم اس مسئلے کا جائزہ حیاتیاتی انداز میں لیں تو یہ جان کر ہمیں تعجب ہوگا کہ زندگی کے آغاز میں مرد و عورت ایک جسم میں موجود تھے، پھر بحکم خدا جدا ہوئے۔ لیکن شاید وہ اسی پل سے شب و روز اس فاصلے کو ختم کرنے اور ایک دوسرے سے مل جانے کی تگ و دو میں مصروف ہوگئے۔ ایک قابل غور نقطے کے طور پر آج بھی ایک مرد کے جسم میں عورت کے وجود کے بعض نشانات موجود ہیں۔ بعینہ جیسے ایک عورت کا وجود ایک مرد کے وجود سے بعض امور میں مطابقت رکھتا ہے۔ اور نہ صرف جسمانی طور پر بلکہ خیالات، جذبات اور احساسات کی دنیا میں بھی کسی قدر ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اگرچہ مرد کے تمام تر رجحانات کو فکر (Thought) کا سہارا نصیب ہے اور عورت کے رجحانات کو احساس (Feeling) کا لیکن یہ فرق اس قدر غیر واضح ہے اور ان دونوں کی حدود اس قدر الجھی ہوئی ہیں کہ مرد میں کہیں کہیں نسوانیت اور عورت میں مردانہ پن کے آثار دکھائی دے جاتے ہیں۔
ہمارے روز مرہ کے مشاہدے میں یہ امر حقیقت سے قریب تر دکھائی دیتا ہے کہ عورت مرد میں ایک حد تک نسوانیت یا نسوانی لچک کی طالب بھی ہوتی ہے اور مرد عورت میں کسی نہ کسی حد تک سختی اور برداشت کا جویا۔ اس سے عورت اور مرد کی متضاد خصوصیات کو ایک دوسرے کے قریب آنے کے مواقع میسر آتے ہیں۔ لیکن اسی موڑ پر یہ حقیقت بھی کم دلچسپ نہیں ہے کہ عورت مرد میں حد سے بڑھے ہوئے زنانہ پن کو پسند نہیں کرتی بلکہ حقارت سے دیکھتی ہے اور مرد بھی عورت کی زیادہ ''جرأت'' سے خوش نہیں ہوتا۔ یعنی کتنا عجیب ہے کہ ایک فرد کے لیے وہی خصوصیات جس کا وہ خود مظہر ہے دوسری صنف میں زیادتی اختیار کرنے پر ناقابل برداشت ہوجاتی ہے۔ بہرحال اس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہ ایک کامیاب اور خوشیوں سے لبریز ازدواجی زندگی گزارنے کے لیے کسی مرد کا ذرا سا لچک دار ہونا اور کسی عورت کا کچھ سخت ہونا معیوب نہیں ہے۔
کیونکہ جہاں مرد احساسات کا سہارا لے کر گھریلو امور مثلاً بچوں کی نگہداشت اور تعلیم و تربیت وغیرہ میں دلچسپی لیتا ہے وہیں عورت اپنے پراسرار اور مبہم محسوسات سے بلند ہوکر مرد کے ٹھوس معاملات میں دلچسپی لینے لگتی ہے اور اس طرح ازدواجی زندگی کی بنیادیں مضبوط ہوتی چلی جاتی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ مرد نے فی الواقع سائنس، فلسفہ، طب اور زندگی کے دیگر شعبوں میں جو حیرت انگیز ترقی کی وہ اس کے تخیل کے غیر مبہم سلسلے کی رہین منت تھی۔ علاوہ ازیں یہ بھی اس کا تخیل ہی تھا جس کے طفیل الجھی ہوئی زندگی نے توازن اور اعتدال کی سلجھی ہوئی راہ اختیار کی اور انسان ارتقا کی جانب تیزی سے گامزن ہوگیا۔ اس کے برعکس عورت کی دنیا بنیادی طور پر احساسات و جذبات کی دنیا تھی، شاید اسی لیے اس کی زندگی بدلتے ہوئے رجحانات، مبہم کیفیات اور استقلال کے فقدان کی غماز رہی۔ لہٰذا اگر عورت کو چاند سے تشبیہہ دی جائے تو غلط نہ ہوگا۔ کیونکہ فی الواقع عورت کے کردار و شخصیت میں وہی چاند کی سی پیہم تبدیلی موجود ہے اور شخصیت کی اسی سیماب دار کیفیت کے باعث وہ سامنے آنے کے بجائے پس منظر میں رہی ہے۔
بنیادی طور پر عورت فطرت کی صحیح ترجمان ہے۔ وہ تسلسل کی محرک ہے اور تخلیق اس کا وصف ہے۔ بوجوہ مسائل کائنات میں اسے زیادہ وقعت حاصل ہے، جب کہ مرد کسی کٹھ پتلی کی مانند اپنے فرائض کی ادائیگی کے بعد فطرت کے لیے بے معنی ہوجاتا ہے۔ اور یہ امر اب میڈیکل سائنس سے بھی ثابت شدہ ہے کہ ''مادہ'' کی زندگی نہ صرف ''نر'' سے زیادہ ہوتی ہے بلکہ اتصال کے بعد بیشتر صورتوں میں نر تو فی الفور ختم ہوجاتا ہے لیکن مادہ تخلیق کو مکمل کرنے کے لیے زیادہ عرصے تک زندہ رہتی ہے۔
ازدواجی زندگی کی تمام مسرتوں کی قاتل دو چیزیں ہیں۔ مرد کا لمحاتی فرار، اور عورت کا لمحاتی گریز کہ ان کی غلط تفہیم سے کتنی ہی زندگیاں بربادی اور بے بسی کی تصویر بن جاتی ہیں۔ دراصل اگر مرد، عورت کے کردار و شخصیت سے مکمل واقفیت رکھتے ہوئے کہ اس کا لمحاتی گریز جو اس کی فطرت ہے یا اس کی فطرت میں قدرت کا ایک حکم ہے جب کہ عورت مرد کے فرار کو اس کے فطری ردعمل کا عکس سمجھ کر درگزر سے کام لے تو کوئی وجہ نہیں کہ بربادی کے اندھے کنوئیں میں ڈوبتی ہوئی زندگیاں آخری تنکے کا سہارا لے کر باہر نہ نکل آئیں اور زندگی سے جڑی خوشیاں انحطاط پذیر ہونے کے بجائے فزوں تر نہ ہوتی چلی جائیں۔
موجودہ دور میں یہ مسئلہ ایک عام رجحان کے طور پر سامنے آرہا ہے کہ شادی کے کچھ عرصے کے بعد اختلافات ہوئے اور پھر دونوں فریق طلاق دے کر یا خلع لے کر علیحدہ ہوگئے۔ بہت خوشی سے یہ بندھن باندھنے والے ایسا کیوں کرتے ہیں؟ ہمیشہ ساتھ رہنے کا، ہر دکھ سکھ میں ساتھ دینے کا وعدہ کرنے والے دنوں اور مہینوں میں ہمیشہ کے لیے جدا کیوں ہوجاتے ہیں؟ اور وہ معاملات شدید اختلافات کا درجہ کیونکر اختیار کرلیتے ہیں، شادی سے قبل جن کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ ''جہیز'' کا لالچ بھی ایک وجہ ہے لیکن یہ صرف ایک وجہ ہے، چنانچہ ہم لاکھ اس موضوع پر بات کرنے سے کترائیں یا اسے اپنے سماج کا ایک گلا سڑا حصہ قرار دے کر اس سے جان چھڑانے کی کوشش کریں لیکن اس سے مسئلے کی سنگینی کم نہیں ہوتی۔