مجھے بھکر جانا ہے
آج بھکر کے قوی ہیکل جوان ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں۔ پاکستان کی امانت ہے اسے سڑکوں پر بہایا اور لٹایا جارہا ہے۔
چند سال پہلے CMH راولپنڈی میں ایک ماہ گزارنے کا اتفاق ہوا۔ دراصل میرے منجھلے بیٹے ڈاکٹر ذیشان حسن کا پاکستان آرمی میں بطور کیپٹن سلیکشن ہوگیا تھا، اسے آرمی کی میڈیکل کور میں شامل ہونا تھا۔ فوج میں داخل ہونے والا یہ ہمارے خاندان کا پہلا بندہ تھا۔ مجھے خوب یاد ہے ایک خاکی رنگ کا بڑا سا لفافہ ڈاک کے ذریعے ہمارے گھر آیا تھا۔ میں نے ہی ڈاکیے سے رجسٹرڈ پوسٹ لفافہ دستخط کرکے وصول کیا تھا۔ میں نے بڑے سے لفافے کو گھما پھرا کے دیکھا۔ میرے بیٹے کا نام لکھا تھا اور لفافے کے ایک کونے میں GHQ کی مہر لگی ہوئی تھی۔ میں نے لفافہ چاک کیا تو اندر سے جو خط نکلا اس کا مضمون کچھ یوں تھا ''سپریم کمانڈر اور صدر مملکت کی جانب سے آپ کو پاک آرمی میں شمولیت کے لیے خط ارسال کیا جارہا ہے۔
ہدایات کے مطابق مطلوبہ تاریخ پر ملٹری اکیڈمی کاکول ایبٹ آباد رپورٹ کریں''۔ میرے بیٹے ڈاکٹر ذیشان نے گھر والوں سے بالا بالا ہی سلیکشن بورڈ (آرمی) کے تین چار انٹرویو و ٹیسٹ پاس کرلیے تھے اور بالآخر اس کا انتخاب کرلیا گیا۔ خیر یہ خبر ہم سب گھر والوں کے لیے بڑی خوشی کی بات تھی، مگر مجھے اپنے بڑے بھائی حبیب جالب بھی یاد آرہے تھے اور میں سوچتا تھا کہ اس سلیکشن پر ان کا ردعمل کیا ہوتا؟ خیر بچے کی خواہش تھی اور ہم گھر والے بھی بہت خوش تھے سو ہم نے خوشی خوشی تیاریاں شروع کردیں۔ بڑا سا مضبوط جست کا ٹرنک خریدا، اس پر سیاہ رنگ کروایا، پھر بیٹے کا نام ٹرنک پر لکھا اور مقررہ تاریخ پر بیٹے کو راولپنڈی کی فلائٹ پر سوار کرا دیا۔ جہاں سے میرے ایک بچپن کے عزیز دوست (جو اس وقت آرمی کی اعلیٰ پوزیشن پر فائز تھے) نے میرے بیٹے ذیشان کو کاکول اکیڈمی تک پہنچانے کا بندوبست کردیا۔
جہاں ذیشان کو چھ ماہ ٹریننگ حاصل کرنا تھی۔ مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا اور میرا بیٹا ڈاکٹر ذیشان حسن تیسرے روز ہی ٹریننگ کے دوران انجری کا شکار ہوگیا اور اس کی ٹانگ عین کولہے میں گھومنے والے گولے سے (Neck of Hemer) ٹوٹ گئی۔ ایسی ہی انجری کے شکار دو اور کیڈٹ بھی ہوئے تھے ان میں ایک کراچی کا ڈاکٹر تھا اور دوسرا بھکر شہر کا نوجوان۔ ان تینوں کو ایک ہی طرح کی انجری ہوئی تھی اور ان تینوں کو علاج کی غرض سے کاکول اکیڈمی ایبٹ آباد سے CMH راولپنڈی منتقل کیا گیا تھا۔ آرمی کے خدا ترس اور قابل سرجن کرنل سہیل حفیظ صاحب نے ان تینوں بچوں کے کامیاب آپریشن کیے اور یہ تینوں بچے میرا بیٹا ڈاکٹر ذیشان، کراچی کا ایک اور ڈاکٹر عاطف اور بھکر کا نوجوان آفتاب آج اپنے پیروں پر کھڑے ہیں، چل پھر رہے ہیں۔ گو آرمی سے ان تینوں کو بورڈ آؤٹ کردیا گیا ہے مگر آرمی کا ٹھپہ ان تینوں پر لگ چکا تھا۔ اب یہ ریٹائرڈ آرمی مین ہیں۔
مجھے بھکر شہر کے آفتاب سے ملنے جانا ہے۔ CMH راولپنڈی میں ایک ماہ قیام کے دوران آفتاب کے والد سے میں نے پکا وعدہ کیا تھا کہ میں بھکر ضرور آؤں گا۔ مگر اب میں بھکر کیسے جاؤں، وہاں تو گولیاں چل رہی ہیں۔ آخری اطلاعات ہیں کہ گیارہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور متعدد زخمی ہیں، یہ خونریز تصادم بھکر کے علاقے کوٹلہ جام میں دو مذہبی گروپوں میں ہوا ہے، یعنی مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو مار رہے ہیں اور دونوں ہی یہ کام نیکی سمجھ کر کررہے ہیں۔ بھکر شہر میں رینجرز طلب کرلی گئی ہے اور تمام شہر کے بازار بند پڑے ہیں۔ بھکر اور گردو نواح کا یہ حال ہے کہ مساجد سے اشتعال انگیز اعلانات کیے جارہے ہیں۔ ڈی سی او بھکر ممتاز حسین زاہد نے شہر بھر کے تعلیمی ادارے بند رکھنے کا اعلان کیا تھا، کئی دن اسکول بند رہنے کے بعد کل ہی کھلے ہیں۔ ایک مذہبی جماعت نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا اور مطالبہ کیا کہ ڈی سی او بھکر کو معطل کرکے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ کفر کے فتوے جاری کرنے والے مدرسوں پر پابندی لگائی جائے۔ ایک مذہبی جماعت نے بیان جاری کیا کہ اس کے دس افراد کو اغوا کیا گیا، بعد میں پانچ کی لاشیں ملیں اور باقی پانچ کا کچھ پتا نہیں۔
یہ حالات ہیں بھکر کے جہاں میں جانا چاہتا ہوں۔ مجھے یہ بھی پتا نہیں کہ نوجوان ریٹائرڈ سب لیفٹیننٹ آفتاب کا تعلق کس گروپ سے ہے۔ کیونکہ CMH راولپنڈی میں ایک ماہ قیام کے دوران ایسا کوئی لمحہ نہیں آیا کہ یہ شبہ بھی گزرا ہو کہ آفتاب کا تعلق کس فقہ سے ہے۔ بس ہم نے تو پورا مہینہ مسلمان رہ کر ہی گزار دیا۔ اﷲ خیر کرے پتا نہیں بھکر میں آفتاب اور اس کا خاندان کس حال میں ہیں۔ اﷲ ان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔
عید الفطر گزر گئی اب عیدالاضحیٰ دوڑی چلی آرہی ہے۔ اس عید کو عید قرباں بھی کہا جاتا ہے اور اس موقع پر تین دن تک سنت ابراہیمی کو ادا کرتے ہوئے دنیا بھر میں لاکھوں بلکہ کروڑوں گائے، بیل، اونٹ، بکرے، بھیڑ، دنبے اﷲ کی راہ میں قربان کیے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں دہشت گردی کا شکار ہوتے ہوئے کئی انسان بھی قربان کردیے جاتے ہیں۔ عیدالاضحیٰ کے چند دنوں بعد اسلام کا پہلا مہینہ محرم آجاتا ہے۔ حضرت امام حسین اور ان کے خاندان و رفقا کی قربانیوں، شہادتوں کا مہینہ۔ اسلامی کیلنڈر کی ابتدا اور انتہا قربانیوں پر مشتمل ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں:
غریب سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسمٰعیل
اور میں ابھی سے پریشان ہورہا ہوں کہ آنے والے محرم میں ہمارے مولوی صاحبان کی علمیت اور خطابت کا درجہ حرارت کیا ہوگا؟ میرا خاندان بے ضرر اور انسانوں سے پیار کرنے والا ہے۔ یقیناً آفتاب اور اس کے گھر والے بھی ایسے ہی اچھے لوگ ہیں ۔ ہم ایک ماہ ساتھ رہے ہیں۔ اس دوران انھیں ہم نے بہت اچھا پایا۔ اب میں کیا کروں؟ بھکر میں حالات خراب ہیں، احتجاج، ہڑتال، بازار بند ہیں، رینجرز کا پہرہ ہے مزید حالات کیا ہوں گے ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ بھکر قوی و مضبوط جوانوں کا علاقہ ہے، جہاں کے بوڑھے بھی مضبوط کاٹھی کے جوان ہوتے ہیں۔ شدید گرمی کا موسم بھکر والوں کو مضبوطی عطا کرتا ہے۔ کاشتکاری اکثریتی کا پیشہ ہے، قدرتی موسموں سے مالا مال یہ علاقہ پاکستان کا بہت قیمتی حصہ ہے۔ مگر آج بھکر کے قوی ہیکل جوان ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں۔ جو خون اور جوانی پاکستان کی امانت ہے اسے سڑکوں پر بہایا اور لٹایا جارہا ہے۔
بہرحال مجھے بھکر جانا ہے، مگر ان حالات میں کیسے جاؤں؟