ممتاز بلوچ شاعر ظفر علی ظفر کی یاد میں

طالب علموں نے ان کو بیمار، اداس اور ناقدری زمانہ کا ستم رسیدہ دیکھا۔



علامہ اقبال کہتے ہیں ؎

شاہیںکبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا

پِر دم ہے اگر تو نہیں خطرۂ افتاد

لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں نے پروفیسر علی محمد شاہین کو صحافتی، علمی اور تدریسی پرواز سے تھک کرگرتے بھی دیکھا اور مسکرا کر اٹھنے کے بعد پھر سے تدریسی عمل سے نئی نسل کی فکری بالیدگی کے لیے جہد زندگانی میں مصروف پایا ہے۔ پروفیسر شاہین کی زندگی طالبعلموں کی خدمت کرتے گزری، وہ لیاری کا مان تھے،انھیں فخرلیاری کہتے ہوئے زبان کی مٹھاس دوچند ہوجاتی ہے۔ آج وہ دنیا میں نہیں مگر ان کی میراث ان کے فرزندان نے سنبھال لی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جو ان پہ گزری سو گزری مگر وہ آخری دم تک طالبعلموں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے رہے۔

طالب علموں نے ان کو بیمار، اداس اور ناقدری زمانہ کا ستم رسیدہ دیکھا۔ایک دن لیاری لیبرویلفیئر سینٹر میں تقریب تھی۔بلوچ اتحاد تحریک کے بانی چیئرمین انور بھائی جان نے مجلس کا اہتمام کیا تھا، وفاقی وزیر تعلیم زبیدہ جلال مہمان خصوصی تھیں اور علی محمد شاہین و راقم مقررین میں شامل تھے۔ شاہین کی تقریر ختم ہوئی تو میرے ساتھ آکر بیٹھے ہی تھے کہ اناؤنسر نے میرا نام پکارا ، شاہین نے سرگوشی میں کہا کہ ہم تو سرائیکی لہجے میں بولے، اب آپ لکھنو اور دلی کی زبان کا طلسم گھولیے۔ بسم اللہ کیجیے،کیا شاندار شخصیت تھی ۔ حوصلہ افزائی کے بغیر نہیں رہتے تھے۔ لیکن جس شاہین نے لیاری کی تاریک راہوں اور گینگ وارکی وحشتوں میں پرواز جاری رکھی ، وہ معمولی نوعیت کی نہیں تھی ، بڑا دل گردہ درکار تھا گینگ وار والوں کی گولیوں کا سامنا کرنا کے لیے۔کھلی موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ مگر اس شخص نے علم کا دیا بجھنے نہیں دیا ، ٹیوشن سینٹر بند نہیں ہوا۔ ہاں وقت کی سفاکیوں نے شاہین کو نیم جان کرکے قبرستان پہنچا دیا۔

علی محمد شاہین کی تدریسی سرگرمیوں کا مرکز جمن شاہ پلاٹ میں واقع غریب خانہ تھا، وہ تعلیم بالغاں کے لیے حاضر رہتے تھے،کراچی بھر سے طالب علم لیاری پہنچتے، معصوم طلبا وطالبات ان سے نصابی تیاریوں کے لیے ٹیوشن لیتے تھے، ٹیوشن مفت تھی، شاہین کا سب سے بڑا تعلیمی کنٹری بیوشن ان کی انسان دوستی تھی۔ ہم انھیں دوسری نابغہ روزگار ہستیوں کی طرح آج بھول جاتے مگر ان جیسے دو عظیم انسان دوستوں کی مرگ ناگہانی نے علی محمد شاہین کی یاد دلائی۔ ان دو ادبی شخصیات میں ایک ہیں رحیم بخش آزاد اور دوسرے منفرد لہجے کے بلوچ غزل گو شاعر ظفر علی ظفر ۔ دونوں کو عزرائیل نے اچک لیا اور ہم ان کی یاد میں بس سسکیاں بھرتے رہ گئے۔

وہ جو تھک کرگرنے کا ذکر ابتدا میں چلا تھا، اسے لیاری سمیت پورے ملک کی ادبی اور شعری زندگی کے تناظر میں ایک تلخ اور دل جلانے والی حقیقت سمجھنا چاہیے۔ لیاری اورکراچی میں بلوچ دانشور اور شاعر وادیب تو درکنار صحافی بن کر زیست کرنا کتنا مشکل ہے اس کا احوال اختربلوچ یا فضل بلوچ سے پوچھ لیں۔ بہرحال رحیم بخش آزاد کے بارے میں ڈاکٹر توصیف احمد اور منظور رضی صاحبان کے کالم ایک آئینہ ہیں جن میں آزاد کی شخصیت ان کی زندگی کے سفرکا درد انگیز بیانیہ چشم کشا ہے۔ لہٰذا میرے لیے ممکن ہوا کہ میں بلوچی زبان کے شاعر ظفر علی ظفر کے بارے میں کچھ عرض کروں۔

ظفر علی ظفر سے میری ملاقات70ء میں روسی سفارت خانہ کے محکمہ اطلاعات میں ہوئی، میں صحافت کا طالب علم تھا، روزنامہ مشرق کے لیے ہالی ووڈ کی فلمی اور دیگر ثقافتی سرگرمیوں پر فیچر دیتا تھا، نسیم شاد میرے استاد و محسن تھے۔ روزنامہ مشرق کے فلم انچارج تھے، مجھے ساتھ لے گئے، جہاں میں نے ممتاز صحافیوں کو دیکھا جو روسی ادب اور اخبارات وجرائد کے ترجمے کے لیے ایک منظم ٹیم کی شکل میں یکجا کیے گئے تھے، قادر بخش نظامانی، مراد ساحر، آغا مسعود حسین، نورجہاں اور مشہور ادیب و شاعر انور احسن صدیقی ملے جو ماہنامہ ''طلوع''کے مدیر تھے، اسی محکمہ سے سائنسی میگزین ''اسپتنک'' بھی شائع ہوتا تھا، روسی ذرائع ابلاغ کے نیوز لیٹر روز جاری کیے جاتے اور فقیر محمد آزاد رائیڈر تھے وہ انوکھی اور بڑے ہارس پاورکی رشین موٹرسائیکل پر سوار ہوکر پورے شہر کے اخبارات میں نیوزلیٹر اور جرائد تقسیم کیا کرتے۔

ظفر علی ظفر روسی کلاسیکی ادب کی اردو میں ترجمہ کی گئی کتابوں کی تقسیم خود کرتے تھے، مجھے گھر آکر انھوں نے جو پہلی کتاب دی وہ میکسم گورکی ''ماں '' تھی۔ پھر دوستوفسکی، ٹالسٹائی، چیخوف ، گوگول اور لینن کی مطبوعات مہیا کیں۔ ظفر سے پھر ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا، وہ ممتاز شاعر تھے، ان کا بلوچی ادب میں بڑا مقام تھا۔ بلوچ دانشور اور ادیب رمضان بلوچ نے اپنی کتاب '' بلوچ روشن چہرے'' میں ظفر علی ظفر کا خاکہ لکھا ہے ،ان کا کہنا تھا کہ ظفر زبردست شاعر تھے غزل کی صنف میں انھیں مکمل دسترس حاصل تھی، ان کا تلفظ قابل تقلید ہوتا تھا، ان کا طرز بیان بہت ہی دلکش پر کشش ہوتا تھا۔

وہ لکھتے ہیں کہ صدر کے علاقے اس زمانے میں بڑے بارونق ہوا کرتے تھے، ایک ایرانی ہوٹل میں ظفرکی دیگر ادیبوں اور شاعروں سے نشستیں رہتیں وہ دفتر سے چھوٹنے کے بعد صدر آتے تھے۔ رمضان بلوچ کے مطابق ظفر علی ظفر نے اردو میں بھی شاعری کی مگر پھر بلوچی زبان و ادب کے ہوکر رہ گئے۔ ان میں ظرافت کا عنصر نمایاں تھا۔لیکن ان کا اعتراف نامہ بھی ساتھ لگا ہوا تھا کہ اپنی بے علمی کی وجہ سے ہم لوگ ظفر علی ظفر کے ادبی قدوقامت کو ناپنے میں ناکام رہے، ان کا مقصد حیات انسان دوستی سے عبارت تھا۔ انھوں نے کبھی کسی کا دل نہیں دکھایا۔ بہت شیریں سخن تھے۔

بلاشبہ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ ان کی جو غزلیں مزاحیہ یا ظرافت کا رنگ لیے ہوئے ہیں ان سے وہ لیاری ، ملیر اور بلوچستان کے مشاعرے لوٹ لیتے تھے، اور غزل سنانے کا بھی ان کا انداز سامعین کو فلک شگاف قہقہے لگانے پر مجبور کردیتا۔ ان میں اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا والٹیئرجتنا حوصلہ بھی تھا، ایک تنقیدی نشست میں مجھے ان میں اپنی بات کہنے اور دوسرے کا نقطہ نظر مکمل توجہ سے سننے کا حیران کن سلیقہ نظر آیا۔

ظفر علی ظفر ایک حساس دل رکھنے والے ادیب و مترجم بھی تھے، انتہائی نرم گو ، عاجزودرویش منش انسان تھے، انھیں بلوچستان حکومت نے دردناک طریقے سے فراموش کیا۔ بلوچستان کی سابقہ حکومتوں نے یہی رویہ سید ہاشمی سے بھی روا رکھا، زبانی طور پر وہ سید ظہور شاہ کی رطب اللسان تھیں۔ ظفر بالآخر سیاسی سیاق وسباق میں بلوچستان کی شورش کے واقعات سے وہ دل گرفتہ ہوئے اور سیاسی بحران، بلوچوں کی حالت زار قبائلی سیاست اور بلوچ نئی نسل کو درپیش بے پناہ انسانی اور معاشی مسائل پر ان کے مضامین، کلام اورگفتگو سننے اور پڑھنے والے کا دل چیرکر رکھ دیتے ۔ ان کی بعض غزلوں کے پیش نظر انھیں شہنشاہ تغزل کا لقب بھی دیا گیا، وہ اپنے شعروں سے سماج کے منافق چہروں کو جس بے باکی سے بے نقاب کرتے اسے شعرائے بلوچی ادب نے بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا، انقلابی شاعر مبارک قاضی کی طرح ظفر علی ظفر بھی پیمانہ بکف اور میخانہ بدوش شاعروں میں شمار ہوتے تھے، ان کی غزل اگر شراب کے خمار سے متعلق ہوتی تو غالب کے درجنوں شعر ظفر کے اشعارکی کہکشاں کا ایک دلکش نظارہ پیش کرتے۔ غالب نے کہا تھا

ہے ہوا میں شراب کی تاثیر

بادہ نوشی ہے بادہ پیمائی

ظفر خمریاتی شاعری سناتے ہوئے اس شعر کی مکمل تصویر بن جاتے۔

ظفر علی طفر کی زندگی انتھک جدوجہد میں گزری۔ وہ گولیمار کے علاقے کے مکین تھے۔ وقت گزرتا رہا ظفر کے قلب و دماغ پر بلوچستان کی مخدوش معروضی صورتحال ہتھوڑے برساتی رہی، بلوچوں کی بے بسی پر روتے تھے۔ اماں بانل دشتیاری کے اس شعر کو پسند کرتے تھے،

وائے واجہ کہ لوگا وت سوچیت

اوئے براتاں کہ وت ماں وت جنگاں

(ترجمہ) صد رنج کہ بڑے لوگ گھر کو خود ہی گھر آگ لگاتے ہیں، ہائے وہ بھائی جو باہم دست وگریباں ہیں۔

کئی بار ایکسپریس کے دفتر آئے، ہمیشہ کہا کرتے کہ شاہ صاحب بلوچوں کا کیا ہوگا۔ایک روز ریشپسنسٹ شبانہ ارشاد نے اطلاع دی کہ ظفر علی ظفر آپ سے ملنے آئے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ ظفر علی ہڈیوں کا ڈھانچہ تھے، ان کی اداس، ملول اور ویران آنکھوں میں مجھے ان کی ظریفانہ شاعری کا المناک منظر نامہ یاد آیا۔ وہ قہقہے سنائی دینے لگے جو سامعین نے ان کے سنس آف ھیومر پر بلند کیے تھے۔چنانچہ باور آیا کہ ظفر کی زندگی کا ڈراپ سین الم ناک ہے۔ وہ مجھے یہ سنانے آئے تھے کہ حکومت نے انھیں جو پرائیڈ آف پرفارمنس دیا ہے اسے انھوں نے بصد شکریہ لوٹانے کا اعلا ن کرنے کا ارادہ کیا ہے، مجھے ساحر یاد آگئے جو کہتے تھے۔

دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں

جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں