سندھ کی تقسیم وزیر اعظم کی مخالفت نے معاملہ ٹھنڈا کر دیا

سندھ کی تقسیم کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کا واضح اور دو ٹوک موقف اس وقت سامنے آیا۔


G M Jamali May 29, 2019
سندھ کی تقسیم کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کا واضح اور دو ٹوک موقف اس وقت سامنے آیا۔ فوٹو: فائل

وزیر اعظم عمران خان نے اپنی اتحادی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) پاکستان کا یہ مطالبہ مسترد کر دیا ہے کہ سندھ کو تقسیم کرکے ایک نیا صوبہ بنایا جائے۔

وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ وہ سندھ کی تقسیم کے مخالف ہیں ۔ انہوں نے یہ بات گذشتہ ہفتے کراچی کے ایک روزہ دورے کے موقع پر گورنر ہاؤس میں اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقات میں کہی۔ وزیر اعظم کے اس بیان نے ایم کیو ایم کو اس پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اپنے اتحاد کے حوالے سے اپنے کارکنوں کے سوالوں میں الجھ گئی ہے۔ گذشتہ ہفتے وفاقی وزیر اور سابق وزیر اعلی سندھ سردار علی خان مہر کے انتقال کی اچانک خبر نے سندھ کے لوگوں کو سوگوار کر دیا۔

سندھ کی تقسیم کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کا واضح اور دو ٹوک موقف اس وقت سامنے آیا ، جب انہوں نے گورنر ہاؤس میں پاکستان تحریک انصاف اور گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس ( جی ڈی اے ) کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔ عمران خان نے کہا کہ وہ سندھ کی تقسیم کے مخالف ہیں۔ اس ملاقات میں وفاقی وزیر فیصل واوڈا ، سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی، خرم شیر زمان، حلیم عادل شیخ ، سابق وزیر اعلی سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم ، مسلم لیگ (فنکشنل) سندھ کے صدر پیر صدرالدین شاہ راشدی، نصرت سحر عباسی، نند کمار اور دیگر رہنما شامل تھے۔ وزیر اعظم نے اپنا یہ موقف دے کر نہ صرف ایم کیو ایم کے مطالبے کو مسترد کر دیا بلکہ گورنر سندھ عمران اسماعیل کے بیان پر سندھ میں ہونے والے ردعمل کا بھی جواب دے دیا۔

گورنر سندھ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ سندھ سمیت پورے ملک میں انتظامی بنیادوں پر صوبے بننے چاہئیں ۔ ان کے اس بیان پر پیپلز پارٹی سمیت سندھ کی تحریک انصاف کے سوا دیگر تمام مذہبی، سیاسی اور قوم پرست جماعتوں نے مخالفت کی تھی اور گورنر سندھ سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا۔ گورنر کے اس بیان سے سندھ میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ تحریک انصاف سندھ کو تقسیم کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کے واضح اور دو ٹوک بیان سے تحریک انصاف کے بارے میں پیدا ہونے والے تاثر کو زائل کرنے میں مدد ملے گی اور اس کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم اس معاملے میں سیاسی طور پر تنہا ہو گئی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر مقبول صدیقی نے ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے سندھ کو تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

سندھ اسمبلی میں ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کے خلاف قرار داد مذمت منظور کی گئی تھی، جس کی تحریک انصاف اور جی ڈی اے نے بھی حمایت کی تھی۔ وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے سندھ اسمبلی میں پری بجٹ بحث کو سمیٹتے ہوئے اپنے خطاب میں سندھ کی تقسیم کے معاملے پر ایک طرح کی رائے شماری کرا دی۔ انہوں نے ارکان سے کہا کہ جو لوگ سندھ کی تقسیم کے مخالف ہیں، وہ کھڑے ہو جائیں۔ ایم کیو ایم کے ارکان کے سوا باقی تمام ارکان کھڑے ہو گئے تھے۔

اس طرح سندھ اسمبلی کی اکثریت نے سندھ کی تقسیم کے مطالبے کو مسترد کر دیا تھا ۔ وزیر اعظم عمران خان کے بیان سے تحریک انصاف کو سیاست کرنے کے لیے جو مشکلات پیدا ہو گئی تھیں، وہ کسی حد تک ختم ہو جائیں گی ۔ ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر اور وفاقی وزیر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے نمائندوں کی جانب سے یہ پیغام پہنچایا ہے کہ صوبے کے حوالے سے ان کے موقف کو درست پیش نہیں کیا گیا۔ ملکی ترقی کے لیے زیادہ سے زیادہ صوبے بننے چاہئیں۔ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کے اس بیان کے باوجود خود ایم کیو ایم کے کارکن تحریک انصاف کے ساتھ اپنی پارٹی کے اتحاد کے بارے میں سوال کر رہے ہیں۔

سابق وزیر اعلی سندھ سردار علی محمد خان مہر کے انتقال پر پورا سندھ سوگوار ہے۔ سردار علی محمد خان مہر 2002 سے 2004 تک سندھ کے وزیر اعلی رہے۔ انتقال کے وقت وہ وفاقی وزیر تھے۔ وہ تین مرتبہ رکن قومی اسمبلی اور ایک مرتبہ رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے۔ ان کے انتقال پر تعزیت کا سلسلہ جاری ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سوگوار خاندان سے تعزیت کی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔