کسی کو عوام بھی یاد ہیں

ملکی معیشت کی کہانی بھی طلسماتی کہانی کے کسی دیو کے پنجے میں آئی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔



کہتے ہیں کہ اگر عوام تکلیف میں ہوتو سمجھو کہ ریاست تکلیف میں ہے ۔ لیکن شاید یہ بات ہمارے دیس پر صادق نہیں آتی ، کیونکہ 70سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ عوام جب روڈوں پر محوئے احتجاج تھے اور کوڑے ، آنسو گیس و گولیوں کی زد میں تھے تو عین اس وقت ملک کے حکمران کلبوں میں انگریزی ناچ ناچنے اور عیاشیوں میں مصروف تھے ۔ پھر کہا جاتا ہے کہ اگر کسی ریاست کو دیکھنا ہے تو حکومت کے اُمور ِ کار کو دیکھو ، پتا چل جائے گا کہ ریاست کیسی ہے ۔

اور دنیا نے ہماری حکومتوں کے اُمور کار کے تسلسل کو دیکھ کر ہی شاید ہمیں Hybrid Regimeممالک کی فہرست میں رکھا ہے ۔ جس کا مطلب ہے دوہرا یا مخلوط یا پیوندی نظام ِ حکومت ۔ اور اس فہرست میں بھی ہم بنگلا دیش ، نیپال اور فجی جیسے ممالک سے بھی پست حیثیت کے حامل ہیں ۔ملک میں براہ راست آمریتوں اور محتاج و کمزور سیاسی حکومتوں کے تسلسل نے کبھی حقیقی عوامی جمہوری نظام کو پنپنے نہیں دیا ۔ جس کے باعث عوام اور عوام کا مفاد ملکی سیاست اور اقتداری ذمے داریوں سے بے دخل ہوکر رہ گیا ہے ۔ آئین کے آرٹیکل 8سے 28میں جو شہریوں کو بنیادی حقوق حاصل ہیں، وہ عملی طور پر ملنے کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا ،جس کی وجہ عوام کا ریاستی و حکومتی اُمور میں کوئی کردار نہ ہونا ہے ۔

جب ملک میں یہ تاثر قائم ہو اور دن بہ دن مستحکم بھی ہوتا جائے کہ ملک میں اقتدار عوام کی طاقت سے نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے آشیرواد سے حاصل ہوتا ہے ، تو پھر عوام کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے ۔ ویسے تو عوامی و جمہوری سیاست کرنے والی جماعتوں پر یہ لازم ہوتا ہے کہ ملک میں عوامی رائے عامہ کو تیار کرکے عوامی ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد کرے ۔ لیکن وطن ِ عزیز میں تاحال یہ محاذ بھی خالی یا کم از کم ضعیف نظر آتا ہے ۔

ملک میں پرو اسٹیبلشمنٹ گروہ، ادارے یا جماعتیں '' سب سے پہلے پاکستان ''، ''قرض اتارو -ملک سنوارو'' ، ''ڈیم بناؤ -ملک بچاؤ'' ، اور ''تبدیلی آئی رے '' یا ''نیا پاکستان '' بنانے کے نام پر عوام کو گمراہ کرکے اپنا اُلوسیدھا کرتے ہیں ۔ جب کہ عملی طور پر اُن کا یا اُن کے آقاؤں کا ملک و قوم کی ترقی ، تحفظ اور استحکام سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا ۔ وہ تو ملک اور ملکی اقتدار پر اپنے مستقل قبضے کو برقرار رکھنے اور عوام کو غلام بنائے رکھنے کے لیے یہ کھیل کھیل رہے ہوتے ہیں ۔ جس میں نئے نئے جوکر بھرتی کیے جاتے ہیں ۔ پھریہاں بڑی سے بڑی جماعت بھی تھرڈ ایمپائر کی انگلی کے اشارے کی منتظر نظر آتی ہے۔

حالیہ صورتحال میں بھی یہی نظر آتا ہے کہ ملک کی مقتدر قوتوں نے محسوس کیا کہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں کے باعث مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافے کی وجہ سے مستقبل قریب میں عوام کا شدید رد عمل پیدا ہونے کے خدشات کی بناء پر حزب اختلاف کو تھرڈ ایمپائر نے انگلی دکھائی ہے کہ عوام کو قابو میں رکھا جائے ۔ ورنہ اُنہیں اندیشہ تھاکہ شاید عوام آپے سے باہر ہوکرانقلاب ِ چین یا ترکی جیسا ماحول نہ برپا کردیں۔ علم سیاسیات کے مطابق جمہوریت کا مطلب عوامی ریاست ہوتا ہے۔ لیکن یہاں 7عشروں کی ملکی تاریخ میں ہمیں کوئی بھی عوامی حکومت اپنا دورانیہ مکمل کرتے نظر نہیں آئی ۔ اب بھلا جو عوامی و جمہوری حکومت اپنا وجود نہ بچا سکتی ہو وہ بھلا کیسے ملک کو عوامی فلاحی ریاست بنا سکے گی ؟

دوسری جانب ملک میں جاری انتہا پسندی اور دہشت گردی نے نہ صرف ملک و ملت بلکہ تمام دنیا کو لپیٹ میںلے رکھا ہے۔ دیکھا جائے تو اس تمام صورتحال کے پیچھے وہ سوچ ہے، جو اس ملک اور دین پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتی ہے ، جس کے تحت وہ اداروں حتیٰ کہ مسجدوں پر قبضے کی کوششوں میں ہیں ۔ ملک میں اب کوئی بھی مسجد عام مسلمان کی نہیں رہی ۔ کوئی شیعہ کی ہے کہ تو کوئی سنی کی ، کوئی دیو بندیوں کی ہے تو کوئی اہل حدیث کی ۔کہنے کو تو مسجد اللہ کا گھر ہے ، لیکن عملاً کسی نہ کسی فرقے یا تنظیم نے اُسے اپنا گھر بلکہ دفتر بنایا ہوا ہے ۔ اس سنگین ترین صورتحال پر بھی ملک میں کوئی تنظیم ، ادارہ ، حکومت اور حزب ِ اختلاف کی جانب سے ایوان و آئین کے تحت آواز اُٹھانے اور کوئی مؤثر حل نکالنے کی جانب پیش قدمی کرتے نظر نہیں آتا۔ حالانکہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی سے متعلق کوئی بھی حتمی فیصلے کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہونا چاہیے ، ورنہ آج تک کے نتائج کے مطابق کوئی بھی ادارہ ، حکومت یا جماعت یہ کام تنہا کر نہیں پائی ہے اور نہ ہی آیندہ کرپائے گی۔

یہ تمام تر صورتحال حکومتی و ریاستی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے لیکن اقتدار پر قابض دائمی و عارضی قوتوں کو تو خیر شرم نہیں کہ وہ اس بار ملک کے حقیقی مفاد میں اپنی ناکامی کا اعتراف کرنے کا کوئی اعلان کریں ،لیکن مانیٹرنگ اور متبادل کے فرائض رکھنے والا حزب ِ اختلاف بھی اپنی ذمے داریاں نبھانے سے کترانے کی مثال قائم کررہا ہے ۔ اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کے سربراہان میں سے کوئی کرپشن کے مقدمات میں جیل کاٹتے اپنے باپ کو بچانے کے چکر میں ہے تو کوئی خاندان بھر و جماعت کی اکثریت کو نیب سے محفوظ رکھنے کے لیے واویلا کررہا ہے ، تو کوئی 30سال سے مختلف کمیٹیوں کی سربراہی کی آڑ میں حاصل مراعات و سہولیات کی بناء پر اپنی عیاشیوں کو بحال کرانے کے جتن کر رہا ہے ۔اس لیے ان کی تمام پیش قدمیوں اور باتوں کا سبب عوام اور عوام کی خوشحالی نظر نہیں آتا ۔

عوام تو کسی کو یاد ہی نہیں اور کسی کے بھی ایجنڈہ میں ملک و ملت کی دائمی سالمیت و ترقی اور خوشحالی کی منصوبہ سازی یا پالیسی شامل نہیں ۔ عوام تو اس ملک میں مداری کا وہ بندر بن کر رہ گیا ہے جو صرف چابک کھاکر اُچھل کود کر تا رہتا ہے اور جواب میں مداری اور تماش بینوں کے پھینکے گئے کیلے کے چھلکے اور ٹکڑوں پر ہی گذارہ کرتا ہے ۔ حکومت تو خیر اپنے اور اپنے آقاؤں کے عزائم کے تحت عوام کی چیخیں نکالنے کے منصوبے پر کاربند ہے لیکن اپوزیشن بھی شاید ملک پر 72سال سے قابض ان مقتدر قوتوں کے اُسی منصوبے کے تحت عوام کا مرہم بننے کے بجائے اُں کی چیخوں سے لطف اندوز ہونے والی سونپی گئی ذمے داری کی سرانجامی پر عمل پیرا ہے ۔

دیکھا جائے تو ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی عروج پر ہیں ۔ ملک میں امن امان کی صورتحال یہ ہے کہ ملک میں 50کے قریب ایجنسیاں ، پولیس و رینجرز کی بھرماراور عام روایتی عدالتوں کا وسیع ترین نیٹ ورک اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کو کسی کو بھی 90یوم تک لاپتہ رکھنے جیسی پاور ہونے کے بعد بھی ملک میں دہشت گرد بلا کسی روک ٹوک کارروائیاں کرتے ہی رہے ہیں، لیکن کچھ عرصہ سے ملک میں سیریل کلنگ کے واقعات میں بھی تیزی آگئی ہے ، اور ان کارروائیوں کی بھیانک ترین صورتحال یہ ہے کہ معصوم بچیوں کے اغوا، ریپ اور بیدردی سے قتل کے واقعات بڑے پیمانے پر ہورہے ہیں ۔ پھر ملک میں بااثر افراد کا قانون سے بالاتر ہونا بھی عام ہوچکا ہے ۔

عدالتیں عوامی مفاد ِ عامہ کے مقدمات میں ڈیل کرتے اور انتظامی اُمور و پروجیکٹس کے افتتاحوں میں مصروف نظر آتی ہیں ۔ نیب سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں و ریاست کے مابین تھانیدار کا کردار ادا کرنے اور ثالثی کے فرائض سرانجام دینے کے کام میں مگن ہے ۔بعض اداروں کی معاشی کامیابیوں یا ترقی سے بھی ملک و ملت کو براہ ِ راست کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکا ہے۔

پھر معاشی اصلاحات کے نام پر ملک کے داخلی و خارجی اُمورپر آئی ایم ایف کو بااختیار بنانے سے ملکی سالمیت کو داؤ پر لگا دیا گیا ہے ۔ خطے میں ماضی کے ایک دشمن کی جگہ اب حکومت عالمی دباؤ پر دوستوں سے مراسم خراب کرنے کی بنیاد پر پڑوسی دشمنوں کی تعداد بڑھانے کے عالمی سام راجی منصوبے پر بھی زور و شور سے عمل پیرا ہے ۔ عالمی دباؤ کی واضح مثال تو سمندر میں کیکڑا ون سے تیل کے ذخائر نکالنے سے 90ڈگری کا یوٹرن لینا ہے۔

ملکی معیشت کی کہانی بھی طلسماتی کہانی کے کسی دیو کے پنجے میں آئی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ عالمی سطح پر ملک کی قدرو حیثیت اور ملک میں روپے کی قدر و قیمت دن بہ دن پَست سے پَست ترین ہوتی جارہی ہے ۔ اب تک ڈالر کی قیمت بڑھنے سے بجٹ خسارے میں 1922ارب تک اضافہ ہوچکا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ کریش ہوچکی ہے ۔ جب کہ ڈالر کے بعد اب ریال اور درہم بھی روپے کی قدر و قیمت کو پستی کی جانب دھکیل رہے ہیں ۔ پھر آئی ایم ایف آیندہ کچھ برسوں کے دوران 27ارب ڈالر واپس مانگ بھی رہا ہے ۔ پاکستانی عوام پر سب سے بڑا بوجھ افراط زر کا ہے، جس سے زندگی کا معیار دن بہ دن گرتا جارہا ہے۔

پاکستانی روپے کی قدر و قیمت تو بنگلادیش کے ''ٹکے '' سے بھی کمتر ہوکر رہ گئی ہے ۔اسٹیٹ بینک کی حالیہ مانیٹری رپورٹ کے مطابق گذشتہ 10ماہ میں ملک میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں 51%کمی آئی ہے ۔ مہنگائی دوگنی ہوگئی ہے لیکن اُس میں مزید اضافہ ہونے کا امکان ہے ۔ شرح ِ سود میں اضافہ سے مارکیٹ میں مایوسی طاری ہوگئی ہے ۔ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسی کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ حکومت نے ملک میں غربت کے بجائے غریب مٹاؤ منصوبے کا آغاز کررکھا ہے ۔

ملک میں نہ صحت کی معیاری خدمات و سہولیات میسر ہیں ، نہ مفت و معیاری تعلیم کا بندوبست ہے ۔ نہ روزگار کے مواقع ہیں اور نہ ہی بنیادی ضروریات ِ زندگی کی سہولیات ۔ پھر ملک غیر اعلانیہ براہ راست عالمی اداروں و قوتوں کے ہاتھوں میں آچکا ہے ۔ چائنیز کے روپ میں غیر ملکی افراد ملک سے انسانی اسمگلنگ سمیت اے ٹی ایم ڈکیتیوں ، چوری اور دیگر فراڈوں میں ملوث ہیں لیکن اس کے باوجود ملک میں اُن سے متعلق کوئی پالیسی ، قانون یا انتظامی اقدام کی نہ کوئی موجودگی کا پتہ ہے اور نہ ہی کوئی تیاری ایوان میں ہوتی نظر آتی ہے ۔

20سال سے ملک میں بدعنوانی کے خلاف کام ہورہا ہے لیکن کرپشن ہے کہ کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی جارہی ہے ۔ جس کا بنیادی سبب احتساب کا غیرجانبدار،شفاف اور معیاری نظام و ادارہ نہ ہونا ہے ۔ موجودہ نیب پر عدالت ِ عظمیٰ و عدالت ِ عالیہ سندھ پہلے ہی اپنے تحفظات کا اظہار کرچکی ہیں ۔

ایوان کو سال پورا ہونے والا ہے لیکن نہ حکومت کی جانب سے عوامی بھلائی و ملکی اُمور پر کوئی حقیقی قانون سازی ہوئی ہے اور نہ ہی حزب ِ اختلاف کی جانب سے عوام کے حقیقی مسائل پر ہی کوئی پوائنٹ آف آرڈر ، کوئی بل یا کوئی ریفرنس اور احتجاج یا کوئی آواز سننے میں آئی ہے ۔ ہاں البتہ سیاسی تنظیموں کی ایک دوسرے کی قیادت کی کردار کشی پر شور و غوغا اور ہنگامہ آرائی پر مبنی ٹورنامنٹ کی کئی جھلکیاں ضرور نظر آتی رہتی ہیں ۔اب ان سے کوئی پوچھے کہ اگر یہی سب کچھ کرنا تھا تو یہ تو سیاسی جلسوں ، جلوسوں ، میڈیائی پروگراموں اور پھر کنٹینر پر بھی ہورہا تھا ،پھر انتخابات کا یہ ڈھونگ رچا کر اللہ کو حاضر ناظر جان کر حلف لینے کے بعد بند ہال ( ایوان) میں یہ سب کرنے پر کروڑوں روپے خرچہ کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ دیکھا جائے تو ایوان کی کارروائی کو جاری و ساری رکھنا حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے ، لیکن موجودہ حکومت کو دیگر باتوں و کاموں کی طرح اس بات کا بھی شاید ادراک نہیں ہے ۔

حکومت اوراُس کی معاشی ٹیم کو کوئی اتنی سی بات سمجھائے کہ سونے کے دام بڑھنا تو معیشت کے اعداد و شمار پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن پیٹرول ، بجلی اور گیس کے نرخ میں اضافہ عوام کی زندگیوں پر براہ ِ راست منفی اثرات مرتب کرتا ہے ۔

یہ مہنگائی محض معیشت کے اعداد و شمار سمجھانے تک محدود نہیں رہتی بلکہ ملک میں بھوک ، افلاس اور بدحالی کی داستان میں نئے ابواب کا اضافہ کرتی ہے ، اور ساتھ ہی چوری ، ڈاکہ زنی ، ذخیرہ اندوزی ، بدعنوانی ، رشوت ستانی جیسے جرائم و دیگر معاشرتی برائیوں کو بھی فروغ دیتی ہے ۔ مہنگائی کے باعث لوگ اب 3کے بجائے دو وقت کی روٹی کھانے پر مجبور ہیں ۔ بات یہاں بھی نہیں رُکتی ۔ عوام اس مصیبت سے ابھی سنبھل بھی نہیں پائے ہیں کہ حکومت بلا جھجک یہ اعلان کرتے نظر آتی ہے کہ مہنگائی میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔ آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط پر معاہدے اور روپے کی قدر گرنے اور ڈالر کی قیمت بے قابو ہونے سے ملک میں بڑھنے والی مہنگائی کے بعد جون کے آغاز میں ابھی حکومت کو بجٹ بھی پیش کرنا ہے ۔ جس کے لیے امکان بلکہ اندیشہ ہے کہ اس مرتبہ بجٹ خود ایک عوامی بحران لے کر آئے گی ، جوکہ مہنگائی کی انتہا کی صورت میں ہوگا۔

موجودہ معاشی بحران پر قرضوں اور چندے و امداد سے قابو پانے والی حکمت عملی کو چھوڑ کر صنعتی شعبے میں ہنگامی اصلاحات کرکے پیداوار میں اضافے سے عالمی مارکیٹ میں روپے کی قدر کو مستحکم کیا جاسکتا ہے۔ بصورت دیگر زرعی وصنعتی شعبوں میں پراڈکشن کی حامل بنیادی اصلاحات کے بغیر ملک کو مکمل دیوالیہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔ ۔!!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں