سی این جی کا ناغہ اور بس میں بے بسی کا عالم
شام کے وقت، میں نے حبیب اللہ کو بتایا کہ میری اسکوٹر کا انجن کھل گیا ہے.
شام کے وقت، میں نے حبیب اللہ کو جب یہ بتایا کہ میری اسکوٹر کا انجن کھل گیا ہے تو میری بات مکمل ہونے سے قبل ہی وہ بولے '' خدا کا شکر ہے کہ آپ کی اس اسکوٹر نما چیز پر بالآخر یہ شبھ گھڑی نازل ہو ہی گئی'' یہ کہہ کر انھوں نے دانت نکال دیے یہ وہی مسکراہٹ تھی جس سے میری ہڈیاں سلگ اٹھتی تھیں۔ پھر یکدم چونک کر بولے ''یہ خبر سنانے کا مقصد کہیں یہ تو نہیں ہے کہ میں تمہاری اس اسکوٹر جیسی چیز کے پرزوں کے لیے تمہارے ساتھ کباڑا مارکیٹ میں دھکے کھاتا پھروں، اگر یہ اسی قسم کا دعوت نامہ ہے تو میں اسے نا منظور کرتا ہوں، میں تو کہتا ہوں کہ کباڑا مارکیٹ میں کھڑے گھاٹ پورا کا پورا اسکوٹر تلوا کر ہلکی پھلکی سی رقم جیب میں ڈال لو'' میں نے عرض کیا ''خبر سنانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ کل مجھے بس کے ذریعے آفس جانا پڑے گا، دونوں ساتھ چلیں گے، کئی سال ہو گئے بس کا سفر کیے ہوئے، میں نے سوچا ایک سے دو بھلے، ساتھ ہی چلتے ہیں۔''
فرمایا ''ٹھیک ہے کل آٹھ بجے بس اسٹاپ پر آ جانا، لیکن پھر بولے ''بلکہ ساڑھے سات بجے پہنچ جانا کیونکہ کل سی این جی کا ناغہ ہے'' میں نے کہا ''اگر سی این جی کا ناغہ ہے تو ہم اس قدر جلد بازی کیوں کریں؟ سی این جی کے ناغے سے ہمارا کیا تعلق''؟ بولے ''یہ راز کی بات کل بس اسٹاپ پر سمجھاؤں گا، ٹائم پر پہنچ جانا''۔ اگلے روز میں صبح جب بس اسٹاپ پر پہنچا تو انسانوں کے سر ہی سر نظر آئے، بالکل ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے لب سڑک کوئی سیاسی جماعت اپنا ورکر کنونشن منعقد کر رہی ہے۔ ہجوم کو چیر کر حبیب اللہ باہر نکلے اور میرا ہاتھ پکڑ کر کھینچتے ہوئے ایک خاص مقام پر لے آئے، پھر حکم دیا کہ ''خواہ کتنے ہی دھکے لگیں یہ جگہ ہر گز نہ چھوڑنا''۔ میں نے بوکھلا کر پوچھا ''مگر بس کہاں ہے؟'' لاپرواہی سے شانے اچکا کر بولے ''بس جہاں بھی ہو، لیکن جب بس یہاں پہنچے گی تو اس کا پچھلا گیٹ ٹھیک اسی مقام پر ہو گا''۔ ''لیکن آپ کو کیسے معلوم کہ بس کا گیٹ اسی جگہ پر ہو گا''؟ مختصر جواب ملا ''تجربہ'' میں نے پھر دریافت کیا کہ ''بس آ کیوں نہیں رہی؟'' بولے ''آج ناغے کا دن ہے نا۔''
آٹھ بجے سی این جی اسٹیشن بند ہو جائیں گے اس لیے ساری بسیں سی این جی لینے کے لیے لائن میں لگی ہوئی ہیں۔ جن کو گیس مل گئی ہے وہ روٹ پر آ چکی ہیں اس لیے بسیں شارٹ ہیں''۔ ''لیکن ہم بس میں سوار کیسے ہوں گے؟ وہ تو پہلے ہی بھری ہوئی آئے گی پھر سیکڑوں امیدوار صرف اسی اسٹاپ پر الگ موجود ہیں'' وہ میری نادانی پر مسکرا کر بولے ''تجربہ، کالم نویس صاحب تجربہ'' میں خاموش ہو گیا لیکن خاموش رہا نہ گیا لہٰذا پوچھ بیٹھا ''کل سی این جی کا ناغہ نہیں ہو گا کل تو آسانی سے سوار ہو جائیں گے نا''؟ فرمایا ''نہیں، کل بھی یہی منظر ہو گا'' ۔ ''لیکن کیوں''؟ میں نے حیرانی سے پوچھا۔ وہی ہڈیاں سلگا دینے والی مسکراہٹ ان کے لبوں پر نمودار ہوئی اور بولے ''اس لیے کہ کل ناغے کا دن نہیں ہو گا'' میں نے اپنی پیشانی پر ہاتھ مار کر پوچھا ''بھلا یہ کیا بات ہوئی؟ ناغہ ہو تو عوام پریشان اور ناغہ نہ ہو تو پھر بھی عوام پریشان''؟ فرمایا ''یہ سوال تو حکومت کے ان دانشوروں سے پوچھو جنہوں نے یہ سسٹم ترتیب دیا ہے ۔
سسٹم یہ ہے کہ سی این جی ایک دن ملتی ہے اور ایک دن نہیں ملتی، لیکن سی این جی ملنے اور بند ہونے کا ٹائم صبح آٹھ بجے مقرر کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ چوبیس گھنٹے اگر سی این جی کا ناغہ کرنا ہی مقصود ہے تو یہ ٹائم رات کے گیارہ اور بارہ کے درمیان بھی ہو سکتا تھا، لیکن پھر عوام کیسے پریشان ہوتے؟ اس لیے ناپ تول کر صبح آٹھ بجے کا وقت سی این جی اسٹیشن کھلنے اور بند ہونے کا مقرر کر دیا گیا ہے''۔ میں نے پھر پوچھا ''اس سے کیا فرق پڑتا ہے''؟ بولے ''سارا فرق اسی ٹائمنگ میں ہی تو پوشیدہ ہے۔ ناغے والے دن تمام بسیں اور منی بسیں صبح آٹھ بجے تک اسٹیشن پر اس لیے لائن میں لگ جاتی ہیں کہ رات کو جو تھوڑی بہت سی این جی یہ گاڑیاں خرچ کر چکی ہیں اس کوٹے کو پورا کیا جا سکے، کیونکہ آٹھ بجے کے بعد پھر پورا دن انھیں گیس نہیں مل سکے گی اور جس دن ناغہ نہیں ہوتا ہے اس دن اس لیے لائن میں لگ جاتی ہیں کہ ان کے گیس سلنڈر رات تک خالی ہو چکے ہوتے ہیں۔ ٹھیک آٹھ بجے گیس ملنا شروع ہوتی ہے لہذا ہر بس اور منی بس گیس لیتی جاتی ہے اور روٹ پر آتی جاتی ہے۔ منی بس والوں نے تو کئی کئی اسپیئر سلنڈر چھت پر رکھے ہوئے ہیں، جو سی این جی کے نہیں بلکہ آکسیجن گیس کے ہیں، جو آئے دن پھٹتے رہتے ہیں۔ اس لیے صبح اپنے اپنے کاموں پر جانے والے لوگ ان بسوں اور منی بسوں کی کمی کے باعث بس اسٹاپس پر، پریشان کھڑے ہوتے ہیں۔ اگر یہ ٹائم بدل کر رات گیارہ بجے کر دیا جائے تو صبح کے وقت یہ پریشانی نہ ہو۔
یہ بسیں صبح کے وقت سڑکوں پر پہلے کی طرح دستیاب ہو جائیں گی اور شام کو گھر واپس آنے والوں کے لیے بھی موجود ہوں گی۔ مسافروں کی اکثریت کو گھر واپس پہنچا کر رات کو لائن میں کھڑی ہوں گی، لیکن شیڈول ترتیب دینے والوں کو اس لیے نہیں سمجھایا جا سکتا کہ وہ بس میں سفر ہی نہیں کرتے، بلکہ وہ تو ہمارے پیسوں سے خریدے ہوئے پیٹرول کو اپنی سرکاری گاڑیوں یعنی ہماری گاڑیوں میں ڈال کر سفر کرتے ہیں۔ بات کچھ سمجھ میں آئی کہ عوام صبح کے وقت، چاہے ناغہ ہو یا نہ ہو کیوں پریشان ہوتے ہیں''؟ میں نے ان سے عرض کیا ''پھر تو یہ ناغہ بھی ایک ڈھکوسلہ ہی ہوا۔ جب ہر گاڑی بشمول پرائیوٹ کاریں بھی اگلے دن کے لیے اپنے سلنڈر فل کروا لیتی ہیں تو ناغے کا فائدہ ہی کیا ہوا؟ سی این جی جتنی دو دن میں فروخت ہونی چاہیے ایک ہی دن میں بک جاتی ہے۔ اس سے تو بہتر ہے کہ ناغے کا نظام ہی ختم کر دیا جائے۔ کیونکہ گیس کی بچت تو ہو ہی نہیں رہی، عوام اور ٹرانسپوٹرز کی ٹینشن تو ختم ہو جائے گی'' ۔
بولے ''پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ منصوبہ بندی کرنے والے بسوں میں سفر نہیں کرتے لہذا یہ بات انھیں سمجھانا ایسا ہی ہے، جیسے بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنا'' ۔ اچانک ہجوم میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی اور ساتھ ہی کچھ لوگ بھی دوڑ دوڑ کر اس طرح پوزیشن لینے لگے جیسے کرکٹ کے میچ میں فیلڈرز مختلف جگہوں پر پوزیشن لینے کے لیے تیزی سے حرکت میں آتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ بس آ رہی ہے۔ حبیب اللہ نے مضبوطی سے میرا ہاتھ تھاما اور للکار کر بولے ''خبردار اپنی جگہ سے نہ ہلنا اگر بس میں سوار ہونا ہے'' ۔ خدا خدا کر کے بس قریب سے نظر آنے لگی اس پر مسافر ہر اس جگہ پر چمٹے ہوئے تھے جہاں چمٹنا ممکن ہو سکتا تھا۔ بس کے چہرے پر کراہت صاف نظر آ رہی تھی اور اس کے پہییے بقول پطرس، گھومنے کے ساتھ ساتھ بوجھ کی وجہ سے جھوم بھی رہے تھے۔ وہ اس بوڑھے باپ کی طرح لڑ کھڑا کر چل رہی تھی جس کے کاندھوں پر جوان بیٹے کا جنازہ رکھا ہو۔ پھر حبیب اللہ کے اندازے کے عین مطابق بس ہمارے قدموں میں آ رکی بلکہ آ گری۔
حبیب اللہ چیخے ''چڑھ جاؤ'' میں نے کہا ''مگر کہاں سے اور کیسے''؟ بولے ''ایسے'' یہ کہہ کر وہ غڑاب سے بس کے گیٹ میں ہجوم کو چیرتے ہوئے تیر کی طرح گھس گئے اور نہ جانے کیسے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے بھی ایسے کھینچ لیا، جیسے مقناطیس لوہے کی کیل کو کھینچ لیتا ہے۔ پھر بس کے اندر بے بسی کا یہ سفر کیسے کٹا؟ یہ روداد اگلے کالم میں پیش کروں گا۔ کیونکہ یہ دردناک داستان عبرت انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ خاصی طویل بھی ہے۔