چل بلہیا چل اوتھے چلیے
بابا بلھے شاہ کہتے ہیں کہ ’’چل بلہیا ایسی جگہ چل کر رہتے ہیں جہاں سب اندھے رہتے ہوں اور جہاں کوئی میری ذات نہ جانتا۔۔۔
KARACHI:
چل بلہیا چل اوتھے چلیے، جتھے سارے انے
کوئی نہ ساڈی ذات پچھانے، کوئی نہ سانوں منے
بابا بلھے شاہ کہتے ہیں کہ ''چل بلہیا ایسی جگہ چل کر رہتے ہیں جہاں سب اندھے رہتے ہوں اور جہاں کوئی میری ذات نہ جانتا ہو، اور نہ کوئی مجھے مانتا ہو''۔ یہ تو اس بہت بڑی فکر کے حامل شعر کے سادہ سے لفظی معنی ہیں، اور اگر اس شعر کی فکر انگیزی میں کسی نے اترنا ہے تو اتر جائے اور ڈوبتا چلا جائے اور اسرار و رموز سے آشنا ہوتا چلا جائے۔
اس بے ثبات دنیا میں بہت بڑے بڑے انسان آئے جنہوں نے دنیا والوں کو رہنے سہنے کے محبت بھرے سبق سکھائے، خود عمل کرکے دکھائے، مگر دنیا والوں نے نہ سدھرنا تھا اور نہ ہی وہ سدھرے۔ بڑے بڑے جلیل القدر پیغمبر، خالق کائنات کے پیغامات لے کر اس جہان میں آئے اور آج ان کے ذریعے آنے والے اﷲ کے پیغامات کتابی شکل میں بھی موجود ہیں۔ انجیل مقدس، توریت پاک، زبور شریف اور خاتم النبین پر نازل ہونے والا قرآن شریف۔ مگر ان الہامی کتابوں پر دسترس رکھنے کے دعویداروں، علما و مولوی حضرات اور پادری حضرات نے ہی انسانیت کے ان عظیم پیغامات کو فساد خلق بناکر رکھ دیا۔ گوتم بدھ اور ہندوؤں، سکھوں کے اوتاروں، پیشواؤں نے بھی اچھی اچھی باتوں کا ہی درس دیا ہے۔ مگر یہاں بھی حال خراب ہی رہے۔ آج کے منظرنامے پر نظر ڈال لیں، ساری دنیا میں ایک آدم کے نطفے سے پیدا ہوئے انسان کہلانے والے، ایک دوسرے کو مار رہے ہیں۔ عیسائی، مسلمان، ہندو، بدھشٹ، سکھ، یہودی۔۔۔۔ سب قتل کر رہے ہیں، قتل ہورہے ہیں۔
بڑے بڑے تعلیمی ادارے، یونیورسٹیاں، لائبریریاں انسان کے اندر موجود حیوان کا مکمل خاتمہ نہ کرسکے۔ ہاورڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹیوں کے حکمرانوں نے پوری دنیا کا سکھ چین برباد کر رکھا ہے۔ مصر میں انسانی خون بہہ رہا ہے۔ شام، اردن بھی سہمے ہوئے ہیں، عراق میں تباہی کے بعد بھی تباہی جاری ہے۔ فلسطین، بیت المقدس میں چوتھی یا پانچویں نسلیں امریکی حمایت یافتہ ہتھیار اٹھائے یہودی فوجیوں اور ٹینکوں پر پتھر پھینک رہے ہیں، افغانستان میں 9/11 کا بہانہ بناکر 12 سال سے موت کا رقص زمانے بھر کو دکھایا جارہا ہے۔ اسی افغانی جنگ نے پاکستان کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ہمارے ملک پر جدید سائنسی علوم کے پروردہ، نہتے و معصوم شہریوں پر ڈرون حملوں کے ذریعے بم برسا رہے ہیں، ایک دہشت گرد مارنے کی خاطر پندرہ بیس معصوم بچوں، عورتوں، بوڑھوں، جوانوں کو مار دیا جاتا ہے۔ ادھر ہمارے تا ابد پڑوسی ہندوستان کا یہ حال ہے کہ وہ ہمارے ''نازک حالات'' سے ماضی کی طرح فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اور نواز شریف کی نئی حکومت سے بات چیت کی بجائے اس نے پچھلے پندرہ بیس روز سے اچانک سرحدوں پر اشتعال انگیز فائرنگ شروع کر رکھی ہے۔
حالانکہ بھارت خوب جانتا ہے کہ پاکستان میں شدید ترین دہشت گردی ہو رہی ہے اور ہمارے اندرونی حالات شدید خراب ہیں۔ ایسے میں لائن آف کنٹرول پر گڑبڑ کم ازکم پڑوسیوں کو زیب نہیں دیتی۔ بھارت ہر سال ایک اور مہربانی بھی ہمارے ساتھ کرتا ہے کہ سیلاب کے دنوں میں بغیر بتائے ہمارے دریاؤں میں پانی چھوڑ دیتا ہے۔ اب کی بار بھی پہلے چناب اور پھر ستلج میں بغیر اطلاع کے پانی چھوڑ دیا گیا، جہاں پہلے ہی طغیانی کے باعث دریا لبالب بھرے ہوئے تھے اور ہر سال کی طرح اس بار بھی خیبرپختونخوا، پنجاب اور سندھ میں لاکھوں انسان بے گھر اور بے در ہوگئے، اور انسانی تباہی کا یہ سلسلہ سندھ اور پھر بلوچستان تک جاری رہے گا۔ گیتا، رامائن اور گرنتھ صاحب میں کیا لکھا ہے۔ حضرت میاں میر نے سکھوں کی درخواست پر انسانیت کا بول بالا کرنے کے لیے گولڈن ٹیمپل امرتسر کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ آج بھی سنگ بنیاد کا پتھر اس عبادت گاہ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ مولانا حسرت موہانی نے بھی مندر کے سنگ بنیاد رکھے اور ماتھے پر تلک بھی لگوائے۔
پنجاب کے باسیو! نانک کے ماننے والو! ستلج، چناب اور راوی سارا سال خشک رہتے ہیں۔ گرنتھ صاحب میں شامل اشلوک والے، بابا بلھے شاہ، بابا وارث شاہ، بابا فرید شکرگنج، شاہ حسین کی سرزمین ہر سال برباد ہوجاتی ہے۔ فصلیں تباہ اور مویشی بہہ جاتے ہیں غریبوں کے گھروندے اور چارپائیاں بسترے، برتن سب تمہارا مزید چھوڑا پانی بہالے جاتا ہے۔ شاہ لطیف، سچل سرمست اور شہباز قلندر کی دھرتی سے منسوب دریائے سندھ سارا سال خشک رہنے لگا ہے۔ میرے گاؤں میانی افغاناں، جہاں حبیب جالب پیدا ہوا، ہمارے دریائے بیاس کے پانی کے صدیوں پرانے بہاؤ کے آگے بند باندھ دیے گئے ہیں۔ دریائے بیاس بھی اداس ہے کہ اس کی راجدھانی کو چھوٹا کردیا گیا ہے وہ تو پورے پنجاب میں لہراتا، بل کھاتا، ''شوکیں'' مارتا، چلا جاتا تھا اور اب وہ ''ادھر'' مشرقی پنجاب تک ہی محدود کردیا گیا ہے۔
اب کچھ اپنے دیس کے انسانوں کا حال بھی لکھ دوں۔ یہ میرے دیس کے باسی، رحمت اللعالمین حضرت محمدؐ کے کلمہ گو ہیں اور اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ جب کوئی دہشت گرد کسی کو مارنے کا فرض ادا کرنے لگتا ہے تو وہ قاتل مقتول سے کہتا ہے ''اوئے کلمہ پڑھ لے'' یہ الفاظ لکھتے ہوئے میرا کلیجہ منہ کو آرہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ مجھے مزید نہیں لکھنا چاہیے۔ بس اتنا ہی کافی ہے اور میں مزید لکھوں گا بھی نہیں، میرا ہاتھ کانپ رہا ہے، قلم انگلیوں سے نکل رہا ہے، دل بیٹھ رہا ہے، دماغ پتا نہیں دماغ کا کیا حال ہے، میں لکھتے لکھتے رک گیا گیا ہوں، ایک لمحے کے پتا نہیں کون سے حصے میں پچیس تیس سال کی ''دہشت گرد'' فلم میرے سامنے سے گزر گئی ''کتنے ظالم چہرے جانے پہچانے یاد آتے ہیں'' اور کتنے اچھے، معصوم لوگ حالات کی نذر ہوگئے اور خوناخونی کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ محمدؐ عربی کا نام لیوا ہونے کے دعویدار، محمدؐ عربی کے ماننے والوں کو ہی بموں سے اڑارہے ہیں۔
جن جگہوں پر محمدؐ عربی کے بتائے ہوئے سبق کے مطابق نماز ادا کی جاتی ہے ان مساجد میں گھس کر خودکش بمبار خود کو اڑالیتا ہے اور اﷲ کے سامنے سربسجود، محمدؐ کے کلمہ گو اﷲ کے گھر سمیت ملبے کا ڈھیر بن جاتے ہیں اور یہ بم دھماکا کرنے والا بقول طالبان یا لشکر جھنگوی یا دوسرے لشکروں کے سیدھا جنت میں چلا جاتا ہے جہاں اسے انعام واکرام کے طور پر حوریں اور غلام پیش کیے جاتے ہیں۔ یہ ہمارے ملک میں ہورہا ہے ہم دوسرے ملکوں کو کیا کہیں، کیا گلہ کریں، کیا شکایت کریں، پڑھے لکھے لوگوں نے دنیا کو بنایا بھی اور بگاڑا بھی ہے۔ باقی یہ دنیا جو اب تک قائم و دائم ہے یہ اﷲ کے گمنام نیک بندوں، عبادت گزاروں اور فقیروں کا کرشمہ ہے جو کسی کے سامنے ظاہر نہیں ہوتے۔ یہ اﷲ کے ولی پوری دنیا میں سمندروں، ہواؤں، پہاڑوں کا نظام سنبھالے ہوئے ہیں۔ انھی کی وجہ سے دنیا قائم ہے۔
پاکستان کے اندرونی اور بیرونی حالات نہایت سنگین ہیں، نئی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو مزید وقت درکار ہوگا۔ یہ وقت اندرونی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ حکمران اور حزب اختلاف احساس ذمے داری کو مقدم رکھیں۔ ضمنی الیکشن میں غلام احمد بلور کا جیتنا بہت اچھا ہے۔ اس خاندان کا اپنا خاص مقام ہے۔ عمران خان کو بلور خاندان سے بہت سپورٹ ملے گی۔ ادھر اسدعمر کا جیتنا بھی نیک شگون ہے۔ باقی مضبوط پاکستان خطے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان، ایران، افغانستان، چین، روس اور بحیرہ عرب سب اس بات کو سمجھتے ہیں۔ نواز شریف کا صدر زرداری سے ملنا بھی حالات کے تقاضوں سے مطابقت رکھتا ہے۔ سب ٹھیک ہوجائے گا اور ہمارا خطہ بابا بلھے شاہ کی محبتوں کا گہوارہ بن کر قائم رہے گا۔