پہلے ترجیحات کا تعین کر لیجیے

اگر سچ لکھا تو حکومت برا مان جائے گی اوراگر جھوٹ لکھا تو عوام بہت برا منائیں گے.


S Nayyer August 23, 2013
[email protected]

ایک شدید بیمار خاتون نے اپنے شوہر سے پوچھا '' اگر میں مر گئی تو کیا تم دوسری شادی کر لو گے؟ '' شوہر شش وپنج میں پڑگیا پھر بولا ''اگر سچ بولا تو تم برا مان جاؤ گی اور اگر جھوٹ کہا تو ''وہ'' برا مان جائے گی ''۔19 اگست کو وزیراعظم صاحب نے تقریباً ڈھائی ماہ کے بعد جب قوم سے پہلا خطاب کیا تو میں بھی اسی قسم کی شش و پنج کا شکارہوگیا کہ اگر سچ لکھا تو حکومت برا مان جائے گی اوراگر جھوٹ لکھا تو عوام بہت برا منائیں گے ۔ پھر فیصلہ کیا کہ جو میں نے محسوس کیا اور جو بھی میری ذاتی رائے ہے ، وہ سچ سچ لکھ دینی چاہیے خواہ کوئی بھی برا مانے ۔ میں ایک کالم نویس ہوں اور ہر کالم نویس ہر معاملے میں اپنی ذاتی رائے قائم کرتا ہے ، جو غلط بھی ہوسکتی ہے اور درست بھی ، کالم نویس ہونے سے قبل میں ایک آدمی بھی ہوں ، انسان ہونے کا دعویٰ ہر گز نہیں کر سکتا اور آدمی خطا کا پتلا ہے ۔

وزیراعظم صاحب نے اپنی پچپن منٹ کی تقریر میں وہی کچھ بتایا جو اخبارات اور نیوز چینلز عوام کو پہلے ہی بتاتے رہے ہیں حتیٰ کہ نندی پور پروجیکٹ کے بارے میں بھی عوام پہلے ہی سے جانتے تھے ۔ بد امنی ، دہشت گردی اور بم دھماکوں کے بارے میں بھی کسے نہیں معلوم ؟ اور حکمران ان دھماکوں کی سنگینی سے اس قدر آگاہ ہر گز نہ ہوں گے ، جتنا کچھ وہ خاندان جانتا ہے ، جس کے گھر کا کوئی فرد ان بم دھماکوں کا شکار ہوچکا ہے ۔ نیلم جہلم پروجیکٹ اور نندی پور پاور پلانٹ میں غفلت اور کرپشن کا ذکر تو انھوں نے کیا ، اور یہ بھی بتایا کہ ان کی لاگت اربوں روپے بڑھ چکی ہے ، لیکن یہ نہیں بتایا کہ اس کا ذمے دار کون ہے ؟ ریکارڈ دیکھ اور تحقیقات کر کے یہ پتہ چلایا جائے کہ ذمے دار کون لوگ تھے حکومت کے لیے کوئی مشکل کام ہے ؟

پھر عرض کر رہا ہوں کہ جب تک ملک وقوم کونقصان پہنچانے والوں کا احتساب نہیں ہوگا اور انھیں سزا نہیں ہوگی نظام درست ہو ہی نہیں سکتا ۔ اب اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ان دونوں پروجیکٹس کو دوسرے ذمے داران نقصان نہیں پہنچائیں گے ؟ کیونکہ پہلے جن عناصر نے غفلت اور کرپشن کی وہی گرفت میں نہیں آئے تو کیا نئے ذمے داروں کی اس سے حوصلہ افزائی نہیں ہوگی ؟ ہاں اتنا ضرور ہوا کہ '' سومناتھ کا مندر جس نے بھی توڑا ہو تنخواہ عوام کی ہی کٹے گی '' یہ عملی طور پر عوام کوبتا دیا گیا کہ بجلی کی قیمتوں میں پندرہ فیصد اضافہ کردیا گیا ہے ، نندی پور پروجیکٹ کی لاگت میں جو اضافہ ہوا ہے ، اسے عوام کی جیبوں سے رقم نکال کر پورا کیا جائے گا ۔

سومناتھ کے بت کا احوال یہ ہے کہ ایک سرکاری اسکول میں انسپکٹر صاحب نے ایک طالب علم سے پوچھا '' سومناتھ کا بت کس نے توڑا تھا '' ؟ طالب علم نے سہمے ہوئے لہجے میں جواب دیا '' سر میں نے تو ہر گز نہیں توڑا آپ قسم لے لیجیے '' ۔ انسپکٹر صاحب نے کلاس ٹیچر کو یہ بات بتائی تو کلاس ٹیچر نے اس طالب علم کو مرغا بناتے ہوئے جواب دیا '' جناب اسی نے توڑا ہوگا یہ بڑا شرارتی ہے '' انسپکٹر بھنایا ہوا ہیڈ ماسٹر صاحب کے پاس گیا اور شکایت کی کہ آپ کے اسکول کا یہ معیار ہے کہ کسی کو معلوم ہی نہیں کہ سومناتھ کا بت کس نے توڑا تھا ؟'' ہیڈ ماسٹر صاحب نے معذرت خواہانہ انداز میں جواب دیا '' سر 500 طالب علموں کا اسکول ہے ، اتنے ہجوم میں کیسے پتہ لگایا جاسکتا ہے کہ سومناتھ کا بت کس نے توڑا تھا ۔

اسٹاف ویسے ہی کم ہے یہ سومناتھ ادھر ادھر پڑا رہ گیا ہوگا '' انسپکٹر صاحب نے محکمہ تعلیم کے متعلقہ افسر کو فون کر کے ساری صورتحال سے آگاہ کیا تو ادھر سے جواب آیا '' دیکھیں انسپکٹر صاحب سومناتھ کا بت جس نے بھی توڑا ہو ، پیسے آپ ہی کی تنخواہ سے کاٹے جائیں گے ، کیونکہ اس اسکول کی نگرانی کرنا آپ ہی کی ڈیوٹی ہے '' لہذا پندرہ فیصد مہنگی بجلی خرید کر عوام کی ہی تنخواہ کاٹی جائے گی،کرپشن کسی نے بھی کی ہو ۔ وزیراعظم صاحب کا یہ خطاب '' گا '' '' گی '' '' اور '' گے '' پر مشتمل تھا یعنی یہ کردیں گے اور وہ کردیں گے وغیرہ وغیرہ ۔ کبھی کبھی اپنے شاندار ماضی کا حوالہ بھی دیا گیا کہ ہم نے یہ کردیا تھا ، اور وہ کردیا تھا ۔ تقریر میں مسائل کا ذکر تو تھا ، حل کوئی پیش نہیں کیا گیا ، مالی مشکلات کا ذکر کیا گیا کہ قرضہ لے کر ملک چلانا پڑ رہا ہے ، لیکن خوابوں اور خیالوں کی شاعرانہ گفتگو بھی موجود تھی ۔ موٹر وے ، گوادر سے چین تک شاہرہ اور کراچی میں انڈر گراونڈ ریلوے کے وعدے کیے جار ہے تھے اور ''آن دی گراونڈ '' ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر سیلاب زدگان کا ریلا آیا ہی چاہتا ہے ۔

حکمرانو! عوام آپ سے امن و امان ، بجلی اور ہر سال آنے والے سیلاب کے سد باب کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ اور آپ موٹر وے ، گوادر سے چین تک شاہراہ اور انڈر گراونڈ ریلوے کی باتیں کر رہے ہیں جب کہ بقول آپ کے ملک ہزاروں ارب کے قرضوں تلے دبا ہوا ہے ۔ اس رقم سے غریب عوام کے لیے بندوں کے پشتے ہی بنوا دیں جو عوام کو سیلاب سے محفوظ رکھ سکیں ۔ کبھی سیلاب زدگان کا دکھ محسوس تو کر کے دیکھیں کہ بے چارے کس طرح اپنی اور اپنے مویشیوں کی جانیں بچانے کے لیے آسمان کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔ حکومت کی جانب سے صرف یہی ہدایات ملتی ہیں کہ محفوظ مقامات پر منتقل ہوجائیں ۔

کیا ہجرت اتنی ہی آسان ہے ؟ کون سے محفوظ مقامات ؟کیا حکومت نے یہ محفوظ مقامات تیار کر کے ان علاقوں کے عوام کو فراہم کیے ہوئے ہیں ؟ یا یہ عوام اتنے ہی خوشحال ہوچکے ہیں کہ انھوں نے اپنے لیے محفوظ مقامات پر فارم ہاؤسز بنا رکھے ہیں ؟ کیا کھڑی فصلیں اور مویشی جو ان کا واحد ذریعہ روزگار ہیں انھیں محفوظ مقامات پر منتقل کرنا حکمران طبقے نے اتنا ہی آسان سمجھ رکھا ہے ، جیسے علاج کے لیے لندن یا نیو یارک کے کسی فائیو اسٹار اسپتال میں منتقل ہوجانا ؟ یہ مظلوم عوام تو اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی فصلیں اور مویشیوں کو سیلابی پانی میں بے بسی سے ڈوبتے ہوئے دیکھتے رہتے ہیں اور خود درختوں پر چڑھ کر اپنی جان بچ جانے کی دعائیں کر رہے ہوتے ہیں ۔ '' یہ جو دریا بہہ رہا ہے ' ادھر گھر ہوتا تھا میرا '' ۔

اب تو یہ سیلاب طلسم ہو شرابا کا ایسا جن بن چکا ہے جو ہر سال آما دم بو آدم بو کی صدائیں لگاتا ہوا آتا ہے اور سیکڑوں جانیں چاٹ جاتا ہے ۔ اور حکمران صرف پی کیپ لگا کر اور ہوائی جہاز میں بیٹھ کر ایک فضائی جائزہ لینے کو ہی ان مسائل کا حل سمجھتے ہیں ۔ خدا کے لیے اس سیلاب کو روکنے کے لیے اور اس پانی کو ضایع ہونے سے بچانے کے لیے سرمایہ کاری کیجیے ، یہی محفوظ پانی عوام کی جانوں کو بھی محفوظ رکھے گا اور عوام کو بجلی بھی دے گا ۔ عوام آپ سے موٹر وے اور انڈر گراونڈ ریلوے نہیں مانگ رہے ہیں وہ سیلابی ریلے سے بچاؤ اور بجلی مانگ رہے ہیں ، وہ امن و امان مانگ رہے ہیں ۔ یہ سب ہوگا تو موٹر وے بھی بن جائے گی ۔ یہ سب پیٹ بھرے کی باتیں ہیں ۔ عوام کا پیٹ بھر دیں ، پھر عوام کو خود ہی ہری ہری سوجھنے لگے گی ۔ سب سے پہلا کام ترجیحات کا تعین کرنا ہوتا ہے اور حکمران اس کا ذکر نہیں کر رہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں