بے کسی سے بے بسی تک…
وہ اپنے اکلوتے بیٹے کی وجہ سے پریشان اور خاموش رہتا ہے .
گزشتہ سال میں اپنے مکان کے ایک حصے میں کچھ تعمیری کام کروا رہا تھا۔ بہت سے مزدور کام کررہے تھے لیکن ایک مزدور جسے دیگر مزدور درویش کے نام سے پکارتے تھے اور اس کی بہت عزت کرتے تھے، میں نے محسوس کیا کہ وہ خاموش اور کھویا کھویا سا رہتا تھا۔ نہ حساب کرتے وقت کچھ بولتا تھا، جو دے دیا سو لے لیا۔ اس کی حد سے بڑھی ہوئی خاموشی مجھے اس کی طرف متوجہ کیے رکھتی تھی۔ ایک دن جب وہ کام پر نہیں آیا تو مجھے تشویش ہوئی اور میں نے اس کے ساتھیوں سے اس کے متعلق دریافت کیا کہ وہ کہاں ہے اور یہ کہ وہ اتنا خاموش اور اداس کیوں رہتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کی وجہ سے پریشان اور خاموش رہتا ہے جو بری صحبت میں پڑ کر کچھ عرصے سے لاپتہ ہوگیا ہے۔ آج ہی درویش کو اس کے بارے میں اطلاع ملی ہے کہ اس کا لڑکا لوٹ آیا ہے لیکن باپ کے خوف سے ملیر میں کسی رشتے دار کے یہاں ٹھہرا ہوا ہے، لہٰذا اطلاع ملتے ہی درویش اپنے بیٹے کو لینے کے لیے ملیر چلا گیا ہے۔
مجھے یہ واقعہ سن کر درویش کی خاموشی کی وجہ سمجھ میں آگئی۔ دوسرے دن جب درویش ڈیوٹی پر آیا تو میں نے پراشتیاق ہوکر اس کے بیٹے کے بارے میں اس سے معلوم کیا۔ اس نے بڑے دکھ سے بتایاکہ کیا بتائوں صاحب! بیٹا ملا بھی اور کھو بھی گیا۔ میرے جس عزیز کے گھر وہ آیا تھا انھوں نے یہ سوچ کر کہ میرے آتے آتے یہ دوبارہ نہ بھاگ جائے، اسے بچوں کی جیل میں تین ماہ کے لیے بند کروا دیا ہے اور اب جیل حکام نے اسے تین دن کے بعد بیٹے سے ملنے کی اجازت دی ہے۔ لہٰذا وہ مقررہ تاریخ پر جائے گا اور ایسا ہی ہوا۔ تین دن بعد وہ کام سے پھر غیر حاضر تھا لیکن اگلے دن سے ہی وہ ڈیوٹی پر آگیا اور پہلے سے زیادہ غمگین اور مضمحل دکھائی دے رہا تھا۔ بیٹے کا نام آتے ہی ایسا محسوس ہوا جیسے غم کا لاوا پھوٹ پڑا ہو۔
میں نے سمجھایا کہ اچھا ہے کچھ عرصہ جیل میں رہ کر بری صحبت سے محفوظ رہے گا۔ تم محنت مزدوری میں لگے رہتے ہو۔ بچے کے سر سے ماں کا سایہ بھی اٹھ چکا ہے لہٰذا اس بات کا قوی احتمال ہے کہ پھر سے بری صحبت نہ اختیار کرلے۔ درویش نے میری بات تحمل سے سنی پھر کہنے لگا آپ بالکل ٹھیک کہتے ہیں صاحب لیکن وہ مجھ سے مل کر بہت رویا اور کہنے لگا ''بابا مجھے گھر لے چلو۔ اب میں تمہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جائوںگا۔ مجھے رات کو اندھیری کوٹھری میں بہت خوف آتا ہے۔ سوتے میں ڈرائونے خواب دکھائی دیتے ہیں۔ مجھے یہاں سے لے چلو، میں اب برے لڑکوں میں بھی نہیں بیٹھوں گا، اسکول بھی جائوںگا۔ بابا میں نے تمہیں بہت ستایا ہے مجھے معاف کردو۔''
اس واقعے کے بعد درویش تین چار دن تک کام پر مستقل آتا رہا، ایک دن وہ پھر نہیں آیا۔ اس کے ساتھ کام کرنے والے مزدوروں نے بتایاکہ درویش کا لڑکا جیل میں انتقال کرگیا۔ جس دن درویش اس سے مل کر آیا تھا اسی رات اسے تیز بخار چڑھا اور تیسرے دن اس نے دم توڑ دیا۔ درویش کی حالت بھی غیر ہے، اس پر ہذیانی کیفیت طاری ہے، سارے دن تنہا بیٹھا بڑبڑاتا رہتا ہے، اپنے آپ سے نجانے کیا باتیں کرتا ہے۔ یہ خبر سن کر میں سخت پریشان ہوگیا۔ دل تھا کہ جیسے کسی گہری ندی میں ڈوب گیا ہو۔ محسوس ہوا جیسے میرا بیٹا مجھے چھوڑ گیا ہے۔ تبھی مجھے کچھ محافظ انسانیت ہستیاں یاد آگئیں جنھوں نے معاشرے کے لیے سازگار اور صحت مند ماحول پیدا کرنے کی جدوجہد میں اپنی ساری زندگی بتادی تاکہ انسان نسلی، قومی اور امیری و غریبی اور خاندان و قبیلوں کے امتیازات جیسی درازکار راہوں میں بھٹک کر خیر و سعادت کے مقاصد عالیہ کو نہ بھول بیٹھے۔
مجھے کنفیوشس یاد آگیا جو رشد و ہدایت کی مشعل اٹھائے آبادیوں، جنگلوں، پہاڑوں اور صحرائوں میں سالہا سال دیوانہ وار پھرتا رہا تاکہ قدرت کی عظیم ترین تخلیق دنیا اور اس کی صناعی کے عظیم شاہکار انسان کے سر سے جہل و تاریکی کے بادل چھٹ جائیں اور اس کی تابندگی سے ساری زمین منور ہوجائے۔ مجھے سقراط اور ارسطو یاد آگئے جو تمام عمر انسان اور انسانی مسائل کو سلجھانے میں مستغرق رہے، جو صبح سے رات اور دوسرا دن نکل آنے تک ایک جیسی حالت میں اس طرح کھڑے رہتے تھے کہ نہ جسم پر پورا لباس ہوتا تھا اور نہ کھانے پینے کا ہوش، جن کی تمام کاوشیں، کوششیں خواہ تحریری ہوں یا تقریری امن و آشتی کا ایسا ماحول پیدا کرنے کے لیے تھیں جن سے فرد کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھرنے کا موقع ملے۔ میں نے تصور کی آنکھ سے دیکھا کہ یہ تمام عظیم المرتبت ہستیاں جیل کی تنگ و تاریک کوٹھریوں کے سامنے حیران و متاسف کھڑے بڑے دکھ سے ان لاتعداد بچوں کو دم توڑتے دیکھ رہی تھیں جن کو نامساعد حالات نے عزت و مفلوک الحالی نے بالآخر موت سے نزدیک تر اس منزل پر لاکھڑا کیا تھا۔
میں کئی ماہ تک درویش کے بیٹے کے ساتھ ہونے والے اس ناگہانی حادثے کو نہیں بھول سکا اور نہ درویش کو۔ لیکن یہ کہانی کسی ایک مزدور کی یا اس کے کمسن بیٹے کی نہیں ہے۔ یہ ان کروڑوں لوگوں کی کہانی بھی ہے جو 65 سال سے اس ملک میں جھوٹے وعدوں، نعروں اور دعوئوں کے پرچم تلے جی رہے ہیں، جو ہر پانچ یا دس سال بعد کسی جنرل یا کسی جنرل کے پروردہ نام نہاد جمہوری حکمران کو چنتے رہے ہیں۔ جنھیں ہر حکومت ایک نیا خواب دکھاتی ہے۔ ایک خوش کن خواب۔ زیادہ دور کی بات نہیں ہے ابھی مئی 2013 میں منتخب ہونے والی حکومت کے جو وعدے انتخابی جلسوں میں تھے انھیں یاد کرلیجیے اور ماہ اگست 2013 میں بجلی، گیس، پٹرول، غذائی اجناس کی بڑھائی گئی قیمتوں پر ایک نظر ڈالیںگے تو معلوم ہوجائے گا کہ ایک مزدور کا بچہ ہی بری صحبت میں کیوں خراب ہوجاتا ہے، کیوں گھر سے بھاگ جاتا ہے اور کیوں جیل کی تنگ و تاریک کوٹھری میں دم توڑ جاتا ہے۔