ماڈل کورٹس ایک اچھا اقدام

ماڈل کورٹس کے قیام کے ذریعے عدلیہ کے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے


ملک بھر میں قائم 116 ماڈل کورٹس نے صرف دس روز میں 1464 مقدمات کے فیصلے کیے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

SYDNEY: عدلیہ میں نظام کے اندر رہتے ہوئے نظام کو تبدیل کرنے کا عمل چیف جسٹس آف پاکستان جناب آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں انتہائی کامیابی سے جاری ہے۔ ضابطہ دیوانی 1908 میں 118 سال کے بعد 74 ترامیم کی منظوری اس سلسلے میں سنگ میل ثابت ہوئیں، اور اب ماڈل کورٹس کے قیام کے ذریعے عدلیہ کے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

ایک ایسا تعفن زدہ نظام، جہاں پر انصاف حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، ایسا نظام جس میں غریب آدمی کو انصاف اس وقت ملتا ہے جب اسے دنیا سے رخصت ہوئے برسوں بیت چکے ہوتے ہیں، ایسا نظام جس میں طاقتور کے لیے چھٹی کے دن بھی عدالتی نظام فعال ہوجاتا ہے اور غریب آدمی کا جج کبھی گرمائی چھٹیوں پر ہوتا ہے اور کبھی وہ وکلا گردی کا شکار ہوجاتا ہے۔ ایسا نظام جس میں 1950 کے کیسز بھی زیر سماعت ہیں۔ ایک کیس ایسا بھی ہے جس کا گزشتہ سو سال سے فیصلہ نہیں ہوسکا۔ ایسے بدبودار نظام کو درست کرنے کی ماڈل کورٹس سے زیادہ موثر کوشش شائد نہیں ہوسکتی تھی۔

ملک بھر میں قائم 116 ماڈل کورٹس نے صرف دس روز میں 1464 مقدمات کے فیصلے کیے۔ اگر ماڈل کورٹس اسی طرح فعال رہیں تو ملک بھر میں قتل اور منشیات کے مقدمات کی تعداد میں 80 فیصد کمی آسکتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وکلا اس نظام کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ہر اول دستے کا کردار ادا کرتے، غلطیوں کی درستگی کی جاتی، مگر

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

جی ہاں! آپ کو حیرت ہوگی وکلا تنظیمیں اس نظام کو ناکام کرنے کے لیے سرگرم ہوچکی ہیں۔ وکلا تنظیموں نے اعلان کردیا ہے کہ جو وکیل ماڈل کورٹس میں پیش ہوگا اس کا لائسنس منسوخ کردیا جائے گا۔ نئے جوڈیشل سسٹم کو ناکام کرنے کے لیے وکلا کی جانب سے ہڑتال کا شیڈول جاری کردیا گیا ہے۔

میری بطور ایک عام شہری پاکستان بار کونسل اور دیگر وکلا تنظیموں سے گزارش ہے کہ براہِ کرم نئے جوڈیشل سسٹم پر تحفظات کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے، نہ کہ عوامی مفاد کے نام پر ہڑتالوں کے ذریعے پورے سسٹم کو تباہ و برباد کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر یہ سسٹم ناکام ہوگیا تو اس سے صرف اور صرف اس غریب آدمی کا نقصان ہوگا جو پہلے سے ہی حالات کے جبر کا شکار ہے۔ اس طرح ایک تاثر یہ بھی ابھر رہا ہے کہ وکلا کو اس بات کا خوف ہے کہ اگر عدالتوں میں کیس ختم ہوگئے تو وکلا کی روزی روٹی کیسے چلے گی۔ حالانکہ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے

(مفہوم) زمین پر جتنے جاندار ہیں ان کا رزق اللہ کے ذمے ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں